دائمی بدگمانی کے مریض
ہر برائی اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالتے تو موجودہ فوجی قیادت کو یہ کریڈٹ بھی دینے پر تیا رنہیں کہ پاناما لیکس ہونے سے کیس سپریم کورٹ پہنچنے تک اور وزیراعظم کی نااہلی سے حکومت بدلنے تک، فارورڈ بلاک بنا، جوڑ توڑ ہوا اور نہ کوئی پارٹی ٹوٹی، بلکہ جمہوریت قائم اور نظام موجود!
تصویر کا ایک رُخ یہ کہ اسی سال فروری کی ایک سہ پہر، جب باقی باتیں ہو چکیں تو کہنے والے کہتے ہیں کہ (واللہ عالم یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا گفتگو ہوئی) سپہ سالار نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا ’’آپ اندرونی و بیرونی محاذ پر مشکل فیصلے کریں میں آپ کے ساتھ ہوں اور سوائے ایک معاملے کے، میرا مکمل تعاون آپ کو حاصل رہے گا‘‘ یہ سن کر زیرِ لب مسکراتے وزیراعظم نے پوچھا ’’جنرل صاحب وہ معاملہ کون سا کہ جس پر مجھے آپ کا تعاون حاصل نہیں ہو گا‘‘ جنرل قمر جاوید باجوہ کا جواب تھا ’پاناما ایشو پر‘ کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں اور اب عدالت کا فیصلہ ہی سپریم‘‘ یہ کہہ کر آرمی چیف لمحہ بھر کے توقف کے بعد دوبارہ بولے ’’لیکن وزیراعظم صاحب مجھے یوں لگ رہا کہ جیسے آپ پاناما کو ایزی لے رہے، میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو اسے سنجیدگی سے لینے اور کیس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت‘‘ وزیراعظم نواز شریف ہنس کر بولے ’’جنرل صاحب آپ کے Concern کا شکریہ لیکن میں یہ واضح کر دوں کہ میں کیا اگر عدالت نے میرے کسی بچے کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا تو ایک لمحے کی دیر کئے بنا میں گھر چلا جاؤں گا‘‘ جیسے ہی وزیراعظم نے اپنی بات مکمل کی تو آرمی چیف نے کہا ’’ایک بات اور بھی۔ آپ کو اپنی میڈیا ہینڈلنگ بھی بہتر بنانے کی ضرورت، نہ تو آپ کے مؤقف کا پتا چل رہا اور نہ حکومتی کارکردگی سامنے آ رہی، کم ازکم جو ترقیاتی کام آپ کر چکے یا کرنےوالے ان کا تو سب کو پتا چلنا چاہئے‘‘ میاں نواز شریف خوش ہو کر بولے ’’جنرل صاحب آپ ٹھیک کہہ رہے، اس حوالے سے ہمیں واقعی توجہ دینے اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت‘‘۔
لیکن صاحبو اس ملاقات سے بھی پہلے یہ تب کی بات جب ڈان لیکس پر انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر حکومت کے مکمل عمل درآمد نہ کرنے پر فوج ٹویٹ کر چکی تھی، چند دن بعد وزیراعظم ہاؤس آئے سپہ سالار کو میاں نواز شریف ریسیو کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ سلام دعا کے بعد آرمی چیف بولے ’’وزیراعظم صاحب یو مسٹ بی انائڈ‘‘ میاں نواز شریف نے جواب دیا ’’نو جنرل صاحب آئی ایم ناٹ انائڈ، آئی ایم ہرٹڈ‘‘ یہ سن کر جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ’’وزیراعظم صاحب گو کہ ٹویٹ کے الفاظ غلط فہمی کا نتیجہ، لیکن آپ فکر نہ کریں میں اس کا کوئی حل نکالتا ہوں‘‘ اور پھر اسی روز ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کے بعد جنرل باجوہ کی ہدایت پر فوجی تاریخ کا ایک مشکل ترین فیصلہ ہوا اور ٹویٹ واپس لے لیا گیا۔
