چلتی پھرتی تاریخ
جنرل ضیا سے میاں نواز شریف، مطلب 1977 سے 2017 تک جہاں یہ ہر عروج وزوال کے چشم دید گواہ وہاں ایک وہ وقت بھی آیا کہ جب وزیر سے وزیراعظم تک انہوں نے خود بنائے، یہ ہماری 40 سالہ اور میں انہیں ’’پاکستان کی دائی‘‘ کہوں۔ سینکڑوں راز سینے میں چھپائے کمال کی یاداشت والے میرے یہ مہربان ایک دن بولے’’ ضیاء الحق جنرل اختر عبدالرحمٰن کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور جنرل زاہد علی اکبر کو وائس آرمی چیف بنانا چاہتے تھے لیکن وزیراعظم جونیجو نے جنرل اختر عبدالرحمٰن کو تو اوکے کر دیا ‘البتہ جنرل زاہد علی اکبر کی جگہ مرزا اسلم بیگ (جو زاہد علی اکبر سے سنیئر تھے ) کو وائس آرمی چیف بنادیا‘‘ ایک شام بتانے لگے ’’1988 کے انتخابات کے بعد غلام اسحاق خان نے کم سیٹیں ہونے کے باوجود پہلے نواز شریف کو حکومت بنانے کی دعوت دی مگر جب وہ مطلوبہ اراکین پورے نہ کر سکے توپھر صدر غلام اسحاق نے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو فون کر کے بتایا کہ ’’وہ بے نظیر بھٹو کو حکومت بنانے کی دعوت دینے لگے ‘‘ بیگ صاحب نے اسی دن بی بی کو ڈنر پر بلالیا، خیرڈنر پر سب کچھ طے ہونے کے بعد بے نظیر بھٹو کو گاڑی میں بٹھاتے ہوئے جنرل بیگ نے کہا ’’آپ کو مجھ سے ایک وعدہ اور بھی کرنا ہے ‘‘کار کا دروازہ پکڑ کر کھڑی بے نظیر بھٹو نے پوچھا ’’وہ کیا‘‘ جنرل بیگ بولے ’’ آپ نے میرے چیف (جنرل ضیا ) کے بچوں کو تنگ نہیں کرنا ‘‘ بی بی بولیں ’’ اوکے‘‘ اور یوں ایک گھنٹے بعد انہیں حکومت بنانے کی باقاعدہ دعوت مل گئی۔
جنرل پرویزمشرف کی ایوانِ صدر سے رخصتی کے دنوں کا حال سناتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’ جب زرداری صاحب اورمیاں نواز شریف صدر مشرف کو نکالنے پر متفق ہو چکے اور جب فوج اپنی غیر جانبداری ظاہر کر چکی تو بیرون ملک ایک کانفرنس میں جاتے وزیراعظم گیلانی کو زرداری صاحب نے کہا ’’ کانفرنس میں صدر اوباما بھی آرہے ہیں، آپ کو ان سے پوچھنا ہے کہ انہیں پرویز مشرف کے ہٹانے پر کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا‘‘ یوسف رضا گیلانی نے واپس آکر بتایا ’’صدر اوباما نے کہا ہے کہ یہ آپ کا اندرونی معاملہ، جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کریں ‘مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا یہ سن کر زرداری صاحب نے امریکی نائب وزیر خارجہ نیگروپونٹے کو فون کرکے اعتماد میں لیا اور ایسا اعتماد میں لیا کہ جب گھیرا تنگ ہوا تو پرویز مشرف کی بیسیوں کوششوں کے باوجود نیگرو پونٹے نے ان کا فون سننے سے بھی ا نکار کردیا۔
ایک سہ پہر صوفے پرنیم دراز میرے اس مہربان نے کہا ’’ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد نہ صرف مخدوم شہاب الدین کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہو گیا، ان کے حلف کی تاریخ اور وقت طے ہوگیا بلکہ مخدوم صاحب شام کو میرے گھر آکر چائے پر اپنی کابینہ بھی ڈسکس کرگئے مگر اگلی صبح اچانک انکا نام ایفیڈرین کیس میں آیا اور جب انکے وارنٹ گرفتاری نکلے توہم نے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا، جب مخدوم صاحب اپنی ضمانت کروا کر ایوانِ صدر آئے اور میں نے ان سے یہ کہا کہ ’’فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں، آپکے نصیب میں یہ نہیں تھا اورشاید قدرت کو یہی منظور تھا ‘‘تو میں نے مخدوم کی آنکھوں میں نمی دیکھی اور پھر اسی شام وزیراعظم نامزد ہونے کے بعد شکرئیے کیلئے میرے گھرآئے راجہ پرویز اشرف کی بھیگی آنکھیں د یکھ کر ایک بار پھر مجھے مخدوم شہاب الدین کی آنکھوں کی نمی یاد آگئی۔
