دانشوری کا مرض
خلیل جبران کہتا ہے کہ’’ پہلوان ،طوائف ،شاعر اور دانشور کا بڑھاپا بڑاہی خراب‘‘ ، لینن کہے کہ’’ جب تک یہ دنیا قائم مچھر ،مکھی بیوروکریسی اور دانشوروں کی افزائشِ نسل کو کوئی خطرہ نہیں‘‘ ، چینی کہاوت ہے کہ ’’سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کر دینا تو پینٹر ،وکیل اور دانشور کے بائیں ہاتھ کا کھیل‘‘،جاپانی بڑوں کے مطابق’’ہم نے تو کوئی ایسا خوش نصیب نہ دیکھا کہ جسے محبت ،فلو اور دانشوری کامرض نہ لگا ‘‘ اور اپنے شیخو کی منطق یہ کہ پاکستانی دانش کا تو و ہی حال ہو چکا جو دانش کنیریا کی کرکٹ کا، صاحبو! جیسے دلہن کو میک اپ سے پہلے اور میک اپ کے بعد دیکھنے پر پہلا خیال یہی آئے کہ کرپشن صرف حکومت ہی نہیں کرتی ، جیسے یہ اک حقیقت کہ جب دانت ہوں تو گوشت نہ ملے اور جب گوشت ہوتو دانت نہ ملیں، جیسے سعودی اقامہ ،تنگ پاجامہ ، اچانک ہنگامہ ،عورت کا ڈرامہ اور پانامہ میں پھنس کر نکلنا مشکل ، جیسے پہنچ والا بندہ وہی جسکی وہاں تک پہنچ کہ جہاں کھجلی ہورہی ہو، جیسے 8بچوں کے جوتے خریدنے بازار جانے سے کہیں بہتر کہ محبوب بے وفا نکلے اور نوبت یہاں تک پہنچے ہی نہ ، جیسے شادی وہ ورک۔ شاپ کہ جہاں خاوند ورک اور بیوی شاپ کرے،جیسے اتنی مختصر سی زندگی میں ہر صبح ایک جیسی جرابوں کا جوڑا ڈھونڈ تے رہنا بڑی ہی زیادتی ، جیسے اللہ میاں تک پہنچنے کے شارٹ کٹ ہمارے اسپتال ، جیسے جلیبی اس لیئے بھی ’مؤنث ‘ کہ یہ کبھی سیدھی نہ ملے ، جیسے شادی اسی سے کرنی چاہیئے جو بندے کو ایسے ہی سمجھے کہ جیسے میڈیکل اسٹور والے ڈاکٹر کی ہینڈ رائٹنگ اور جیسے غریب رشتہ داروں کو یہاں Ignore کریں ایسے، ڈبل روٹی کا پہلاسلائس ہو جیسے ، بالکل ویسے ہی وہ بندہ جو کچھ نہ جانتاہو مگر یہ راز وہ کسی کو جاننے نہ دے وہ دانشور ، جو بغیر تعارف کسی سے بات نہ کرے اور تعارف کے بعد کسی کی سنے نہ، وہ دانشور ، جوا تنا بولے کہ اسے سننے یا سوچنے کیلئے کبھی وقت ہی نہ ملے ،وہ دانشور ، جو گھنٹوں بول کر بھی کچھ نہ کہے ، وہ دانشور اور جسکی گفتگو سنتے ہوئے لوگوں کے چہرے ایسے لگیں کہ جیسے تعزیت کیلئے آئے ہوئے ، وہ دانشور ، دوستو! ہمارے دانشور اپنی دانش کے ساتھ وہ ہاتھ کر چکے کہ اب دانش تو بسترِ مرگ پر لیکن یہ خود ہٹے کٹے ، اپنے ہاں دانشوروں کی 2قسمیں بہت مشہور، ایک موسمی دانشور ،جو کسی واقعے ،حادثے اور سانحے کے ہونے پر اچانک نکلیں اور حسبِ توفیق کنفیوژن پھیلا کر غائب ہو جائیں اور دوسری قسم سدا بہار دانشور وں کی، گو کہ انکی اپنے گھر والے بھی نہ سنیں مگر الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت یہ قوم کا مسلسل مغز چاٹ کر ایسے پھل پھول رہے کہ ایک سروے کے مطابق 2025 تک پاکستان میں دانشوروں کی تعداد انسانوں سے زیادہ ہو جائے گی ۔
