افتخار عارف کا مختار مسعود
’’آپ کے علم میں ہے کہ برادرم مختار مسعود کا پچھلے دنوں انتقال ہو گیا، سینکڑوں چینلز اور اخبارات کے اس ملک میں ان کی ذات کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ انتہائی شرمناک رہا، اتنے بڑے آدمی کو اتنی جلدی فراموش کردینا ہماری کم نصیبی ہے ‘‘یہ تین جملے عہدِحاضر کے نامور شاعر اور بھلے وقتوں کی آخری نشانی افتخار عارف کے اُس خط کے ہیں جو گذشتہ ماہ 25 مئی کو مجھے ملا، یہ وہی افتخار عارف جن کے بارے فیض احمد فیض کہہ گئے کہ ’’افتخار عارف کے کلام میں میراورمرزا سے لیکر فراق ا ورراشد تک سبھی کی جھلکیاں موجود‘‘، یہ وہی افتخار عارف کہ جنہوں نے ریڈیو پاکستان اوربی بی سی میں خود کو منوایا، جنہوں نے اردو مرکز لند ن کو پاؤں پر کھڑا کر دیا اور جو اکادمی ادبیات، مقتدرہ قومی زبان اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ کی حیثیت سے ہمیشہ ادب اور ادیبوں کیلئے سرگرم عمل رہے، یہ وہی افتخار عارف جنہیں عالمگیر شہرت ٹی وی پروگرام ’’کسوٹی ‘‘ سے ملی، جو تمغۂ حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلالِ امتیاز حاصل کر چکے اورجوہم بے صبروں، ناشکروں اور جلد بازوں کے دیس میں آج بھی رکھ رکھاؤ، وضعدا ری نبھانے میں لگے اور عجزوانکساری کا دامن تھامے ہوئے، یہ وہی افتخار عارف جن کا گھر جہاں سب کیلئے ’’ہائیڈپارک ‘‘ وہاں دیہاتوں سے اسلام آباد آنے والے ہم جیسوں کیلئے ایک مستقل ٹھکانہ اور یہ وہی افتخار عار ف کہ جو’’ مہرِ دونیم، حرفِ باریاب، جہانِ معلوم، بارہواں کھلاڑی اور شہرِ علم کے دروازے پر‘‘جیسے مجموعوں کے خالق اور جن کے ویسے تو سینکڑوں لاجواب شعر، مگر نمونے کے طور پر چند اشعار پیشِ خدمت:۔
تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں
*
میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے
*
وہی چراغ بجھا جس کی لوقیامت تھی
اسی پر ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
*
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا
اب میں اپنے پسندیدہ افتخار عارف کویہ کیسے بتاؤں کہ ہم نے بھلا کسے یاد رکھا کہ آپ ہم سے مختار مسعود کو بھُلادینے کا شکوہ کر رہے، یہاں بڑے دھوم دھڑکے سے سیاسی برسیاں تو منائی جائیں اور یہاں بیسوؤں صاحبِ حیثیت افراد کا پیدائش سے مرگ تک کاسفرِ زندگی تو آئے روز رٹایا جائے، مگر یہاں احمد ندیم قاسمی، رئیس امروہوی، محسن نقوی، پطرس بخاری، شفیق الرحمن، کرنل محمد خان، منیر نیازی اور ضمیر جعفری جیسے سینکڑوں شاعر اور ادیب کسی کو یاد تک نہیں، یہ تو و ہ دیس کہ جہاں احمد فراز سے سرکاری گھر خالی کروانے کیلئے ان کا سامان زبردستی سڑک پر پھینک دیا جائے اور جہاں دامن، جالب اور ساغر صدیقی کا جیتے جی جو حال ہوا وہ بھلا کس سے ڈھکا چھپا اور پھر سر!آج پاناموں میں گھرے لوگوں کو اتنی فرصت کہاں کہ مختار مسعود کے جانے پر نوحہ خوانی کریں، اخبارات کے پاس اتنی جگہ کہاں کہ انکے بارے میں کچھ چھاپیں اور ریٹنگ اور برینکنگ میں پھنسے چینلز کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ انکے تذکرے کریں، ہم قطری شہزادے کو ڈھونڈیں، عمران خان کی ٹوہ لگائیں، منی ٹریل ڈھونڈتی جے آئی ٹی کی مصالحوں بھری چسکے دار خبریں دیں یا مختار مسعود کی باتیں کرکے لوگوں کو ’’بور‘‘ کریں، جناب عالیٰ! جو آپ سوچ رہے یا جوآپ نے کہا وہ کہیں اور ہوتا ہوگا، یہاں علم وادب کی کیاوقعت اوریہا ں شاعروں، دانشوروں کی کیا اوقات، ہاں اگر مختار مسعود کی کوئی آف شور کمپنی ہوتی، ان کانام کسی کرپشن، لوٹ مار یا کمیشن کے چکر میں آیا ہوتایا ان کا تعلق طبقۂ اشرافیہ یا طبقۂ بدمعاشیہ سے ہوتا تو پھر نہ جیتے جی وہ نظر انداز ہوتے اور نہ انکے مرنے پر ہم چپ رہتے بلکہ پھر تو ان کے ہونے پر ایسے قصیدے پڑھے جاتے اور انکے جانے پر ایسے ڈرامے ہوتے اور یوں ٹسوے بہائے جاتے کہ آپ اپنے دوست کی موت کا غم بھول کر ہماری فنکاریوں پر خوشی سے پھولے نہ سماتے، سر!ابھی چند دن پہلے 4 سو فلموں کو موسیقی دینے والا وہ وجاہت عطرے جسے اپنی لمبی بیماری کے دوران بھارت سے تو علاج کیلئے پیشکشیں آتی رہیں مگر یہاں کسی نے پوچھا تک نہیں، وہ اس کسمپرسی میں مرا کہ سوچ کر ہی دل کانپ جائے، ابھی پچھلے ہفتے ہی اداکاراقبال حسن کے بھائی اور 100 سے زیادہ فلمیں کرنے والے تنظیم حسن کو بھی غربت کھا گئی اور صرف یہی نہیں اس وقت بھی ادب وفن کے کئی ستارے محرومیوں اور بے بسیوں کے سیاہ بادلوں کی لپیٹ میں، مگر یہاں کسی کو کیا پراوہ، افتخار صاحب شائد آپکو بھی یاد ہوکہ جس دن اپنے عہد کے نامور کالم نگار ارشاد حقانی کا جنازہ تھا اسی دن لاہور میں ٹیپو ٹرکاں والے کا بھی سفرِآخرت تھا پھر سب نے دیکھا کہ حقانی صاحب کو دفنانے توستر80 لوگ آئے جبکہ ٹیپو ٹرکاں والے کے جنازے میں ہزاروں کا مجمع تھا، سر !مجھے یاد آگیا کہ آپکے دفتر میں ہی تو عدیم ہاشمی مرحوم سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی، کیا شاعر تھا، کیا شعر کہے اس نے اور دیکھ لیں اسے بھی کتنی جلدی فراموش کر دیا گیا، بھلا کوئی عدیم ہاشمی کے علاوہ ایسے شعر کہہ سکتا ہے کہ :۔
سرِ صحرا مسافر کو ستارہ یا درہتاہے
میں چلتا ہوں مجھے چہر ہ تمہارا یاد رہتاہے
تمہارا ظر ف ہے تم کو محبت بھول جاتی ہے
ہمیں تو جس نے ہنس کر بھی پکارا یاد رہتا ہے
*
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
*
بہت نزدیک آتے جار ہے ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
*
بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے
*
بوزنے ہیں تو ملے ہم کو ہمارا جنگل
آدمی ہیں تو مداری سے چھڑایاجائے
سر!مجھے آج بھی یاد کہ ترکش، مکالمہ، چہر اتمہارا یاد رہتا ہے، فاصلے ایسے بھی ہوں گے، بہت نزدیک آتے جار ہے ہو، میں نے کہا وصال، مجھے تم سے محبت ہے اور چہر ہ تمہارا یاد رہتا ہے جیسے خوبصورت شعری مجموعوں کے خالق فصیح الدین المعروف عدیم ہاشمی کے اعزاز میں اسلام آباد کے ایک گیسٹ ہاؤس میں مشاعرہ ہو ااورمشاعرے کے بعد سردیوں کی اُس بھیگتی رات کے پچھلے پہر تھکے تھکے انداز میں میرے ساتھ پیدل چلتا عدیم ہاشمی جب یہ بتا چکا کہ ’’ میں اگلے ہفتے بائی پاس کروانے امریکہ جا رہا اور اگر صحت نے اجازت دی تو وہیں سے اپنی انگریزی شاعری کی کتاب ’’ڈیانا سمبل آف لو‘‘ کی تقریب رونمائی کیلئے لندن جاؤں گا ‘‘اور جب وہ یہ سنا چکا کہ ’’میں دل کے ہاتھوں بہت تنگ آ چکا، اب اس قصے کو آریا پار لگانا چاہتا ہوں ‘‘ تو میں نے انتہائی دُکھی عدیم ہاشمی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جب اس کا موڈ اور موضوع بدلنے کی کوشش کی کہ ’’یا رتمہارا دل نہ ہوا پاکستانی معاشرہ ہو گیا، راہِ راست پر آنے کا نام ہی نہیں لے رہا ‘‘ تو چلتے چلتے اچانک رُک کر اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ انتہائی غم زدہ لہجے میں بولا’’نہ نہ پلیز، یار میرے دل کواِس بے رحم اور بے حس معاشرے سے تو نہ ملاؤ، یہ تو وہ معاشرہ کہ جس میں سب کچھ مگر دل نامی شے کا کوئی وجود نہیں ‘‘، محترم افتخار صاحب آپکو کیا بتانا، آپ تو خود بھی کئی بار اسی معاشرے کے بے رحم تھپیڑے کھا چکے، لہذا گذار ش یہی کہ جہاں احمد ندیم قاسمی، محسن نقوی، پطرس بخاری، شفیق الرحمان، کرنل محمد خان، منیر نیازی، ضمیرجعفری، عدیم ہاشمی اور وجاہت عطرے جیسے سینکڑوں باکمال لوگوں پر مٹی ڈال کر کوئی مڑکربھی نہ دیکھے وہاں جتنی جلدی ہو سکے آپ بھی آوازِ دوست، لوحِ ایام اور سفرِ نصیب جیسی لاجواب تحریروں والے اپنے مختار مسعود کو بھول جائیں۔