جلیبی سیاستیں!
جلیبی سیاستیں، بقا کی جنگ، باطن ظاہر ہو گیا، دوست دشمن، دشمن دوست، شیر بکری، بکری شیر، جلیبی سیاستیں، کل تک بلاول کہہ رہے تھے، انکل نواز شریف مودی کا یار، گرتی دیوار کو ایک دھکا اور دو، وہ شہباز شریف کو یوں مخاطب کیا کرتے "قاتلِ اعلیٰ، ماڈل ٹاؤن قتلوں، میٹرو، اورنج، آشیانہ کرپشن کا حساب دو" آج بلاول فرما رہے "بادی النظر میں شہباز شریف کی گرفتاری سیاسی انتقام لگے" تقریر نویس نے بلاول کو کیا لفظ "بادی النظر، پکڑا دیا۔ جلیبی سیاستیں، کل تک شہباز شریف فرمایا کرتے "زرداری کو لاہور، لاڑکانہ کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں" وہ علی بابا چالیس چوروں کے پیٹ چیرنا چاہتے تھے، انہوں نے سندھ جا کر پی پی پر طنز کیا "مرسوں مرسوں کم نہ کرسوں" وہ کہا کرتے مجھے زرداری صاحب کے سوئس بینکوں میں پڑے ڈالر بلا رہے، آج وہی شہباز شریف چہرے پر مسکراہٹ سجائے قومی اسمبلی ہال میں زرداری صاحب کا ہاتھ تھامے کھڑے تھے، اپوزیشن چیمبر میں زرداری صاحب سے ون ٹو ون ملاقات فرما رہے تھے، مل کر چلنے کے پلان بنار ہے تھے، کہاں گیا وہ پیٹ چیرنا، سڑکوں پر گھسیٹنا، ملک و قوم کے درد میں کرپشن کا مال واپس لانا۔ جلیبی سیاستیں، کل تک زرداری صاحب کہہ رہے تھے "نواز شریف مغل اعظم، دھرتی کا ناسور، درندہ، نواز شریف نے ہمیشہ ڈسا، پیٹھ میں چھرا گھونپا، شریف برادران گریٹر پنجاب بنانے کے چکر میں" شریفس کا اصلی احتساب کیا جائے، نواز شریف سے کبھی صلح نہیں، ہمیشہ جنگ ہو گی، آج زرداری صاحب فرما رہے "نواز شریف سے مل کر چلا جا سکے" ، وہ شریفس کی گرفتاریوں کی مذمتیں کر رہے، وہ پی پی کو ن لیگ کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل کا گرین سگنل دے چکے۔ جلیبی سیاستیں، کل تک نواز شریف، زرداری صاحب کو چابی والا کھلونا کہہ رہے تھے، وہ زرداری صاحب کی لوٹ مار کا حساب لینے کے خواہشمند، وہ جلسے، جلوسوں میں کہا کرتے "کوئی بتائے زرداری شے کیا ہے" آج وہی نواز شریف اسی آصف زرداری کے ساتھ جمہوریت کی جنگ لڑنے کیلئے تیار۔
جلیبی سیاستیں، 20دسمبر 2018ء کو نیب قید سے سیدھے قومی اسمبلی پہنچے سعد رفیق فرما رہے تھے "اگر خدانخواستہ آصف علی زرداری کو گرفتار کیا گیا تو ملک میں ایک طوفانی اور ہیجانی کیفیت پیدا ہو گی" ، الفاظ پر غور فرمائیں، اگر خدانخواستہ آصف علی زرداری کو گرفتار کیا گیا، یہ خدانخواستہ والے سعد رفیق 4اپریل 2017ء کو کہہ ر ہے تھے "حیرت ہوتی ہے جب آصف زرداری کرپشن کے خلاف بات کرتے ہیں، کھا کھا کے، کھا کھا کے، ان کا پیٹ ہی نہیں بھرتا، زرداری صاحب کتنا کھانا ہے، آپ کا پیٹ کیسے بھرے گا، یہ جو پیٹ کا دوزخ ہے، اس میں کتنا ڈالنا ہے، زرداری صاحب یہ شوگر ملیں کہاں سے آئی ہیں، آپ کی شوگر ملیں کیا بچے دیتی ہیں، زردار ی صاحب آپ اربوں کھا گئے مگر پیٹ کی آگ نہ بجھی، زرداری صاحب اگر آپ کا کھاتہ کھل گیا تو آپ کا اتنا بڑا کھاتہ کہ پھر بند نہیں ہو گا"۔
جلیبی سیاستیں، وہ زرداری صاحب جو بے نظیر بھٹو کی وجہ سے کچھ ناں سے سب کچھ ہوئے، ملاحظہ کریں، بے نظیرکی وفات کے دوسرے دن فرمایا، ق لیگ قاتل لیگ، پھر ق لیگ کو شریک اقتدار کر لیا، فرمایا "میں بی بی کے قاتلوں کو جانتا ہوں" 5سالہ صدارت بھگتا گئے، جن قاتلوں کو جانتے تھے، انہیں پکڑنا کیا، نام تک نہ بتایا، آگے سنئے، بی بی قتل کی تحقیق کیلئے باہر سے آئی ٹیم کا سربراہ بتائے "مجھے رحمان ملک نے سو ڈیڑھ سو صفحات کا پلندا پکڑا کر کہا، یہ لیں، بی بی قتل پر ہماری رپورٹ، آپ بھی یہی رپورٹ دیدیں" گورا حیران