باتیں باتیں اور صرف باتیں!
آج سیاست نہیں، اچھی اچھی باتیں بلکہ وہ باتیں جنہیں غور، توجہ سے پڑھیں گے تو مزا دوبالا ہو جائے گا۔
کبھی سوچا مسلمان، مسلم ممالک میں ناخوش اور غیر محفوظ کیوں، آج فلسطین، شام، افغانستان، عراق، لیبیا، یمن، لبنان میں، مسلمان ناخوش، غیر محفوظ، مصر، ایران، پاکستان، عرب ممالک میں مسلمان ناخوش، غیر محفوظ، اردن، ترکی، چیچنیا، صومالیہ، سوڈان، الجیریا، تاجکستان، ازبکستان، قازقستان میں مسلمان ناخوش، کبھی سوچا مسلمان امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسڑیلیا، یورپ یا ان تمام ملکوں میں کیوں خوش اور محفوظ جن ممالک کے سربراہ مسلمان نہیں، سوچئے گا کہ مسلمان مسلم ممالک میں اتنے خوش اور محفوظ کیوں نہیں جتنے غیر مسلم ممالک میں۔
سیانے کہیں زندگی کے پہلے 20 سال ہوش آتے آتے جبکہ اگلے 20 سال قدم جماتے جماتے گزر جائیں، بندہ چالیس کا ہو اور 40 سال کی عمر میں زیادہ پڑھے لکھے، کم پڑھے لکھے کا فرق ختم ہو جائے۔ بعض دفعہ تو کم پڑھے لکھے زیادہ پیسے کماتے ملیں، 50 سال کی عمر میں بدصورت اور خوبصورت کا فرق مٹنا شروع ہو جائے، اپنے زمانے کے حسین ترین چہرے بھی جھریوں کی زد میں، 60 سال کی عمر میں بڑے، چھوٹے عہدے کا فرق ختم ہو جائے، بعض اوقات تو ریٹائرمنٹ کے بعد بڑوں بڑوں کو چپراسی تک سلام نہ کریں، 70سال کی عمر میں چھوٹے، بڑے گھر کا فرق نہ رہے، بیماریوں، گھٹنوں کا درد، کمر کی تکلیف، بس اتنی جگہ چاہیے کہ جہاں بیٹھا جا سکے، 80 سال کی عمر میں پیسے کی قدر و قیمت ختم ہو جائے، اگر جیبیں، اکاؤنٹس پیسوں سے بھرے ہوئے ہوں تو بھی خریدنے کی سکت نہ طلب، 90 سال کی عمر میں سونا، جاگنا برابر، نیند آئے نہ جاگ کر کچھ کرنے کو دل چاہے، کہنا یہی کہ آپ عمر کے جس حصے میں، ماضی سے نکلیں، مستقبل کا خوف چھوڑیں، حال میں آئیں، انجوائے کریں۔
اگر زندگی میں کچھ بننا ہے تو ریل کا انجن بنیں، کیوں، اس لئے کہ ریل کا انجن focused ڈی ٹریک نہ ہو، یعنی جو رستہ چن لیا، منزل پر پہنچ کر ہی دم لیا، اگر زندگی میں کچھ بننا ہے تو ریل کا انجن بنیں، کیوں، اس لئےکہ ریل کا انجن خود جل کر، آگ کھا کر باقی پوری ٹرین کو منزل پر پہنچائے۔ مطلب مشکلیں، مصائب، مسائل خود برداشت کر کے دوسروں کو آسانیاں پہنچانا، اگر زندگی میں کچھ بننا ہے تو ریل کا انجن بنیں، کیوں، اس لئے کہ ریل کا انجن آخری ڈبے کو بھی منزل پر پہنچائے، مطلب اپنے اِردگرد نالائق، نکمے، نااہل کو رستے میں چھوڑ جانے کی بجائے ساتھ لے کرچلنا، لہٰذا اپنے گھر، دفتر، محلے، شہر، ملک میں دوسروں کیلئے ریل کا انجن بنیں۔
تین باتیں پلے باندھ لیں، پہلی، زندگی فقط اتنی سی جب انسان سنبھلنے لگے، تب زندگی لڑکھڑانے لگ جائے، دوسری بات، ڈگریاں تو تعلیمی اخراجات کی رسیدیں ورنہ علم تو وہی جو عمل سے ظاہر ہو اور تیسر ی بات، اللہ رزق کے دروازے کھول دے تو دستر خوان لمبے کریں، دیواریں نہیں۔
امام غزالی ؒ فرمائیں اگر رز ق عقل، دانش سے ملتا تو بے وقوف اور جانور بھوکے مر جاتے، دنیا نصیب سے ملے اور آخرت محنت سے، یہ علیحدہ بات کہ ہم دنیا کیلئے محنتیں کریں اور آخرت کو نصیب پر چھوڑ دیں۔
امریکی تحقیق کہ 70 فیصد بیماریوں کی وجہ پریشانیاں، محققین کے مطابق آپ کی سوچ آپ کے جسم کے ایک ایک خلیے پر اثر انداز ہو، اگر سوچ پریشانی بھری تو ایک ایک خلیہ متاثر، تحقیق سے پتا چلے مسلسل پریشان رہنے والے وقت سے پہلے مر جائیں، یاد آیا، نپولین بونا پارٹ اپنی تمام تر طاقت، فتوحات اور بادشاہت کے باوجود زندگی کے آخری دنوں میں کہتے ملا "میں دنیا کا وہ بدنصیب جسے پوری زندگی میں خوشی بھرے 6 دن نصیب نہ ہوئے" جبکہ دوسری طرف بصارت سے محروم ہیلن کیلر آخری دنوں میں بھی کہہ رہی تھی "میرے پاس پریشان ہونے کا وقت ہی نہیں، کیونکہ خدا نے مجھے جو دیا، یہ اتنا کہ اس سے فرصت ہی نہ ملی کہ سوچوں میرے پاس کیا نہیں" ، اب یہ آپ پر، نپولین والی زندگی گزارنی کہ اقتدار، اختیار اور دولت کے باوجود خوشی نہ سکون یا ہیلن کیلر والی زندگی، چاہے آنکھیں ہی نہ ہوں لیکن اطمینان، خوشیاں۔