لیکن صاحبو ڈان لیکس سفارشات پر ادھورے حکومتی عملدرآمد، ٹویٹ ہونے اور واپس لینے سے بھی پہلے آرمی چیف سے ملنے آئے وزیراعظم کے ایک معاونِ خصوصی نےمبینہ طور پر جب یہ کہا کہ ’’انکوائری رپورٹ کی سفارشات کے حوالے سے کچھ نرمی برتی جائے‘‘ تو جنرل نے جواب دیا ’’نہ صرف ڈان لیکس مجھ سے پہلے ہوئی، انکوائری کمیٹی مجھ سے پہلے بنی بلکہ میرے چیف بننے سے پہلے ہی سفارشات بھی مرتب ہو چکیں، لہٰذا اب میں ایک لفظ کاٹنے یا Add کرنے کا مجاز نہیں، اس لئے میرا فرض بھی یہی کہ کمیٹی کی سفارشات پر من وعن عملدرآمد ہو اور حکومت کے حق میں بھی یہی بہتر، میں تو وزیراعظم سے بھی یہ کہہ چکا کہ جتنی جلدی ہو سکے اس Matter کو Close کریں ورنہ جب تک یہ معاملہ لٹکا رہے گا تب تک طرح طرح کی باتیں ہوتی رہیں گی۔
اب صاحبو! ذرا تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں، پاناما لیکس ہونے، حکومت اور اپوزیشن کا سال بھر قومی اسمبلی میں ٹی او آرز پر اتفاق نہ کر سکنے اور معاملہ سپریم کورٹ آنے تک حکومت ’’ایزی موڈ‘‘ میں رہی، شاید یہ وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ معاملہ اتنا سنگین ہو سکتا ہے، لیکن جونہی کیس سپریم کورٹ میں چلنا شروع ہوا، جرح اور سوالات ہونے اور ثبوت مانگے جانے لگے تو پھر ہر روز نئے بیان اور آئے روز نئی کہانیاں۔ اسی اثنامیں پہلا فیصلہ آیا، جے آئی ٹی بنی اور جب پیشیاں شروع ہوئیں تو پھر سازش ہو گئی، پس پردہ قوتیں سرگرم عمل ہو چکیں، کٹھ پتلی تماشا ہو رہا، ثبوت تو پہلے ہی اکٹھے کئے جا چکے، یکطرفہ کارروائی ہو رہی اور فیصلہ تو کہیں اور ہو چکا، یعنی ایسی ایسی باتیں، سازشی تھیوریاں اور قصے کہانیاں کہ خدا کی پناہ، لیکن شاید یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ یہاں کبھی پہلے ایسا ہوا ہی نہیں کہ کوئی معاملہ باہر سے آیا ہو، اتنی مستقل مزاجی سے اُٹھایا گیا ہو، ملک کی سب سے بڑی عدالت نے معاملے کو یوں Take up کر کے اور ایک فیصلہ دے کر ایسی جے آئی ٹی بنادی ہو جو ہر دباؤ برداشت کر جائے، بہرحال بھلا ہو خواجہ آصف کا کہ جنہوں نے محترم حامد میر کے پروگرام میں جب یہ کہا کہ ’’ہمارے خلاف نہ عدلیہ نے سازش کی اور نہ فوج نے‘‘ تو الزامات اور بہتان تراشی کا طوفان کچھ تھما ورنہ اس سے پہلے تو ماحول یہ بن گیا تھا کہ پاناما لیکس سے لے کر اقامہ تک سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کا کام، یہاں غور طلب بات یہ بھی کہ جے آئی ٹی ارکان پر اعتراض کرنے والوں نے تب اعتراض نہ کیا کہ جب سپریم کورٹ جے آئی ٹی بنا رہی تھی اور پھر جے آئی ٹی میں ایجنسیوں کے نمائندوں پر اعتراض کرنے والے لیگی رہنما یہ بھول گئے کہ پاناما لیکس پر تو سپریم کورٹ کے کہنے پر یہ دو نمائندے شامل ہوئے، مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن پرتو جے آئی ٹی بناتے ہوئے لیگی حکومت نے انہی ایجنسیوں کے دو نمائندے خود شامل کئے۔
