گیڈر کی سوسالہ زندگی …!
پلوامہ جھوٹ سے واہگہ بارڈر سچ تک، بالاکوٹ حملے سے بھارتی طیارے گرانے تک، ابھینندن سے شاکر اللہ تک، عمران نوبیل امن انعام ٹرینڈ سے گو مودی گو ٹرینڈ تک، بھارت ہر محاذ پر ہارا، پاکستان ہر محاذ پر جیتا، کشیدگی برقرار، خطرہ ٹلا نہیں، دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے، کچھ بھی ممکن، مگر جنگ سے پہلے جنگ کا فاتح پاکستان، یہ تو بتا چکا، بھارتی سماجی رہنما ومن میشرام نے کہا "مودی سرکار کو پلوامہ خودکش حملے کا 8 روز قبل علم تھا، کابینہ کی سیکورٹی کمیٹی کو بھی پتا تھا مگر حملہ ہونے دیا گیا تاکہ الزام پاکستان پر لگایا جا سکے، بھارتی سیاستدان راج ٹھاکرے کو بھی بتایا تھا "حملہ مودی سرکار نے خود کرایا، قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول حملے کے ماسٹر مائنڈ"، فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی، سابقہ بھارتی افسران کے خیالات کا یہ لب لباب بھی لکھ چکا کہ "پلوامہ حملے میں پاکستان نظر نہیں آتا، اب وقت آگیا کشمیریوں سے بندوق نہیں زبان سے بات کی جائے"، آگے سنئے، بھارتی صحافی جنگی جنون سے نکلنے لگے، کھلاڑی، فنکار، عام بھارتی بولنے لگے، مودی حکومت کو 70 سال کی بدتریں حکومت قرار دے دیا، دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کہہ اُٹھے "مودی 300 سیٹوں کیلئے کتنے فوجی مراؤ گے" راہول گاندھی بول پڑے "لاشوں کی سیاست نہ کرو، تم چور، فضائیہ کے 300 کروڑ چرائے"، تنقید اتنی کہ مودی گھبرا کر بولے "اپوزیشن پاکستان کی زبان بول رہی، فوج کا مورال گر رہا، میرے خلاف سیاست نہ کرو، نقصان بھارت کا ہو رہا، رافیل طیارے ہوتے تو نتائج یہ نہ ہوتے" مطلب مودی جی نے اِن ڈائریکٹ ہار مان لی۔ آگے سنئے، ابھینندن اِدھر واہگہ بارڈر سے بھارت میں داخل ہوا، اُدھر ہیرو سے زیرو ہو گیا، کسی فوجی نے سیلوٹ کیا، میڈیا سے ملنے دیا گیا نہ اب دہلی اسپتال میں گھر والوں کو ساتھ رہنے دیا جا رہا، اسپتال کےکمرے کے باہر فوجی پہرہ، سنا جا رہا وہ وڈیو پیغام جس میں ابھینندن نے کہا "بھارتی میڈیا بات بڑھا چڑھا کر، مرچ مسالے، آگ لگا کر پیش کرے، لوگ اس کے بہکاوے میں آ جائیں، پاکستانی فوج کمال کی، میں اس کا معترف" یہ بھارتی بڑوں کو ہضم نہیں ہو رہا، ابھینندن کے پاکستانی کپڑے، جوتے اتروا کر معائنے پر معائنہ کرواتے بھارتی بڑوں نے اس سے یہ بھی پوچھ لیا "تم پاکستانی ایجنٹ تو نہیں"، بی جے پی کے سابق رہنما پون کلیان جی نے چپ کا روزہ توڑا "مودی جی نے دو سال پہلے بتایا، انتخابات سے پہلے جنگ ہو گی"، بی جے پی کے سابق رہنما اوی دندیا کی لیک کردہ آڈیو وائرل ہو چکی، بی جے پی کے صدر امیت شاہ، وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور ایک نامعلوم خاتون یہ گفتگو کر رہے کہ "انتخابات قریب، کشمیر میں فوجی مروانا ہوں گے، فوجیوں کے معاملے پر عوام حساس، ہلاکتوں پر سیاست کریں گے اور کوئی راستہ نہیں" خاتون کہے "پیسے بھجوا دیں، کام ہو جائے گا"، یہ تفصیلات بھی سامنے آ رہیں، پلوامہ ہوا، جہاں مودی جی ساڑھے 3 گھنٹے انتخابی فلم کی شوٹنگ کرتے، تصویریں کھنچواتے، کشتی کی سیر، چائے سموسے کھاتے رہے، وہیں پاکستان پر الزام لگانے والا بیان "را، نے پہلے سے تیار کر رکھا تھا، یہی نہیں جب رات کی تاریکی میں بھارتی فضائیہ نے بالاکوٹ جارحیت کی تو اگلے دن مودی جی میٹرو میں بیٹھ کر تصویریں کھنچواتے ملے، جب دو طیارے تباہ، ایک پائلٹ گرفتار، دوسرا مارا گیا، تب بھی مودی جی نے جلسے، جلوسوں سے خطاب جاری رکھا، مطلب پلوامہ سے ابھینندن گرفتاری تک مودی جی نے سب کچھ معمول کے مطابق کیا حالانکہ کانگریس سمیت اپوزیشن جماعتیں پلوامہ دکھ میں عارضی طور پر انتخابی مہم ملتوی کر چکی تھیں۔ بلاشبہ لائن آف کنڑول پر بھارتی جارحیت جاری، بلاشبہ پاکستان کے ہر اقدام کو بھارت اپنی جیت سے تعبیر کر رہا، بلاشبہ نریندر مودی انتخابات کیلئے کبھی بھی، کچھ بھی کر سکتے، بلاشبہ اقوام متحدہ سے او آئی سی، روس سے ترکی، امریکہ سے سعودی عرب، اردن سے یو اے ای، یعنی اقوام عالم کی بیک ڈور ڈپلومیسی جاری، بلاشبہ امن کیلئے ہمیں کوششیں جاری رکھنا چاہئیں مگر خیال رہے، سب کچھ وقار کے ساتھ، وزیراعظم کو یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ اتنی بار مودی سے بات کرنے کی کوشش کی، اس نے بات ہی نہ کی، عمران خان کو اسمبلی میں یہ کہنے، دو بھارتی طیارے گر گئے، یہ کہنا چاہئے تھا، ہماری ائیر فورس نے بھارتی طیارے مار گرائے، حسن صدیقی ہمارا ہیرو، امن کی خواہش کمزوری نہیں بننی چاہئے، مذاکرات، بات چیت کیلئے معذرت خواہانہ رویہ، ترلے منتیں نہیں، ہم جمعہ کی شام ونگ کمانڈر ابھینندن کو زندہ سلامت حوالے کر کے ہفتے کی شام غلطی سے سرحد پار کر جانے والے ذہنی معذور شاکر اللہ کی لاش وصول کر چکے، پاکستان ابھینندن کی جان بچا چکا، بھارت شاکر اللہ کو مار چکا، حیرت، جیل میں ڈنڈے، پتھر کہاں سے آئے؟ ایک قیدی قتل ہو گیا، انکوائری نہ کوئی معطلی، ہم یہ سب برداشت کر چکے، لہٰذا اب صبر سے معاملات طے کرنے کی ضرورت، یہ اعصابی جنگ، حوصلے، ہمت، تحمل سے ہر قدم اٹھانے کی ضرورت، یوں مرے مرے جانے کی کیا ضرورت؟ اگر واقعی ہمارا ہیرو ٹیپو سلطان تو ہمیں ٹیپو سلطان کا یہ قول بھی یاد رکھنا ہوگا "گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر"۔ سنجیدہ باتیں ہو چکیں، اب چند وہ باتیں جنہوں نے اس اعصاب شکن ماحول میں بھی مسکرانے پر مجبور کر دیا، گزشتہ دو ہفتوں میں بھارتی سوشل میڈیا تو وار ہسٹریا میں مبتلا رہا جبکہ اپنے سوشل میڈیا نے "ٹھنڈ پروگرام، رکھا، بلکہ ایسی جگتیں، لطیفے، چٹکلے کہ مزہ آگیا، چند نمونے حاضر خدمت، جنگ کی دھمکیاں دینے سے پہلے بھارت کو سوچ لینا چاہئے کہ ساری دنیا ہمارے ساتھ، کیونکہ ہم نے ساری دنیا کے پیسے دینے ہیں۔ شکر ہے ونگ کمانڈر ابھینندن کو فوج نے گرفتار کیا، یہ کام پنجاب پولیس نے کیا ہوتا تو اب تک یہ پریس کانفرنس ہو چکی ہوتی "چونکہ جس نالے میں ونگ کمانڈر ملا، اس کے شیشے کالے تھے، لہٰذا وہ ہمیں نظر ہی نہ آیا"۔ بھارتی ونگ کمانڈر جب تک یہاں رہا، تب تک بہانے بہانے سے یہی پوچھتا رہا "کیا واقعی بھٹو زندہ ہے"۔ لیگی ذرائع کنفرم کر چکے کہ انڈین پائلٹ کو پکڑنے کا فیصلہ نواز شریف دور میں ہو گیا تھا۔ ایل او سی کی خلاف ورزی پر چیئرمین نیب نے بھارتی آرمی چیف کو 5 مارچ کو طلب کر لیا۔ ابھینندن کو بھارتی حکام کے حوالے کرنے سے پہلے اسے 3 بار عمران کی "کان کھول کر سن لو، کوئی این آر او نہیں ہو گا، والی تقریر سنائی گئی۔
یہ تو سوشل میڈیا کی درفنطنیاں، کچھ مزے کی باتیں اور بھی، نواز شریف کے حوالے سے مسلسل یہ شائع ہو رہا کہ "سلام میاں صاحب کو جنہوں نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا" میاں صاحب کو سلام ٹھونکنے والے بھٹو صاحب، جنرل ضیاءالحق، غلام اسحاق خان، ڈاکٹر اے کیو خان سمیت سینکڑوں گمنام ہیروز کو بھلا چکے کہ جن کی محنتوں، قربانیوں کی بدولت نواز شریف دور میں ایٹمی دھماکے ہو سکے، ایک لیگی خاتون ایم پی اے پنجاب اسمبلی میں یہ قرارداد جمع کروا چکیں "شکریہ نواز شریف، آپ نے پاکستان کو جو جے ایف تھنڈر دیئے، انہی طیاروں سے پاک فضائیہ نے بھارت کے دو جنگی طیارے گرائے، آپ نے پاک فضائیہ کو موٹروے کی صورت میں "رن وے، کا تحفہ بھی دیا، میاں صاحب کا اپنا ایک بیان بھی نظر سے گزرا "اگر آزاد ہوتا تو خود جے ایف تھنڈر اڑا کر دشمن کے طیارے گراتا"، اب لیگی خاتون کی قرارداد، میاں صاحب کا بیان، یہی کہا جا سکے، سبحان اللہ! لیکن جے ایف تھنڈر خود اڑانا، دشمن کے طیارے گرانا، جذبوں کی اخیر ہی ہو گئی، ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