لو جی گھر لاؤنج میں بیٹھا، لکھتے لکھتے ابھی یہیں پہنچا تھا کہ کسی نے ٹی وی لگا دیا، دوست رؤف کلاسرا کی آواز کانوں میں پڑی، لمحہ بھر کیلئے لکھنا چھوڑ کر توجہ اُدھر کی اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا، مطلب دل و دماغ پر سیاست چھائی، سب اچھی اچھی باتیں دھری کی دھری رہ گئیں، لیکن بات تھی ہی ایسی، بھلا کچھ اور کیا یاد رہتا، کلاسرا بتا رہے تھے کہ 22 مئی 2016 کو وزیراعظم نواز شریف چیک اپ کیلئے برطانیہ جائیں، بات ہارٹ سرجری تک پہنچے، قیام لمبا ہو اور میاں صاحب تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد دل کا آپریشن کروا کر واپس لوٹیں، اب ہمیں یہ بتایا گیا کہ علاج، دورے کا سارا خرچہ میاں صاحب نے خود برداشت کیا لیکن سوموار کو قومی اسمبلی میں بتایا گیا کہ میاں صاحب کی یہ "ہارٹ سرجری، جو پونے آٹھ کروڑ کی، یہ ہمارے کھاتے میں، مطلب سب کچھ سرکاری پیسوں سے، اسمبلی میں بتایا گیا کہ موصوف خود ڈیڑھ ماہ پارک لین میں انہی ایون فیلڈ فلیٹس میں رہے، جن کا اب انہیں پتا ہی نہیں کہ کن پیسوں سے کیسے خریدے، جبکہ اسٹاف چرچل ہوٹل لندن میں اور ہوٹل کو وزیراعظم کیمپ آفس کا درجہ دیدیا گیا، طیارہ اخراجات 57 ہزار ڈالر، چرچل ہوٹل کا خرچہ ایک لاکھ 73 ہزار ڈالر، اسٹاف ٹی اے ڈی اے 30 ہزار ڈالر، کھانا پینا 28 ہزار ڈالر، چرچل ہوٹل سے پارک لین آمد و رفت 28 ہزار ڈالر، آئی ٹی آلات 6 ہزار ڈالر، ٹیلی فونوں پر لگے 3 ہزار ڈالر، حتیٰ کہ 165 ڈالر کے جو اخبارات خریدے گئے، وہ بھی سرکار کے کھاتے سے، یہ مجموعی اخراجات 3 لاکھ 27 ہزار ڈالر، آگے سنیے، ہارٹ سرجری کے بعد میاں صاحب کو پاکستان سے پی آئی اے کا جو خصوصی طیارہ لینے آیا، وہ پڑا 3 کروڑ 45 لاکھ کا۔
کیا بادشاہت تھی، کیا اللّے تللّے تھے، قرضوں میں جکڑا ملک، بھکی ننگی قوم، ظل الٰہی کے شاہی کھلواڑ، اپنی جیب سے ایک کپ چائے نہ پلانے والے، معاملہ ذاتی پیسوں کا ہو تو ٹیکسی ڈرائیور سے بقایا لینا نہ بھولنے والے، قومی خزانے کو کس بے دردی سے لوٹتے رہے، تو بہ تو بہ، اللہ نے اتنا کچھ دیا ہوا تھا، کس چیز کی کمی تھی، پھر بھی ذاتی علاج سرکاری مال سے، مجال ہے کبھی کسی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا ہو، اکثر سوچوں، ہو سکتا ہے، میاں صاحب سے آصف زرداری تک سب کے سب یہاں عدالتوں سے بری ہو جائیں، ممکن ہے کوئی ڈیل ہو جائے، ڈھیل مل جائے، مگر آخر اوپر جانا، اگر اللہ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کا پوچھ لیا، سرکاری مال پر عیاشیوں کا سوال ہو گیا، منی لانڈرنگ، ایون فیلڈ، العزیزیہ، فلیگ شپ یا لوٹ مار کا کوئی معاملہ اوپر کھل گیا تو کیا جواب دیں گے، وہاں تو کوئی چور دروازہ نہ پتلی گلی، وہاں تو تقریر سے استثنیٰ ملے گا نہ کوئی کہہ سکے گا کہ جو معلوم وہ والد یا بیٹوں کو، کیا سدا یہیں رہنا، اوپر نہیں جانا، حد ہی ہو گئی، پی پی، ن لیگ کو 3تین بار حکومتیں ملیں، صحت، تعلیم، روزگار، حتیٰ کہ صاف پانی نہ دے سکے، ایک ادارہ پاؤں پر کھڑا نہ کیا، بس باتیں سن لو، باتیں، باتیں اور صرف باتیں۔ اقتدار میں ہوں تو اندر اندر لٹ مار، اوپر اوپر سے یہ کر رہے، وہ کر دیں گے، اقتدار نہ رہے تو اندر کھاتے ڈیلیں، اوپر سے جمہوریت خطرے میں، ملک خطرے میں، بس باتیں، باتیں اور صرف باتیں۔