جھوٹ بولا ہے تو
میرا دوست (ن) کہے خوبصورت جھوٹ وہی جو کوئی خوبصورت بولے یا کسی خوبصورت کے ساتھ بولا جائے ، جیسے پسندکی شادی کی رِٹ لگائے بیٹھی بیٹی سے عاجز آچکی ماں نے جب یہ پوچھ ہی لیا کہ ’’تم فلاں سے شادی کرنے کی کوئی ایک معقول وجہ ہی بتا دو‘‘تو شرماتی لجاتی بیٹی بولی ’’ماں وہ کہتا ہے کہ میں شہر کی سب سے خوبصورت لڑکی ہوں ‘‘ماں بولی ’’ماں صدقے جائے ، اس سے فوراً شادی کرلو، کیونکہ جو شخص شادی سے پہلے اتنا جھوٹا ہے وہ خاوند کمال کا ہوگا‘‘لیکن یاد رہے کہ جھوٹ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے ، کیونکہ کسی خوبصورت سے بھی اگر جھوٹ خوبصورتی سے نہ بولا جائے تو لینے کے دینے پڑ جائیں ، جیسے ایک دوست نے بتایا کہ عالمِ کنوارگی میں ، میں ایک نظربٹولڑکی سے جب یہ کہہ بیٹھا کہ ’’آپ جیسی خوبصورت لڑکی میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں ‘‘تو اس نے فوراً جوتی اتار لی ،تب سے میں نے توبہ کرلی کہ آئندہ سوچ سمجھ کر جھوٹ بولوں گا ۔
جیسے یہ ٹھیک کہ جھوٹ نے ہمیشہ سچ کے ساتھ وہی سلوک کیا ،جو اقتدار کیلئے مغل شہزادے اپنے بڈھے والدین سے کیا کرتے تھے، ویسے ہی یہ بھی درست کہ آج سچ کی جو عزت اور مقام وہ جھوٹ کی وجہ سے، کیونکہ اگر جھوٹ نہ ہوتا تو پھر سچ تو’’ٹکے سیر‘‘ بکتا، کہتے ہیں کہ پہلی بار جھوٹ بولنابڑا ہی مشکل ،دوسری مرتبہ نسبتاً آسان اور تیسری دفعہ تو سچ بولنا بڑا ہی مشکل ،کسی سیانے سے پوچھا گیاکہ ’’انسان نے جھوٹ بولناکب شروع کیا ‘‘جواب ملا’’جب سے بولنا شروع کیا ‘‘، ایک پہنچے ہوئے بابے کا قول ہے کہ ’’جھوٹ اور عورت پردے میں ہی بھلے‘‘لیکن اپنا شیخو کہے کہ ’’جھوٹ وہی جودوسرابولے اور اگر کوئی چاہے کہ وہ منٹوں سکنٹوں میں غریب ہو جائے تو سچ بولنا شروع کر دے ‘‘، لیکن ذرا ٹھہریئے ، ایک بات بتا دوں کہ ہر ایرا غیرا جھوٹ بول بھی نہیں سکتا ،کیونکہ وہ تو اگلے ہی لمحے پکڑا جائے گا ، کامیابی سے جھوٹ بول جانا اور پھر جھوٹ کو مسلسل یاد رکھ کر اسے سچ کے کپڑے پہنائے رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ، ایک اور بات جو غلط ثابت ہو چکی وہ یہ کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ، چلو اب اگر یہ مان بھی لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اگر جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے تو جھوٹ کو پَر لگے ہوئے ،کیونکہ جتنی دیر میں سچ جوتے پہنتا ہے اتنی دیرمیں تو جھوٹ آدھی دنیا کا چکر لگا کر آجاتا ہے۔