رہ گیا، تلخ لہجے میں بولا "آپ کی بنی بنائی، گھڑی گھڑائی رپورٹ دیدوں، کیا میں یہاں سیر سپاٹا کرنے آیا ہوں" آگے سنئے، ایف آئی اے کے ڈی جی طارق کھوسہ اپنی کتاب میں لکھیں "جب بی بی قتل معمہ حل ہونے کے قریب پہنچا، جب میں قتل سے جڑے کچھ لوگوں کے قریب پہنچ گیا، تب عہدے سے ہٹا دیا گیا" ہے نامزے کی بات، زرداری صاحب صدر، یوسف رضا گیلانی وزیراعظم، رحمان ملک وزیر داخلہ مطلب پی پی کی اپنی حکومت، طارق کھوسہ بی بی قتل کا معمہ حل کرنے کے قریب پہنچے، انہیں عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ اب بھلا جو بی بی کو انصاف نہ دلا سکے، انہوں نے ہمیں کیا انصاف دلانا، جو اپنی لیڈر سے مخلص نہیں، ان سے ہمارا گلہ، شکوہ تو بنتا ہی نہیں۔
جلیبی سیاستیں، قائداعظم ثانی نواز شریف، خود چھوڑیں، گھر کے ملازم بھی کرپشن الزامات میں ڈوبے ہوئے، پانچ براعظموں میں جائیدادیں، پورا ملک، عدالتیں، ہر ادارہ سب "منی ٹریل، مانگ مانگ تھک گئے، جواباً کبھی مشرف کا ذکر، کبھی فیض کے شعر، کبھی سازشی تھیوریاں، کبھی سیاسی انتقام کی باتیں، کبھی ووٹ کی عزتوں کے مکر، کبھی سویلین بالادستی کے فریب، کبھی مجھے کیا پتا، کبھی کہی باتوں سے مکر جانا، کبھی مظلومیت کا ڈر، کبھی معصومیت کے ڈرامے، کبھی عدالتیں ٹھیک نہیں، کبھی حکومت انتقام لے رہی، کبھی جمہوریت خطرے میں، کبھی پارلیمنٹ بے توقیر ہو رہی، کبھی مشرق، کبھی مغرب، مجال ہے اربوں، کھربوں کی ایک رسید بھی دی ہو، پیسے کمائے کیسے، باہر بھجوائے کیسے، جائیدادیں خریدیں کیسے، 3سوالوں کا جواب تو نہیں، مگر کہانیاں، کہانیاں اور کہانیاں۔ یہ بھی ہو چکا، جن لندن فلیٹس کا میاں صاحب کو پتا ہی نہیں کہ بچوں نے کیسے خریدے، کن پیسوں سے خریدے، مطلب معصوم بچوں نے محنت کی یا ان کی لاٹری نکلی، انہی فلیٹس میں بیٹھ کر قوم کو بھاشن دیئے، قوم بھی ایسی کہ واہ واہ کرتی رہی، جھومتی رہی۔
جلیبی سیاستیں، کل تک شہباز شریف سے بلاول بھٹو تک سب کیلئے عمران خان کے یوٹرن حرام تھے، آج پی اے سی کی چیئرمینی کیا ملی، مرضی کی قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمینیاں کیا ہتھے چڑھیں، سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈز کیا جاری ہوئے، عمران خان کے یوٹرن حلال ہوئے، بلاول سے شہباز شریف تک یوٹرنوں کی تعریفیں، یہ جلیبی سیاستوں کے چند ٹریلر، یہ طبقہ اشرافیہ، بڑوں، بااختیاروں کے مائنڈ سیٹ کی چند جھلکیاں، ایسی سینکڑوں مثالیں اور، گو کہ یہاں یہ سب یاد کروانے کا کوئی فائدہ نہیں، یہاں گجنی یادداشتیں، گجنی معدے، یہاں شخصیتوں کی پوجا ہو رہی، یہاں عقیدتیں جیت گئیں، بصیرتیں ہار چکیں، یہاں لوٹ مار، لوٹ کھسوٹ کے دفاع ہو رہے، یہاں پتلی گلیاں، چور دروازے اتنے کہ آخر کار ہر بڑا بچ جائے، یہاں بڑوں کیلئے کوئی اور قانون ہو، چھوٹوں کیلئے کوئی اور، یہاں سسٹم ہی کرپٹ ہو چکا ہو، یہاں کسی کو کیا کہنا، یہاں کسی نے کیا سننا، لہٰذا مزید کچھ کہنے کی بجائے بس یہی کہ احتساب کو بنیاد بنا کر وہ جلیبی سیاستوں والے اور ہمنوا جو بال کھولے، سروں میں مٹی ڈالے یہ ہال دہائیاں دے رہے کہ ملک خطرے میں، جمہوریت خطرے میں، پارلیمنٹ خطرے میں، سویلین بالا دستی خطرے میں، ان کیلئے حبیب جالب کے یہ 3شعر:
وطن کو کچھ نہیں خطرہ، نظامِ زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں
جو بیٹھا ہے صفِ ماتم بچھائے مرگِ ظلمت پر
وہ نوحہ گر ہے خطرے میں، وہ دانشور ہے خطرے میں
اگر تشویش لاحق ہے تو سلطانوں کو لاحق ہے
نہ تیرا گھر ہے خطرے میں، نہ میرا گھر ہے خطرے میں