عبرت ہی عبرت!
سوچوں نواز شریف، آصف زرداری، الطاف حسین، کیا جو نہ ملا۔ نام، مقام، پہچان، عزت، دولت، شہرت، بادشاہتیں، چاہتیں۔ الطاف حسین کو غریبوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا، ایک پھٹپھٹی موٹر سائیکل سے اٹھا کر لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنادیا، چاروں جانب بھائی بھائی، جواباً غربیوں، بے سہاروں کا بھائی دیکھتے ہی دیکھتے ڈان بن گیا، قتل و غارت، اغوا، بھتے، کبھی ملک توڑنے کی باتیں تو کبھی بھارت کو پاکستان پر چڑھائی کی دعوتیں، کبھی پاکستان مخالف نعرے تو کبھی فوج کو گالیاں، آج حالت یہ، دو قدم چلے سانس پھول جائے، بیماریاں، چھاپے، تفتیش، گرفتاریاں، برا حال، بانکے دیہاڑے، نواز شریف، ایک اوسط ذہن کا کاروباری، حکمت، دور اندیشی، نام و نشان نہیں مگر جنرل جیلانی، ضیاء الحق، قسمت، نصیب، مقدر، 2بار وزیراعلیٰ، 3بار وزیراعظم، جواباً میاں صاحب نے کیا کیا، اولادیں اچھے وقتوں کے مزے لوٹ کر عین وقت پر غیر ملکی نکلیں، جائیدادیں غیر ملک میں، 17سال سے پاکستان میں ایک ٹیکہ لگوایا نہ یہاں کسی اسپتال میں لیٹنا پسند فرمایا، اندرون ملک حال یہ، سپریم کورٹ نااہل کر کے کہے "آپ نے عدلیہ، پارلیمنٹ، عوام کو بے وقوف بنایا"بیرون ملک ڈیلی میل "پینٹ ہاؤس بحری قزاق، کہہ چکا، بیٹوں سے مل کر پشن کرنے پر خود جیل میں، بیٹے مفرور، بیٹی، داماد ضمانتوں پر، سمدھی بھاگے ہوئے، اب جیل میں بیٹھ کر پیش گوئیاں فرما رہے، اس عید پر فرمایا "میری یہ عید غریبوں کے نام" حالانکہ اگر ضمانت مل جاتی تو یہ عید بھی لندن میں ہوتی، ضمانت نہ ملی تو عید غریبوں کے نام، بے وقوف بنانے کی عادت گئی نہ ہیرا پھیریاں گئیں۔ یاد آیا مریم نواز بھی یہ تاریخی بیان دے چکیں کہ "اس ملک میں غریب کیلئے قانون الگ، امیر کیلئے قانون الگ"۔
کوئی مریم صاحبہ سے پوچھے، سب کیلئے، ایک قانون کس کو بنانا تھا، یہی تو آپ کو کرنا تھا، اب کیافائدہ، جب بابا جانی، پیارے چچا کی حکومتیں تھیں، تب یہ کر لیتے لیکن تب تو تخت و تاج تھا، چار سوراج تھا، تب یہ قانون شنون کسے یاد، شہباز شریف کی سنتے جائیے، چند دن پہلے لندن سے فرمایا "غریب عوام کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے"۔ غریبوں کا یہ مسیحا کہاں تھا، لندن میں، لند ن کیا کرنے گیا، چیک اپ کروانے، 3مرتبہ وزیراعلیٰ رہ کر ایک ایسا اسپتال نہیں، جہاں اپنا علاج ہوسکے، ایک ڈاکٹر ایسا نہیں جو غریبوں کے اس مسیحا کا علاج کر سکے، بیٹا، داماد، اہل خانہ لندن میں، علاج، چیک اپ لندن میں اور کہنا یہ "ہائے مجھ سے غربیوں کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی" یار یہ کتنے، پکے، سُچے، اداکار، اس اعتماد سے جھوٹ بولیں کہ سچ گھبرا جائے، کل زرداری صاحب کو لاڑکانہ، لاہور، پشاور، کراچی کی سڑکوں پر گھسیٹ رہے، چوکوں پر لٹکا رہے تھے، آج زرداری صاحب، بلاول بھٹو کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑ ے ہوئے، مجال ہے چہرے پر رتی بھر بھی شرمندگی ہو، جس اعتماد سے کل سڑکوں پر گھسیٹ رہے تھے اسی اعتماد سے آج جپھیاں ڈال رہے، کل کیا کریں گے یہ تو پتا نہیں مگر جو بھی کرینگے کمال اعتماد سے کرینگے۔