کہیں پڑھا تھا کہ ایک بار کسی مغربی ملک میں اپنے مہا دانشور نما شاعر جو ش ملیح آبادی تھک ہار کرسانس درست کرنے ابھی کسی سٹرک کنارے بیٹھے ہی تھے کہ ایک میم نے انہیں فقیر سمجھ کر ایک ڈالر دینا چاہا تو جوش میں آکر جوش صاحب نے جیب سے ڈھیر سارے ڈالر نکال کر اسے دکھادیئے ، یہ دیکھتے ہی کافر حسینہ جوش صاحب کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بڑی حیرانی سے بولی ’’ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کاروبار میں اتنی کمائی ہے ‘‘۔ اپنے دیس میں وقت نے ثابت کر دیا کہ ایک تو دانشور کے ڈسے کو تتلی بھی بھڑ نظر آئے اوردوسرا دانشوروں کے ساتھ بیٹھنا ایسے ہی جیسے کسی پارٹی میں بندہ تمام وقت محبوبہ کی ماں کے ساتھ بیٹھا رہے ۔ اپنے ہاں کی دانش کا ذرا اندازہ لگائیے کہ وہ دانشور جنہوں نے ایک بار جب کہا تھا کہ’’ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی جھوٹ بولا ہو‘‘ ،تو آواز آئی ’’اس میں تعجب کی کیا بات اس عمر میں حافظے کی یہی کیفیت ہوتی ہے ‘‘ ، انہی کو ایک مرتبہ یہ کہتے سنا ’’ٹھیک ہے کہ میں نے کبھی انڈا نہیں دیا مگر میرے سامنے آملیٹ پڑا ہو تو میں مرغی سے بہتر رائے دے سکتا ہوں ‘‘،اور پھر ابھی پچھلے ہفتے جب ایک دوست نے کہا کہ میں اپنے کاروبار میں اس لیئے ناکام ہو ا کہ میں نے ایک دانشور کے مشورے پر عمل نہ کیا تو پاس بیٹھا دوسرا دوست بول پڑا ’’میں اس لیئے ناکام ہوا کہ میں نے ہر دانشمند کے مشورے پر عمل کیا ‘‘،کیا کیا بتائیں ، اب تو ملکِ عزیز میں دانشوروں اور دانشوری میں پھنسی قوم کی حالت اُس سردار جیسی کہ جس نے ایکدن اپنے دوست سے کہا ’’یار شادی دے بعد میں تاں مشکل وچ ای پھس گیا آں ‘‘ پوچھا گیا وہ کیسے ،سردار بولا’’ جے بیوی میک اپ کرے تے خرچہ برادشت نیءں ہندا ،جے نہ کرے تے بیوی برداشت نیءں ہندی ‘‘ ۔
یہاں مجھے اپنا وہ دانشور دوست بھی یاد آرہا کہ جس کی صحت ایسی کہ جیسے کسی مڈل فیل کی انگریزی ، جسکے بال نہ ہونے سے سر اور منہ کی حدبندی یوں ختم ہو چکی کہ پتاہی نہ چلے کہ منہ کہاں ختم ہوا اور سر کب شروع ہوگیا ، جسکی یاداشت ایسی کہ گفتگو کرتے وقت مخاطب یا مخالف کا نام بھول جائے اور جب تک اگلا نام بتائے تب تک یہ موضوع بھول چکا ہو ، جس کا غصے میں اکثر سر ایسے ہلنے لگے کہ جیسے ابلتے پانی کی کیتلی کا ڈھکن ، جس نے جوانی میں جب بھی حجامت کروائی کسی تھانے میں ہی کروائی ، جو خوش فہم ایسا کہ تعاقب کرنیوالے کو تقلید کرنے والا سمجھے ، جسے بولنے کی ایسی بیماری کہ موسلا دھار بولے اور بولتے ہوئے کسی کی کیا اپنی بھی نہ سنے ، جو دورانِ گفتگو مسلسل ہاتھ ملتا رہے اور ہاتھ ملنے کی رفتار دیکھ کر پتا چلے کہ وہ بات کسی خاتون سے کررہا یا مرد سے ، جو غلط موقع پر صحیح بات کرنے کا ماہر ، جوا چھی بات برے انداز میں کرنے کا ماسٹر ، جوا پنی رائے اپنے لبا س کی طرح ہی بدلے، یعنی کبھی کبھار ہی بدلے ، جو دانشور انہ زندگی شروع کرنے سے پہلے دوائیوں کی ایک کمپنی میں سیلز مین تھا اگر وہیں رہتا تو بہت ترقی کرتا،یہ وہاں نہیں رہا تو کمپنی ترقی کر گئی ، جسکے ساتھ گذارا کرنے کا مطلب بندہ پھر ہر قسم کی بیوی کے ساتھ نبھاہ کر لے ، جس نے ایک بھرپور ناکام زندگی بڑی کامیابی سے گذاری اور ہمارا یہ دوست جسکی بصیرت کے بعد اب بصارت کا عالم بھی یہ ہو چکا کہ چند دن پہلے سرِ راہ ملاقات ہوئی تو بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر بولا ’’ چٹھہ صاحب کیسے ہیں آپ ‘‘ جب میں نے بڑے احترام سے بتایا کہ’’ حضور میں چٹھہ نہیں ہوں‘‘ تو ڈبل گرم جوشی سے جپھی ڈالتے ہوئے بولا ’’ویسے مجھے بھی شک ہو رہا تھا کہ آپ چٹھہ صاحب نہیں ہیں ‘‘ پھر ایک بلغم زدہ قہقہہ مار کر کہنے لگا ’’ لیکن میرے دوست اگر پہلے آڈیشن میں گھٹیا اداکاری کا لیبل لگوا کر چارلی چیپلن بعد میں سپرہٹ ہو سکتا ہے ،اگر پائلٹ کی نوکری کیلئے انٹرویو میں فیل ڈاکٹرعبدالکلام نامور سائنسدان اور بھارتی صد ر بن سکتا ہے ،اگر اساتذہ کی نظرمیں کلر ک کی اہلیت بھی نہ رکھنے والا ٹونی بلیئربرطانوی وزارت عظمیٰ تک پہنچ سکتا ہے،اگر پٹرول پمپ پر نوکری کرنے والا امبانی بھارتی بزنس ٹائیکون بن سکتا ہے اور اگر بھدی آواز قرار دے کر جس لڑکے کو آل انڈیا ریڈیو نوکری دینے سے انکار کردے وہی امتیابھ بچن بالی ووڈ کا شہنشاہ کہلا سکتا ہے توپھر کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ چٹھہ صاحب ہیں یا نہیں ‘‘، یہ کہہ کر پھر سے ایک پر جوش جپھی مارکر وہ چلتا بنا اور اس کی عجیب وغریب منطق کے زیرِ سایہ کنفیوژ کھڑا میں ا سے جب جاتا دیکھ رہا تھا تو بے اختیار مجھے اس سے اپنی وہ پہلی ملاقات یاد آگئی کہ جب یہ کسی گورے کا وہ تحقیقی مضمون اپنے نام سے سنا چکا کہ جس کا لب لبا ب یہ کہ ’’ روئے زمین پر انسان کی 13 قسم کی شخصیتیں،17 قسم کے انسانی مزاج اور 27قسم کے انسانی Emotions‘‘تب میں اس سے ایسے ہی یہ پوچھ بیٹھا کہ ’’انسان ہنستے کیوں ہیں ‘‘ تویہ میرا منہ دیکھ کر ہنسنے لگا اور تب تک ہنستا رہا کہ جب تک میں اپنا سا منہ لے کر ا س کے سامنے سے اُٹھ نہ گیا ۔لہذا قارئین کرام ! سو باتوں کی ایک بات کہ دانشوروں سے مل کر اور ان کی دانشوری سن کر میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہر معاملے میں نتیجے تک نہیں پہنچنا چاہیے۔