ہے نا مزے کی بات!
ہے نا مزے کی بات، اسلام آباد کے ایک معروف ہوٹل کی جگہ فلیٹ، شاپنگ مال، درجنوں بے ضابطگیاں، عدالت کا فیصلہ خلاف، پھر بھی نوٹسز، سب کو سنا گیا اور آخرکاربڑی عدالت نے تینوں ٹاورز "ریگولرائز، کر دیئے، چک شہزاد کے غیر قانونی فارم ہاوسز، نوٹسز بھیجے گئے، سب مالکان کو بلایا گیا، آخرکار تمام فارم ہاؤسز قانونی ہوئے، ہلکے پھلکے جرمانے، وہ بھی قسطوں میں مگر خیبر سے کراچی تک غریبوں کی دکانیں، گھر گرا دیئے گئے، نوٹس، شنوائی نہ کوئی متبادل بندوبست، ہزاروں لوگ بے گھر، کاروبار بھی گیا، ہے نا مزے کی بات۔ ایک اور کیس میں سابق میئر کراچی نعمت اللہ کی 2010ء کی پٹیشن کا سُنا جانا، بات جام صادق علی پارک کی ہونا، پتا چلنا پارک تجاوزات کی نذر ہو چکا، معاملہ آگے بڑھنا، کراچی ماسٹر پلان کے سوا ستیاناس کی الف لیلہ داستانوں کا سامنے آ جانا، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کا مبینہ طور پر یوں نوٹ چھپانا کہ 5سو غیر قانونی عمارتیں بنوا دینا، پارکوں، کھیل کے میدانوں، اسپتالوں، قبرستانوں تک کا بک جانا، رہائشی پلاٹوں پر شادی ہال، شاپنگ سنٹرز، پلازے بن جانا، عدالت کا یہ کہنا "شہر کو لاوارث، جنگل، گٹر بنا دیا، شہر نہیں سنبھال سکتے تو کسی کو دیدو، کام نہیں کرنا تو عہدوں سے کیوں چمٹے بیٹھے، آپ کے تو چپراسی کروڑ پتی ہو چکے، کراچی کو اس حال میں دیکھ کر شرم نہیں آتی، سب مال بنا رہے، مال باہر جا رہا، کراچی خالی دعاؤں سے ٹھیک نہیں ہوگا، صرف دعاؤں سے سب ٹھیک ہو جاتا تو آج عراق، شام، یمن، افغانستان کا یہ حال نہ ہوتا"۔
جسٹس امیر ہانی مسلم کی واٹر کمیشن رپورٹ پڑھ لیں، رونا آ جائے، لگے کراچی یتیم کا مال، اس سے پہلے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کہہ چکے "لاڑکانہ کے فنڈز بھی کھا گئے، ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دے"۔ ثاقب نثار نے کئی بار کہا "جس دن لانچوں میں پیسہ دبئی جانا بند ہو جائے گا، سندھ کے حالات بہتر ہو جائیں گے"، پھر 26دنوں میں 40بچے علاج کی سہولتیں نہ ہونے پر صرف ایک مٹھی اسپتال میں مر گئے، مائیں سیشن جج کو دکھ سناتے سناتے رو پڑیں۔ یہ سندھ، جہاں کے بلاول کو خوبصورت تقریروں سے فرصت نہیں، یہ سندھ، جہاں کے زرداری صاحب سے مبینہ کرپشن، کمیشن، منی لانڈرنگ، لوٹ مارکا پوچھ لو تو اٹھارہویں ترمیم، سندھ کی خود مختاری خطرے میں پڑ جائے، یہ سندھ، جہاں عام انسان جنگلوں، گٹروں میں رہ رہا جبکہ زرداری صاحب اینڈ کمپنی کی موجاں ای موجاں، یہ سندھ، جہاں کروڑوں محرومیوں، بے بسیوں کی نذر جبکہ ایک بڑے گروپ کے مزے، یہ سندھ، جہاں اگر کسی کی سو فیصد ضروریات پوری ہو رہیں تو وہ لیڈروں کے کتے۔
ہے نا مزے کی بات! 29اگست 2018ء کو چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال وزیراعظم سے ملنے جائیں تو ہاتھ ملاتے عمران خان بات یہاں سے شروع کریں "جاوید اقبال صاحب صرف 6ماہ میں جو عزت آپ نے کمائی، وہ بلاشبہ قابلِ تحسین، حکومت آپ کے ساتھ کھڑی، بلاامتیاز احتساب کریں، حکومتی عہدیداروں سے بھی NOرعایت"، ملاقات کے اختتامی لمحات میں چیئرمین نیب کہیں "نیب کے فنڈز رکے ہوئے، وہ دلوا دیں" وزیراعظم ہفتے دس دن کے اندر فنڈز دینے کا وعدہ کریں اور پھر 4ماہ گزر جائیں بلکہ 17جنوری 2019ء کو وفاقی کابینہ میں ایجنڈا آئٹم آئے کہ نیب نے 75کروڑ مانگے، عمران خان برہم، وزراء بھڑک اُٹھیں "نیب نے کیا کیا، جو اسے پیسے دیں، پلی بارگین کی رقمیں کہاں گئیں، پہلے نیب کا آڈٹ کیا جائے" یوں نماز بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے، دوسروں کا حساب کرنے والے نیب کا اپنا حساب ہونے لگا، یہ کیوں؟ یہ اس لئے کہ نیب زلفی بخاری سے پرویز خٹک تک، علیم خان سے محمود خان تک، پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے بابر اعوان تک حکومتی پیاروں کو بلانے، سوال کرنے کی جرأت کر بیٹھا، سوچوں صرف ایک سال میں 590ریفرنسز دائر کرنے والے نیب کی اس سے بہتر کارکردگی اور کیا کہ پی پی، ن لیگ سمیت تمام اپوزیشن مخالفت کر رہی اور حکومت بھی تنگ۔