اب آجایئے ڈان لیکس کی طرف، جب فوجی قیادت ایک غیر مقبول ترین فیصلہ کر کے سیاسی قیادت کو Face Saving دے چکی اور جب معاملہ ختم ہو چکا تب فتح کے شادیانے بجانے اور ہار جیت کے قصے سنانے کا بھلا کیا مقصد، حکمت و دانش کا تقاضا تو یہ تھا کہ جب ایک فریق نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ سلجھا دیا تو پھر آگے بڑھ جانا چاہئے تھا، مگر چونکہ یہاں نہ پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ اس معاملے میں ایسا ہو سکا اور جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے۔
صاحبو! یہ تو صرف چند باتیں، اس حوالے سے سینکڑوں باتیں اور بھی، لیکن نہ اب ایسی باتوں کا فائدہ اور نہ ملک ان سازشی تھیوریوں کا متحمل ہو سکتا، کیونکہ حالات یہ کہ بیرونی محاذ پر ٹرمپ کا امریکہ ہمیں سبق سکھانے کی بات کر رہا، چین کا برکس دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا اور ہمارے سب دشمن اکٹھے ہو چکے جبکہ اندرونی محاذ پر انتشار کا عالم یہ کہ ہم مردم شماری پر بھی متفق نہیں اور اوپر سے ملک اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کے دروازے پر، پھر آج تاریخ چیخ چیخ کر یہ بتا رہی کہ جہاں سازشوں میں گھر کر فوج دفاع کے قابل نہ رہ جائے وہاں پھر بے تحاشا تیل اور اربوں، کھربوں ڈالرز بھی قذاقی کو بچا پائیں نہ لیبیا کو، جہاں لیڈر شپ ضدی اور انا پرست ہو وہاں پھر عراق کو کھنڈر ہی بننا پڑے، جہاں حکمت و دانش کی بجائے ’’مَیں مَیں‘‘ کے رستوں پہ چلا جائے وہاں پھر بشار الاسد کو شام کی تباہی کے بعد بھی کچھ ہاتھ نہ آئے اور جہاں کمزوروں پر طاقتور غالب آجائیں وہاں پھر وہی حال ہو جو برما، ہندوستان، شام، عراق اور فلسطین میں مسلمانوں کا ہو رہا، یقین جانیے یہ خوش نصیبی کہ آج بھی میاں نواز شریف کے ساتھ اپنی smooth ورکنگ ریلیشن شپ کی برملا تعریف کرنے اور اندر باہر سے جمہوریت کے حامی جنرل باجوہ وہ سپاہی کہ جنہیں اُس پاک فوج کی قیادت کرنے پرفخر، جو دہشت گردی کے خلاف 15 سالہ جنگ کے بعد اب کندن بن چکی، جنہیں فخر کہ ان کا تعلق شہداء اور غازیوں کے خاندان سے، جیسے 6 ستمبر 1965 کو شہید ہوئے صفدر باجوہ، کھیم کرن محاذ پر دادِ شجاعت دینے والے کیپٹن احمد سعید باجوہ اور جنگ میں حصہ لے چکے والد کرنل اقبال باجوہ، اس کے علاوہ فوج میں خدمات سر انجام دینے والے چوہدری احمد حسین باجوہ، چوہدری محمد حسین باجوہ اور غلام حسین باجوہ، لیکن صاحبو جو لوگ آزاد ملک اور آزادی جیسی نعمتوں کی بھی بے قدری اور ناشکری کریں اور جو آزادی کیلئے جانیں دینے والوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھیں، ان سے کیا توقع رکھنا، مگر پھر بھی یہ دُکھ ضرور کہ ہر برائی اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالتے موجودہ فوجی قیادت کو یہ کریڈٹ بھی دینے پر تیار نہیں کہ پاناما لیکس ہونے سے کیس چلنے تک اور وزیراعظم کی نااہلی سے حکومت بدلنے تک فارورڈ بلاک بنا، جوڑ توڑ ہوا اور نہ کوئی پارٹی ٹوٹی بلکہ جمہوریت قائم اور نظام موجود!