کبھی Give Up نہ کریں
باتیں دونوں یادرکھنے کے قابل ہیں !
پہلی یہ کہ پریشانی حالات کی وجہ سے نہیں ، خیالات کی وجہ سے ہوتی ہے ،اکثر وہی حالات جنہیں ہم بدتر سمجھ کر خود کو دنیا کا پریشان حال ترین انسان سمجھ رہے ہوتے ہیں، کٹھن وقت گذرنے کے بعد یہ بدتر حالات Sweet Memory بن جاتے ہیں ، جیسے ڈیل کارنگی کہتا ہے کہ’’ ایک مرتبہ میں نے نئے سال کے پہلے دن اپنی ڈائری کچھ یوں لکھی کہ شکر ہے یہ منحوس سال گذر گیا ، میں تو اس سال دکھوں میں ہی گھرا رہا، اسی سال میرا آپریشن ہوا ،میرا پتاّ نکال دیا گیا اور میں کئی دن اسپتال میں پڑا رہا ،گذشتہ سال ہی مجھے اپنی پسندیدہ ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور پچھلے سال نہ صرف مجھے اپنے والد کی وفات کا صدمہ سہنا پڑا بلکہ کار حادثے میں زخمی ہو کر میرا بیٹا میڈیکل کے امتحان کی تیاری نہ کرسکنے کی وجہ سے فیل ہوگیا ‘‘ ڈیل کارنگی کے مطابق اپنے اسی لکھے کو کچھ عرصہ بعد جب میں نے پھر سے پڑھا تو منظر ہی کچھ اور تھا کہ جیسے ’’ گذشتہ سال ایک معمولی آپریشن اور چند دن اسپتال میں رہنے پر مجھے پتیّ کے اُس درد سے نجات ملی کہ میں جس کے کرب میں مہینوں سے مبتلا تھا ،پچھلے سال 60 سال کا ہونے پر میں با عزت ریٹائرہوا اور گذرے سال کسی پر ایک لمحہ بوجھ بنے بغیر 85 سال صحت مند اور بھرپور زندگی گذار کر والدِ محترم خالقِ حقیقی سے جا ملے اور کار کے ایک شدید حادثے میں میرے بیٹے کی جان بچ گئی ۔
دوسری یاد رکھنے والی بات یہ کہ اس دنیا میں مواقع سب کو ملتے ہیں، بس فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ’’کچھ ان مواقع سے فائدہ اٹھا کر کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ سب مواقع ضائع کرکے بس شکوؤں شکائیتوں میں ہی لگے رہتے ہیں ، یہاں دلچسپ بات یہ بھی کہ کوئی کامیاب شخص ناکامیوں کا مزا چکھے بنا کامیاب نہیں ہوا ،لیکن چونکہ ایک تو کامیاب لوگوں کی ڈکشنری میں لفظ Defeat نہیں ہوتا، یا تووہ جیت جاتے ہیں یا پھر کچھ سیکھ جاتے ہیں اور دوسرا انہیں خود پر یقین ایسا کہ ممکن اور ناممکن جیسے لفظ ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتے ،جیسے وہ بچہ جو 4 سال کی عمر میں ایک لفظ بولنے اور 7سال کی عمر میں ایک لفظ پڑھنے سے قاصرتھا ،جسے جب ذہنی پسماندہ قرار دے کرا سکول سے نکالا گیا تو پھر 12اسکولوں نے اسے داخلہ دینے سے ہی انکار کر دیا، لیکن یہی بچہ بڑا ہو کر آئن سٹائن بنا ، اسی نے دنیائے فزکس بدلی اور یہی نوبل پرائز کا حقدار ٹھہرا ، پھر وہ لڑکا جسے اسکے اپنے استاد نالائق کہا کرتے ، عملی زندگی میں