ہے نا مزے کی بات! جیسے 6ماہ ضائع کرنے کے بعد سوچا جا رہا کہ کیوں نہ عثمان بزدار، محمود خان کی جگہ نئے وزرائے اعلیٰ لائے جائیں، ویسے ہی سانحہ ساہیوال کے بعد سوچا جا رہا کیوں نہ پنجاب میں پولیس اصلاحات کر لی جائیں، تاریخ تو یہی بتائے کہ ہر اپوزیشن کی خواہش پولیس اصلاحات ہوں اور ہر حکومت کی کوشش کہ ایسا نہ ہی ہو تو بہتر، لیکن پچھلوں سے تو پولیس اصلاحات کی توقع و امید تھی نہ انہیں اصلاحات Suitکریں، کیونکہ پی پی، ن لیگ دونوں کی سیاست تھانے، کچہری، پٹواری کے بل بوتے پر، پولیس ان کی ذاتی محافظ بھی، ووٹ لینے، مخالفین کو دبانے کا آلہ بھی، پنجاب میں 10سال 3ہزار اہلکار تو ہاؤس آف شریفس کی حفاظت کرتے رہے جبکہ سندھ میں پولیس زرداری، اومنی گروپ کی شوگر ملوں کو گنا پہنچانے میں لگی ہوئی، لہٰذا اصلاحات کی پہلے اور اب بھی امید عمران خان سے ہی، یہ علیحدہ بات کہ پولیس اصلاحات کے سرخیل، فلم تبدیلی کے پوسٹر بوائے ناصر درانی گئے تو کپتان نے مڑ کر خبر نہ لی، ہے نا مزے کی بات! سندھ میں 2002ء سے 2011ء تک پولیس آرڈر چلتا رہا، پھر جمہوریت آئی اور 1861ء کا پولیس ایکٹ آگیا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر میں بھی 1861ء والا پولیس ایکٹ، بلوچستان میں بھی 2002ء سے 2011ء تک پولیس آرڈر چلا، پھر 1861ء پولیس ایکٹ، بلوچستان میں تو صورتحال ایسی مضحکہ خیز کہ ان کے پولیس ایکٹ میں ایک شق یہ بھی "ہاتھیوں کی موومنٹ کو ریگولیٹ کیا جائے گا"، بلوچستان کے بقراطوں کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ ہاتھیوں کی جگہ آج کا کوئی جانور ہی ڈال دیتے، یہ بھی دیکھئے کہ فیض آباد یعنی راولپنڈی میں 2002ء کا پولیس آرڈر، فیض آباد سے دو کلومیٹر آگے اسلام آباد میں 1861ء کا پولیس آرڈر جبکہ اسلام آباد سے چند کلومیٹر آگے ترنول پھاٹک کی دوسری طرف کے پی میں 2016ء پولیس کا آرڈر۔
ہے نا مزے کی بات! حکومت فرما رہی آپریشن ساہیوال درست مگر خلیل فیملی کا مرنا غلط، جی بالکل، آپریشن درست، آپریشن میں مرنیوالے غلط، یعنی 5سی ٹی ڈی اہلکاروں پر ایف آئی آر ہو چکی، سی ٹی ڈی سربراہ سمیت دو ایڈیشنل آئی جی عہدوں سے ہٹا دیئے گئے، دو تین افسر برطرف، پھر بھی آپریشن درست، ہے نا مزے کی بات، 6مہینے ہونے کو آئے، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں روزانہ احتجاج، واک آوٹ، لڑائیاں، زبان درازیاں لیکن ایک واک آوٹ، احتجاج، لڑائی، زبان درازی، مہنگائی، بیروزگاری مطلب عوامی مسائل پر نہیں، سب کا سب کچھ اپنے لئے، اپنوں کیلئے، ہے نا مزے کی بات، آج کل پی پی کا مقدمہ ن لیگ لڑ رہی، ن لیگ کے مسائل پی پی والے حل کر رہے، مطلب بھٹو کے کام ضیاء کر رہا اور ضیاء کے کام بھٹو نمٹا رہا، ہے نا مزے کی بات، ملک کا وزیراعظم کھلاڑی، کرکٹ رینگ رہی، ہاکی کا بھٹہ بیٹھا ہوا، اسکواش کا کوئی پرسانِ حال نہیں، ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن، ٹینس، والی بال سب کھیل زوال پذیر اور کھلاڑی وزیراعظم کو فکر نہ فاقہ، ہے نا مزے کی بات! 22جنوری 2016ء کو عمران خان نے کہا "ٹیکس ایمنسٹی ایمانداری پر ٹیکس، یہ کالا دھن سفید کرنے کا اجازت نامہ، ٹیکس چوروں کی مدد، اقتدار میں آکر ایمنسٹی اسکیم ختم کر دوں گا" اور پھر اقتدار میں آکر ابھی دو دن پہلے 25جنوری 2019ء کو عمران خان صاحب بولے "ٹیکس ایمنسٹی لینے والوں کو ہراساں نہ کیا جائے"، ہے نا یہ مزے کی باتیں، ویسے تو ایسی مزے کی باتیں، جمہوری مزے مطلب جمہوری چٹکلے اور بھی، مگر آج اتنا ہی۔