ایک دوپہر بے نظیر بھٹو کا ذکر چھڑنے پر یہ بولے ’’بے نظیر بھٹو کمال کی knowledgeable اور ایسی دبنگ کہ انہیں کوئی dictate نہیں کر سکتا تھا، میں آپ کو ایک مزے کی بات بتائوں کہ مجھ سے اکثر بڑے بڑے well informed لوگ پوچھا کرتے ’’کیا بی بی اور آصف زرداری میں علیحدگی ہوچکی یا دونوں علیحدہ علیحدہ رہ رہے ‘‘ میں یہ سب سن کر ہنس پڑتا، کیونکہ میں دیکھا کرتا کہ آخری دنوں تک میاں بیوی میں بہت پیار اورانڈر سٹینڈنگ تھی، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ جتنا بی بی کا احترام آصف زرداری کرتے، اتنا میں نے کسی اور کو کرتے نہیں دیکھا‘‘ بے نظیر بھٹو جب پاکستان آئیں تو آصف علی زرداری دن میں کئی کئی بار فون کرکے ان کی سیکورٹی کے حوالے سے پوچھا کرتے اور آصف علی زرداری کے ناہید خان سے اختلافات کی بنیادی وجہ بھی یہی کہ بقول زرداری صاحب جب ناہید خان کو پتا تھا کہ بی بی کی زندگی کو خطرہ ہے تو پھر لیاقت باغ جلسے کے بعد انہوں نے بے نظیر بھٹو کو گاڑی سے باہر کیوں نکلنے دیا، مگر میں سمجھتا ہوں کہ ناہید خان کا بھی کوئی قصور نہیں کیونکہ جیسے میں نے پہلے کہا کہ بی بی کو کوئی dictate نہیں کر سکتا تھا۔ ابھی پچھلے ہفتے ملکی صورتحال پر پریشان میرے اسی مہربان نے کچھ یوں تبصرہ کیا’’بدقسمتی سے ہم نے نہ اپنے ملک اور آزادی کی قدر کی اور نہ ہم نے تاریخ سے کچھ سیکھا، اب موجودہ حالات دیکھ کر تو دل ڈوب سا جائے، اللہ کرے کہ میری یہ بات غلط نکلے کہ اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر ملک میں ’’سول وار ‘‘ کو کوئی نہیں روک سکتا ‘‘۔
صاحبو! یہ تو چند واقعات‘ میں نے اس کے علاوہ بھی ان سے درجنوں ’’اندرکی باتیں‘‘سنی ہوئیں، جیسے 12 اکتوبر کے مارشل لا کے بعد وہ کونسی خبر تھی کہ جسے سننے کے بعد میاں نواز شریف نے پہلی دفعہ کھانا کھایا، جنرل محمود اور جنرل احسان الحق نظر بند میاں نواز شریف سے ملنے گئے تو وہاں کیا ہوا، وہ کون سا معاہدہ تھا کہ جس کے زرداری صاحب نے 4 ٹکڑے کردیئے، قید کے دوران اسپتال میں زیر علاج آصف زرداری ایک رات برگر کھانے کے بہانے کسے ملنے گئے اور انہیں کون لے گیا، ابوظہبی سے بے نظیر بھٹو کولندن طیارہ کیوں بھجوایا گیا ؟ زرداری صاحب نے ایمبولینسز اور بلٹ پروف جیکٹس کیوں منگوائیں، میاں نواز شریف اور زرداری صاحب کے درمیان کیا طے ہوا، 5 وزرا کی جگہ ق لیگ کے 17 وزرا اور معاونین کیسے بن گئے، زرداری صاحب کے فون آنے کے بعد جنر ل اسپتال راولپنڈی پہنچ کر انہوں نے بی بی کو کس حال میں دیکھا، دھرنوں کے دوران جب ایک رات وہ نواز شریف سے ملنے گئے تو مستعفی ہونے سے انکاری نوازشریف نے کیوں کہا کہ’’اپنی بیگم کو میرا سلام دیں اور انہیں بتائیں کہ وہ واقعی ٹھیک کہتی ہیں ‘‘ دھرنوں کے دنوں وزراتِ خارجہ میں کس سے کیا معاہدہ ہوا، کس نے کس سے کروڑوں لئے، اوروہ کون تھا جو اندر بریانی کھا کر پھر باہر آکر بڑے جذباتی انداز میں بولا ’’ لوگو میں دو دن سے روزے کی حالت میں ہوں ‘‘، دوستو! یہ اور اس طرح کی مزید حیران وپریشان کر دینے والی باتیں سنتے ہوئے یا سننے کے بعد ہمیشہ ذہن میں پہلا خیال یہی آئے کہ واقعی یہ اور بلاشبہ یہ ’’پاکستان کی دائی‘‘۔