جسے سست اور کاہل قرار دے کر کئی نوکریوں سے نکالا گیا ، اسی تھامس ایڈیسن نے ایک ہزار ناکام کوششوں کے بعد جب بلب بناڈالا تو پھر پوری دنیا اسکے گُن گانے لگی ، آگے سنیئے، چھٹی جماعت میں فیل ہونے اور اپنی سیاسی زندگی کا پہلا الیکشن ہار کر بھی ونسٹن چرچل 2 بار برطانوی وزیراعظم بنا اور پھر دنیائے باسکٹ بال کا آل ٹائم گریٹ مائیکل جارڈن خود بتاتا ہے کہ’’ جب میں ہائی ا سکول میں تھا تو مجھے باسکٹ بال ٹیم سے نکال دیا گیا ، پھر میں نے اپنے کیرئیر میں 9 ہزار شاٹس مس کیئے ،میں 3 سو میچز ہارا اورمیں نے 26 مرتبہ وننگ شاٹ مس کی مگر ان تمام ناکامیوں کے باوجود میں کامیاب اس لیئے ہوا کیونکہ میرے اندرہار کے خوف سے زیادہ طاقتور جیتنے کی لگن موجود تھی ‘‘۔
یہاں تذکرہ اس لڑکی کا بھی کہ جسکی ماں گھروں میں برتن دھونے والی جبکہ والد کوئلے کی کان میں ہیلپر،جسکی 9اور13سال کی عمر میں 2بار آبروریزی کی گئی ، یہی لڑکی 32سال کی عمر میں ’’اوپراونفری ‘‘ ٹاک شو کی میزبان بن کر میڈیا کوئین کہلائی اور گھروں میں برتن دھونے والی ماں کی ا س بیٹی کے پاس آج 3.2بلین ڈالر سے زیادہ دولت ، وہ جو بچپن میں ایسا توتلا کہ دوفقرے روانی سے ادا کرنے سے قاصر ،جو پڑھائی میں اتنا نالائق کہ نالائقی کی مثالیں مشہور، مگر یہی رچرڈ برانسن آج ایسا کامیاب کہ 4سو کمپنیوں اور سوا5ارب ڈالر کا مالک ، وہ جو اسکول اور کالج میں 10 مرتبہ فیل ہوا ، جسے 30 مرتبہ نوکری سے نکالا گیا لیکن آج یہی جیک ما دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس اور ویب سائٹ’’علی بابا‘‘کا بانی 35 ارب ڈالر اثاثوں کا مالک ،وہ خاتون جو شادی کے ناکام ہونے ،مالی تنگدستی اور مسلسل بے روزگاری سے تنگ آکر خود کشی کرتے کرتے رہ گئی ، جس نے ایک کہانی لکھ کر جب 12 پبلشنگ ہاؤسز کو بھیجی تو 12 پبلشروں نے ہی اسے بری طرح ردکر دیا مگرآج ’’ہیری پوٹر سیریز‘‘ کی اسی مصنفہ جے کے رولنگ کی کتابوں کی 4 سو ملین کاپیاں فروخت ہو چکیں اور اسکے مالی اثاثے 1 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ،وہ جو پیٹ بھرنے کیلئے راتوں کو مارکیٹوں کا کوڑا کرکٹ اٹھایا کرتا ، جو دفتروں میں جھاڑو دیتا ، جس نے ایک بیکری اور کئی دکانوں پر چھوٹی موٹی ملازمتیں بھی کیں اور جو گھر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ورکشاپ میں کھڑی ایک کھٹارا وین میں ہی سو جاتا یہی جیم کیری دنیائے فلم کا High Paid کامیڈین بنا اور آج یہ 150 ملین ڈالر دولت کا مالک ۔