زرداری صاحب کی سن لیں، اپنی 64ویں سالگرہ سے 46دن پہلے 10جون 2019کو اسلام آباد سے گرفتار ہونے والے زرداری صاحب 28برس 10ماہ پہلے 10اکتوبر 1990بروز بدھ پہلی بار گرفتار ہوئے، 27ماہ 6دن کی قید کے بعد 6فروری 1993کو رہا ہوئے، 4نومبر 1996کو دوسری بار گرفتار ہوئے، 2967دن جیل میں رہ کر 22نومبر 2004کو رہا ہوئے، یہ تیسری گرفتاری، پہلے دونوں با ر رہائی ڈیل، ڈھیل کا نتیجہ، 14کیسوں میں یوں چھوٹے کبھی ثبوت غائب توکبھی گواہ، کبھی صدارتی استثناء تو کبھی ریکارڈ چوری ہوگیا، تب ہی تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے جعلی اکاؤنٹس کیس کے دوران زرداری صاحب کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے کہا "آپ کے موکل بری نہیں ہوئے، ٹیکنیکل بنیادوں پر چھوٹے" اس بار ثبوت ہمارے منہ پر ماریں تاکہ آپ کو بے گناہی کا سرٹیفیکٹ دے سکیں"، ثبوت کیا دینے تھے، 25والیمز والی جے آئی ٹی منی لانڈرنگ رپورٹ کے بعد جو ہونا تھا، وہی ہوا، زرداری صاحب، فریال تالپور، انور مجید اینڈ کمپنی اندر، مراد علی شاہ سمیت جو باہر ان کے سروں پر تلواریں لٹک رہیں، اللہ تعالیٰ نے زرداری صاحب کو کس چیزسے نہ نوازا، کیا تھے، بے نظیر بھٹو سے شادی ہوئی، کیا ہو گئے، بی بی نہ رہیں بھٹو کی پارٹی، وراثت، ملک کی صدارت ملی، 11سال سے سندھ کے سیاہ و سفید کے مالک، جواباً کیا کیا، بھٹو ازم ماردیا، پیپلز پارٹی کو مرحومہ مغفورہ بناچھوڑا، سندھ قبرستان بنادیا، سرے محل سے شوگر ملوں تک مبینہ طو رپر ایسی لوٹ مار کہ خدا کی پناہ۔
آج نواز شریف، زرداری صاحب اندر، الطاف حسین ضمانت پر، سب کے خاندان تتر بتر، بے بسی، بے کسی کا یہ عالم کہ بلاول بھٹو، مریم نواز کو افطاری پر بلارہے، مریم نواز، بلاول بھٹو کو جاتی امرا لنچ کرا رہیں، آسان لفظوں میں "بھٹو، ضیاء کو افطاریاں کرا رہا، ضیا، بھٹو کو لنچ کرارہا، عبرت کا مقام، جو دیکھ سکیں، سوچ سکیں، ان کیلئے عبرت ہی عبرت، یہ تو جو بویا، وہی کاٹ رہے، اب باری عمران خان کی، گوکہ 22 سالہ اپوزیشن کے بعد اقتدار میں آئے تو تیاری، ٹیم، وژن نہ سمت، 10 مہینوں کی کارکردگی صفر، غریب رل گیا، انڈسٹری سے زراعت تک، سب کچھ کھوہ کھاتے میں، گوکہ 22 سالوں میں جو جو کہا، 10 مہینوں میں اپنی ایک ایک بات سے پھرگئے، قدم قدم پر یوٹرن، ہر وہ کام کر لیا، جو نہ کرنے کی قسمیں کھائیں، گوکہ 10 مہینوں میں ستیاناس کا سوا ستیاناس کردیا مگر ابھی 10 ماہ ہی ہوئے، فرسٹریشن ضرور مگر مایوسی نہیں، ناامیدی نہیں لیکن قائد انقلاب سے گزار ش یہی، کبھی چند لمحے نکال کر یہ ضرور سوچیں، آپ سے زیادہ طاقتور، عقل مند، ہوشیار، سیاسی طور پر مضبوط، نواز شریف، آصف زرداری، الطاف حسین کا یہ حال کیوں ہوا، انہوں نے کیا غلطیاں کیں اور کیا آپ وہی غلطیاں تو نہیں کررہے، قائد انقلاب سے یہ بھی کہنا، وقت تیزی سے گزرہا، یہ وقت کسی کاہوا نہ آپ کا ہوگا، وقت ایک سا بھی نہیں رہتا، لہٰذا اس سے پہلے وقت نہ رہے، وہ کریں جو کرنے آئے تھے اور ہاں حکومت وہی کامیاب جس کا حکمران ذہین، یا حکمران کی ٹیم ذہین، یہ کبھی نہیں ہوا کہ دونوں نہلے اور حکومت کامیاب، کیا کہنا چارہ رہا، آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