چینی کہاوت ہے کہ مچھلی کھاتے اور جھوٹ بولتے وقت دماغ کی آنکھیں کھلی رکھیں ، اسپینش بڑوں کا خیال کہ اگر بچہ جھوٹ بولے تو غلطی اوراگر بڑا جھوٹ بولے تویہ سچ اور انہی کی منطق کہ جھوٹ کی سب سے خطرناک قسم وہ جو بیو ی سے بولا جائے ، کیونکہ بیو ی سے جھوٹ بولنا مطلب شیر کے منہ میں یہ جاننے کیلئے ہاتھ ڈالنا کہ اسکے کتنے دانت ہیں ،اب مسئلہ تب تک تو ٹھیک رہے کہ جب تک آپ شیر کے دانت گن رہے ہوں، مسئلہ تب بگڑے جب شیر آپ کی انگلیاں گننے لگ جائے ، بیوی سے یاد آیا کہ بیوی سے تنگ ایک بھلا مانس دعا کروانے جب ایک دربار پر گیا تو وہاں اس نے سات بابوں کو زمین پر دریاں بچھائے عالمِ مراقبہ میں دیکھا ، وہ بھی ہاتھ باندھ کرایک طرف باادب کھڑا ہو گیا ،تھوڑی دیر بعد جونہی ایک بابے کی نظر اس پر پڑی تو یہ بولا’’باباجی بیو ی سے بہت تنگ ہوں ‘‘ یہ سننا تھا کہ بابے نے آواز لگائی ’’اوئے چھوٹے اندروں اِک دری ہور لے آ‘‘، دوستو! جیسے بڑھاپے میں شادی نہ کرنے سے مشکل کام شادی کر لینا ، جیسے جہیز میں ملنے والی سب سے مہنگی شے ساس اور جیسے’’ خشک سالی‘‘ گھر اور ملک دونوں کیلئے اچھی نہیں ہوتی ،ویسے ہی تازہ جھوٹ باسی سچ سے معتبر، ویسے ہی جھوٹ جیسے جیسے بوڑھا ہوتا جائے سچ میں ڈھلتا جائے اور ویسے ہی سچ میں ذرا سا جھوٹ ڈال دیا جائے تو بالآخر سارا سچ ہی جھوٹ ہو جائے جبکہ جھوٹ میں چاہے جتنا مرضی سچ ڈال دیں ،جھوٹ ،جھوٹ ہی رہے۔
اب تو یہ ثابت ہو چکا کہ آج کی اس گلوبل ویلج بنی دنیا میں جھوٹ پھیلاؤ مہم میں سب سے آگے آگے آج کا میڈیا ، میڈیا پر نہ صرف صبح کا ’’سفید جھوٹ‘‘شام تک کھر اسچ ہوجائے ، بلکہ میڈیا نے تو جھوٹ کی ایک ایسی قسم بھی متعارف کروادی کہ جو ’’جھوٹی اُمید یا مستقبل کا جھوٹ‘‘ کہلائے ، جیسے گذشتہ 70سالوں سے ہم یہ پڑھ اور سن رہے کہ ’’ہمارے مسائل کا حل حکومت کی اولین ترجیح ‘‘میڈیا کے بعد ہمارے ہاں ایک اور جگہ بھی ایسی کہ جہاں سب عقلمند ملکر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے میں جتے ہوئے ، جی بالکل آپ صحیح سمجھے ،بات ہو رہی ہے اپنے تھانے کچہریوں کی ، اس نگری میں تویہ حال ہو چکا کہ اب یہاں جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے سے زیادہ مشکل سچ کو سچ ثابت کرنا اور یہی وہ جگہ کہ جہاں ہر روز سب ملکر جھوٹ ماریں مگر پھر بھی یہ جھوٹ اتنا ڈھیٹ کہ مرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔
اب تذکرہ اگر ہو جھوٹ کا اوربات نہ ہو جھوٹ میں پی ایچ ڈی کر چکے اپنے قومی رہنما ڈاکٹر قریب العزت کی ، تو یہ زیادتی ہوگی ، ہمارا یہ دوست جس کا ڈیل ڈول اور شباہت ایسی کہ اسے ہر چیز’’ سوٹ‘‘ کرجائے سوائے اس سوٹ کے جو پہنا ہوا ہو،جس سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ’’ آپ نے ملک کی بھلائی کیلئے کیا کِیا‘‘، جواب ملا ’’میں کئی سال ملک سے باہررہا‘‘، جواپنے خاندان کی اتنی تعریفیں کرے کہ اب تو یہ صاف لگے کہ ایکدن کہہ دے گا کہ بحیرہ مردار بھی میرے باپ نے ہی مارا تھا ، جو ہر تیسرے ماہ طبیعت خراب ہونے پرچیک اپ کیلئے انگلینڈ جائے اور اگر کبھی طبیعت خراب نہ ہوتو 3ماہ بعد یہ چیک کروانے برطانیہ چلا جائے کہ اس بار طبیعت خراب نہیں ہوئی اللہ خیر کرے ،جسکی زندگی کے حالات و واقعات ایسے کہ ایک بار کسی پبلشر کو 3لاکھ دیئے کہ میری آپ بیتی لکھو، پبلشر نے جب بائیو گرافی کامسود ہ پیش کیا تو اُسے 5لاکھ دے دیئے کہ اسے چھاپنا مت ،جسکی سب سے بڑی کمزوری کسی کا انتظار کرنا ،تھوڑا سا انتظار کرنے پر ہی اسے بخار چڑھ جائے اور بخار کی شدت دیکھ کر اندازہ ہوکہ انتظار زنانہ ہے یا مردانہ ،جس کا دعویٰ کہ میری تو ساری عمر یہودیوں سے لڑتے لڑتے گذری ،وہ تو بعد میں پتا چلا کہ سسرالی یہودی ہیں ،جس سے ایک بار جب پوچھا گیا کہ زندگی میں کسی عورت کو دیکھ کر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میری شادی نہ ہوئی ہوتی تو بولا ’’ہاں ‘‘سوال ہو ا ’’کس عورت کو دیکھ کر ‘‘جواب آیا ’’ اپنی بیوی کو دیکھ کر ‘‘اور ظفراقبال کا یہ شعر جس کا پسندیدہ کہ :۔
جھوٹ بولاہے توقائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
ہمارے یہی ڈاکٹر قریب العزت جن کے جھوٹے پن کی اتنی دھوم مچی ہوئی کہ اب اگر یہ خود کبھی یہ بھی کہہ دے کہ’’ میں نے یہ جھوٹ بولا ہے تو سب کو یہ بھی جھوٹ ہی لگے گا ‘‘،یہی سب کو آئے روز یہ سمجھائے کہ ’’سچ کبھی کبھار اور سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے، کیونکہ سچ نہ صرف خود برہنہ ہوتا ہے بلکہ اکثر برہنہ کر بھی جاتا ہے اور یہی سب کو مشورہ دے کہ اگرتم چاہتے ہو کہ جھوٹ نہ بولو تو پھر نہ بولو‘‘ ،دوستو! جھوٹ کی سب جھوٹی سچی باتیں اپنی جگہ مگر یہ ایک حقیقت کہ نہ صرف آج سچ بولنا مشکل اور سچ سننا مشکل بلکہ یہ ثابت بھی ہوچکا کہ خوشامد کے بعد جھوٹ وہ کارآمد ہتھیار جو ہر میدان میں کامیاب ٹھہرے ، جیسے ایک صاحب جو اپنے وقتوں کے ’’ سب بڑے جھوٹے ‘‘ مشہورتھے ،کسی جگہ گئے تو انکی شہر ت سن کر ملنے آئی ایک 70سالہ بڑھیا بولی ’’بیٹے کیا تم وہی ہو جو عہدِحاضر کا سب سے بڑا جھوٹا ہے ‘‘،جھوٹے نے جواب دیا ’’محترمہ چھوڑیئے اس بات کو ،میں تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا ہوں کہ آپکی یہ عمر اور اس پر یہ حسن ،جمال اور یہ کشش ۔۔۔کمال ہے ،واقعی کمال ہے ‘‘ یہ سن کر پہلے د لہنوں کی طرح شرما کراور پھر دوپٹے کا پلو منہ میں ڈالتی بڑھیا بولی ’’ہائے اللہ۔۔ لوگ کتنے جھوٹے ہیں، جنہوں نے ایک سچے انسان کو جھوٹا بنا رکھا ہے ‘‘۔