پھر وہ جو اپنی زندگی کے 1009 منصوبوں میں ناکام ہوا ، جس نے 5سینٹ کی مزدوری بھی نہ چھوڑی اورجسے اکثر خالی پیٹ سونا پڑتا ، لیکن آج اسی ہرلینڈ ڈیوڈ سیڈنر کے 118 ملکوں میں برگرز کے20 ہزار آؤٹ لٹس ، وہ جو ایک معمولی کسان کا بیٹا اور جو دودھ بیچا کرتا مگر آج اسی سام والٹن کی stores chain دنیا بھر میں مشہور اوراسکی کمپنی کے اثاثے200 ارب ڈالر ،وہ جس کا بچپن اخبار بیچتے بیچتے گذرا ، جسے ایک نوکری سے اس لیئے نکال دیا گیا کہ ’’تم کند ذہن اور تمہارے پاس کوئی آئیڈیا نہیں ‘‘اور جو اپنے پہلے 2کاروباروں میں ایسا ناکام ہوا کہ جیب میں موجود صرف 40 ڈالر ہی بچ پائے مگر پھر اس نے قرضہ لے کر ’’ڈزنی لینڈ‘‘کی بنیاد رکھی اور یوں آج والٹ ڈزنی کی کمپنی کی مالی حیثیت 88 بلین ڈالر ،وہ جسے فیس بک نے جب نوکری سے نکالا تو اس نے گھر بیٹھ کر whatsapp نامی وہ سافٹ وئیر بنا ڈالا کہ جسے پھر مجبوراً منہ مانگی قیمت پر فیس بک کو ہی خریدنا پڑا، آج اسی برین ایکٹن کی دولت 5ارب ڈالر سے بھی زیادہ ۔
وہ ابھی چند سال کا تھا کہ اسکے والدین میں علیحدگی ہوگئی ، اسے اپنے بھائیوں سمیت بچوں کے یتیم خانے میں رہنا پڑا ،پھر جب اسکی شادی ہوئی اور چند سال بعد بیوی چھوڑ کر چلی گئی تو نوبت یہاں تک آپہنچی کہ یہ اپنے بچوں کو لے کر پارکوں ،ریلوے اسٹیشنوں ،ائیر پورٹوں حتی کہ ایک مرتبہ تو اس کو پبلک ٹوائلٹس میں رات گذارنا پڑی مگر پھر یہی کر سٹ گارڈنر انٹرنیشنل ہولڈنگز کا بانی اور سی ای ا وبنا اور ہالی ووڈ میں اسکی زندگی پر فلم بھی بنی، وہ جس کا خواب تھا دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنا ، ایکدن پیرا شوٹ پھٹنے سے جب وہ 16 سوفٹ بلندی سے گرا تو اسکی ریڑھ کی ہڈی 3 جگہ سے ٹوٹ گئی مگر ایک سال آرمی کے بحالی مرکز میں گذارنے اور 18 ماہ کی ٹریننگ کے بعد بیئرگرلز نے ایکدن ماؤنٹ ایورسٹ سر کر کے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ۔
صاحبو! اسی طرح جب ہم دیکھتے ہیں کہ 5کاروباروں میں ناکام ہنری فورڈ دنیا کی سب سے بڑی کاروں کی کمپنی کا مالک بن جاتا ہے،7 منصوبوں میں ناکام آر ایچ میسی جب اپنا پہلاسٹور کھولتا ہے تو اسکی کامیابیوں کو پر لگ جاتے ہیں ، بے روزگاری سے تنگ سویچیرو ہنڈا دنیا کی سب سے بڑی موٹر سائیکل کمپنی کا مالک ہوجاتا ہے ، ریڈیو کے 3ایڈیشنز میں فیل امیتابھ بچن ،ایک کلب میں معمولی نوکری کرنے والا محمد یوسف المعروف دلیپ کمار اور دوستوں سے ادھار پیسے لیکر ممبئی میں دھکے کھاتا شاہ رخ جب بالی ووڈ پر راج کرتے ہیں تو یقین ہو جاتا ہے کہ اگر برے حالات میں ، خیالات Positive رہیں اور اگر ناکامیوں میں گھر کر بھی بندہ give up نہ کرے تو پھرکامیابیاں مقدر بن جاتی ہیں ۔