انقلاب نہ آنے کی وجہ !
جیسے فرانس کے انقلاب کو والٹیر اور روسو جیسے دانشوروں نے انقلابی فکر بخشی ویسے ہی ایرانی انقلاب کیلئے ذہن سازی کا زیادہ تر کام ڈاکٹر علی شریعتی نے کیا، صرف 43 سال کی عمر میں جلاوطنی کے دوران پراسرار طورپر قتل ہوجانیوالے ڈاکٹر علی شریعتی نے 22 سال تعلیم میں لگائے، 9 سال مختلف اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے، 5 سال جلاوطن اور سوا 2 سال شاہ ِایران کے قیدی رہے، لہٰذا اگر جمع وتفریق کی جائے تو اس فلسفی، مفکر اور دانشور کے پاس سکون اور اطمینان کے صرف 5 سال ہی بچتے ہیں لیکن کام دیکھا تو معلوم ہو کہ مختصر سی مدت میں اُنہوں نے ایران اور ایرانی قوم کیلئے جو کچھ کیا، کوئی دوسرا شاید100 سال میں بھی نہ کر پاتا۔ 25 کتابوں کے مصنف ڈاکٹر علی شریعتی نے تب کلمہ حق بلند کیا جب محمد رضا شاہ پہلوی آریا مہر کے دور شہنشاہی میں علم شناسی اور مردم شناسی یہ تھی کہ سوشیا لوجی میں پی ایچ ڈی کر کے ایران پہنچے ڈاکٹر شریعتی کو فردوس نامی قصبے میں اسکول ماسٹر لگا دیا گیا وہ تو اس ’’تاریخی تقرری‘‘ پر جب ہر طرف شور مچا تو مجبوراً محکمہ تعلیم کو انہیں مشہد یونیورسٹی میں پروفیسر لگانا پڑا۔
نوجوانوں اور غریبوں میں مقبول ترین ڈاکٹر شریعتی نے ایرانی قوم کو یوں تیار کر دیا کہ جب یہ قوم امام خمینی کے جھنڈے تلے جمع ہوئی تو شاہِ ایران کو تخت کیا ملک بھی چھوڑنا پڑگیا، 70ء کی دہائی میں تہران کے ایک غیر سرکاری مذہبی ادارے ’’حسینیہ ارشاد‘‘میں تاریخ شناسی اورانسان شناسی کی نظریاتی وتصوراتی تعلیم دینے والے علی شریعتی بلاشبہ اپنے دور کے ایک بڑے مقرر تھے، جب وہ بولتے تو مخالفین بھی سننے، سر دھننے پر مجبور ہوجاتے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ ٹوٹ ٹوٹ پڑتے، ذرا دیکھئے اپنی ایک تقریر میں وہ عام لوگوں کو کیسے مذہب سمجھا رہے ’’دوستو میں علی شریعتی بن محمد تقی شریعتی حیران کہ مذہب کے نام پر تم کن بھول بھلیوں میں گم ہوچکے، کیا تم نے اپنا دین بھلا دیا، اگرایسا ہے تو آؤ اسلام سے میں تمہارا تعارف کراؤں‘‘، سنو ’’قران کا آغاز (بسم اللہ) سے اور اختتام (الناس) پر، قرآن میں جہا ں کہیں بھی اجتماعی زندگی کا ذکر آیا وہاں اللہ کے ساتھ الناس آیا، یاد رکھو اللہ قرآن کی روسے رب الناس (لوگوں کے پروردگار) ملک الناس (لوگوں کے بادشاہ) اور الٰہ الناس (لوگوں کے حقیقی معبود) گویا ہر اعتبار سے اللہ تمام انسانوں کے رب، کسی خاص مکتبِ فکریا گروہ کی اللہ پر کوئی اجارہ داری نہیں، غور سے سنو، ہر معاشرے میں دو طبقے، ایک ہابیل کی طرح صاحب ِ ایمان، فداکار اور صلح پرست اوردوسرا قابیل کی طرح برادر کش، بے ایمان اور مادہ پرست، میں تمہیں ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں کہ عام طور پر یہ سمجھا جائے کہ قرآن میں موضوعات کے اعتبار سے پہلا درجہ عبادات کا، دوسرا اخلاقیات کا اور تیسرا معاشرے کا، حالانکہ اگر قرآن پاک کی سورتوں کے عنوانات کی درجہ بندی موضوعات کے اعتبار سے کی جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ 60 فیصد سے زیادہ سورتوں کے موضوعات کا تعلق اُس دنیا سے جو انسان نے ابھی مسخر کرنی، اس معاشرے سے جو انسان نے ابھی تعمیر کرنا اوراس فلسفے سے جو اس کام میں انسان کی رہنمائی کرے۔
دوستو یہ ڈا کٹر شریعتی ہی کہ جنہوں نے یہ کہا ’’انسان اور اس کی روح چار قسم کے قید خانوں میں بند، اول زندانِ طبیعت یعنی نیچر، دوئم زندانِ تاریخ، سوم زندانِ معاشرہ اور چہارم زندانِ ذات، انسان پہلے تین قید خانوں سے تو علم و عقل کے سہارے نکل سکتا ہے مگر چوتھے قید خانے سے دین کے علاوہ اسے کوئی رہائی نہیں دلا سکتا‘‘، یہ ڈاکٹر شریعتی ہی کہ جنہوں نے یہ بتایا ’’جو مذہب انسان کو مرنے سے پہلے فائدہ نہیں پہنچا سکتا، وہ مرنے کے بعد بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا‘‘، یہ ڈاکٹر شریعتی ہی کہ جنہوں نے یہ سمجھایا ’’خدا کیلئے جینا، خدا کیلئے مرنے سے کہیں زیادہ مشکل‘‘ اور ’’جاہل معاشرے میں شعور رکھناایک ناقابل معافی جرم‘‘، یہ ڈاکٹر شریعتی ہی کہ جن کی یہ سوچ ’’اسلامی تمدن کی روح کے 2 بنیادی اصول توحید اور رسالت اور انہی دو اصولوں پر ہماری انفرادی واجتماعی زندگی کی عمارت کھڑی ‘‘ اور’’ مستقبل کے تعلیم یافتہ انسان کا مکتب ِفکر آج کے تعلیم یافتگان کے بر عکس ایک مذہبی مکتب ِ فکر ہوگا اور تب اس مذہب کی حکمرانی ہوگی جو سائنس سے بہتر جانا جائے گا ‘‘، یہ ڈاکٹر شریعتی ہی کہ جن کا یہ وجدان ’’ سب سرمایہ، مال ودولت اور سونا چاندی جو کچھ لوگوں نے جمع کر رکھا اسے تمام مسلمانوں میں برابر تقسیم کیا جانا چاہئے ‘‘ اوریہ ڈاکٹر شریعتی ہی کہ جن کی یہ منطق ’’ اسلام وہ چراغِ ہدایت کہ جو نہ شرقی اور نہ غربی، یہ تو وہ پاکیزہ شجر کہ جس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئیں لیکن میں حیران ہوں کہ یہ کونسا اسلام کہ جس میں انسان اپنے اِردگرد بھوک، غربت، اسیروں کی سسکیاں، جلادوں کی دھاڑاور مجبوروں پر تکلیفوں کے تازیانے دیکھ اور سن کر بھی کسی کیلئے کچھ کرنے کی بجائے صرف اپنی نجات اور اپنی جنت کی جستجو میں لگارہے ‘‘۔
دوستو! انقلاب اور انقلابیوں کی باتیں کرتے کرتے نجانے کیوں مجھے یہاں چند اپنے انقلابی یاد آگئے، اب اگر یہ یاد آہی گئے تو لگتے ہاتھوں ذرا ان انقلابیوں کا حال بھی سنتے جائیے، ہمارے ایک بڑے رہنما جنہوں نے کبھی اپنے انقلابی ایجنڈے کے زور پر ایک زمانے کوآگے لگا رکھا تھاجب وہ ’’انقلابی مُک مکا ‘‘ کے تحت مخالف پارٹی کی حکومت میں وزارت سنبھال چکے تو ایک روز وفاقی دارالحکومت کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی راہداری میں اتفاقاً مل گئے، سلام دعا اور وزارت کی مبارک دینے کے بعد جب میں نے اتنے بڑے فیصلے کی وجہ پوچھی تو پکا سا منہ بنا کر بولے ’’میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ انقلاب کیلئے میرا اقتدار میں ہونا بہت ضروری کیونکہ جب میں نظام کے اندر رہ کر فرسودہ نظام کی جڑیں کاٹوں گا تو سالوں کا کام مہینوں میں ہو جائے گا ‘‘ اور پھر واقعی اُنہوں نے سالوں کا کام مہینوں میں ہی کرلیاکیونکہ 2 ڈھائی سالہ وزارت میں جتنا وہ کما گئے، کوئی دوسرا 10 سالوں میں بھی اتنانہ کما پاتا، اسی طرح اپنے وہ شاعر، ادیب اور دانشور جنہیں پڑھ کر سینکڑوں امن پسند باغی ہوئے، انہوں نے جس دن اپنی نظریاتی مخالف حکومت کی پیشکش قبول کرتے ہوئے ایک سرکاری ادارے کی سربراہی سنبھالی تو اسی شام ایک تقریب میں ٹاکرا ہونے پرعلیک سلیک کے بعد ابھی میں نے یہ کہنا شروع ہی کیا کہ ’’سر آپکو پڑھ کر جس حکومت کو ہم غاصب اور ظالم سمجھتے رہے۔ آپ اسی۔ ۔ ۔ ‘‘، میری بات کاٹ کر ہاتھ میں پکڑی کتاب مجھے زبردستی تھماتے ہوئے بولے ’’جس دن روٹی کی جگہ اسے کھا کر تم اپنا پیٹ بھر لوگے، اس دن بتا دینا میں بھی یہ عہدہ چھوڑ دوں گا ‘‘، پھر اپنے وہ انقلابی دانشور جو بظاہر تو ہر حکومت کے مخالف مگر اندر کھاتے اپنے فائدے کیلئے ہر کسی کی ہر وقت قدم بوسی کیلئے تیار، ایک دن جب ان کے انقلابی بھاشنوں سے عاجز آکر میں نے 5 سات اُن حکومتی نوازشات سے پردہ اُٹھا دیا کہ جو تازہ تازہ ان پر ہوچکیں تھیں تو قہقہہ مار کر بولے ’’ہم تو اقبال کے بھگت ہیں ‘‘میں نے حیران ہو کر پوچھا’’ کیا مطلب ‘‘ بولے ’’کیا علامہ نے نہیں کہا کہ خودی کو بلند کر‘‘ میں نے جواب دیا ’’بالکل کہا ‘‘ کہنے لگے ’’ میں بھی تو خودہی کوبلند کر رہا ہوں ‘‘ اور پھر اپنے وہ مفکرّ ِ اعظم کہ جن کی باتیں پانی کو آگ لگادیا کرتیں، جب ایک سرکاری ادارے کے سربراہ ہوئے تو صورتحال یہ ہوگئی کہ ایک دن میرے سامنے ان کے انچارج وزیر کے پی اے کا فون آگیا، فون کان سے لگاتے ہی یہ بے اختیار اُٹھے اور سینے پر ہاتھ رکھ کر عجب والہانہ انداز میں اگلے 10 منٹ تک جھکے سر کے ساتھ یس سر، جی سر اور ہاں سر کی مالا جپتے رہے، قصہ مختصر دوستو! ایک طرف، والٹیر اور روسو کو دیکھنے، اقبال کے معتقد ڈاکٹر علی شریعتی کو پڑھنے اور فرانس اور ایران کے انقلابوں کو پرکھنے کے بعدجب دوسری طرف میں ہر دربار میں ہاتھ باندھے کھڑے، فرقوں میں بٹے، تشہیر کے خواہاں، اپنی ذاتوں کے اسیر لٹیروں اور وڈیروں کے ساتھی اپنے ’’ڈب کھڑبے ‘‘ دانشوروں اور مفکروں کو دیکھتا ہوں توجہاں ملک وقوم کے ذہنی زوال کا سبب معلوم ہوجاتا ہے وہاں ابھی تک اپنے ہاں انقلاب نہ آنے کی ایک بڑی وجہ بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