ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے !
حضرت علی ؓ فرمایا کرتے ’’ زبان کا وزن تو بہت تھوڑا‘ مگر لوگوں کی اکثریت اسے سنبھال نہ پائے اور جسم ایک دکان جبکہ زبان تالا، جب تالا کھلے تو معلوم پڑے کہ دکان سونے کی یا لوہے کی ‘‘۔ وہی ہٹ دھرمی، وہی انا اور وہی خودپسندی، 2 حکومتیں گئیں، ہتھکڑیاں لگیں، قید اور جلاوطنی کاٹی مگر سوچ نہ بدلی، آخری دم تک لڑوں گا‘شوق سے لڑیئے، کس نے روکا اور کس کی مجال کہ روک سکے، ہمیں یہ یقین کہ آپ یہ تو کبھی نہیں بتا پائیں گے کہ سازش کون کر رہا، سازش کس نے کی یا سازشی کون، لہٰذا کم ازکم یہی بتا دیجئے کہ آپ کی لڑائی کس سے اور آپ کس سے لڑنے والے، کیونکہ کوئی لڑائی باقی رہ تو نہیں گئی، آرمی چیفس سے لڑ چکے، سپریم کورٹ پر حملہ ہو چکا اور میڈیا کو سبق سکھا چکے، اب۔ ؟ ‘ یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ پاناما باہر سے آیا، جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی، رپورٹ جے آئی ٹی نے Submitکی اور اب بلا شبہ آزادانہ اور منصفانہ ٹرائل آپ کا حق، مگر سیدھی سادی قانونی جنگ لڑنے کی بجائے آخری حدوں تک جائیں گے، اب یہ کٹھ پتلی تماشا نہیں چلے گا اور ہمیں پتا کہ پردے کے پیچھے کون، ان بڑھکوں کا مقصد؟ کیا ہی اچھا ہوتا پہلے قانونی جنگ لڑتے، خو دکو بے گناہ ثابت کرتے اور پھر سب سازشیوں کو سبق سکھاتے اور ہر سازش بے نقاب کرتے اور اس تھیوری پر تو کہ پاناما لیکس غیر ملکی سازش، اچھے خاصے شریف بندے کا ’’ہاسہ ‘‘ نکل جائے، یہ تو ایسے ہی جیسے یہ کہہ دینا کہ فلم ٹائی ٹینک سید نور نے بنائی تھی مگر ایک بین الاقوامی سازش کے تحت اس کا نام ’’نکال ‘‘ دیا گیا۔
حضور سو باتوں کی ایک بات کہ یہ شورو غل، یہ رولا رپاّ، یہ مظلوم بننے کی کوشش اور کچھ ہونے سے پہلے ہی کچھ کرنے کی خواہش، یہ سب آپ پہلے بھی کر چکے اور قوم پہلے بھی دیکھ اور سن چکی مطلب یہ فلم پرانی ہو چکی، گھس چکی اورپٹ چکی لہٰذا اِدھر زور لگانے کی بجائے زور وہاں لگائیں جہاں زور لگانے کی ضرورت اور زور لگانے سے پہلے تھوڑا سا وقت نکال کر اپنی پارٹی رہنماؤں کے دلوں میں بھی جھانک لیں، دماغوں کو بھی پڑھ لیں، ان کی سرگوشیاں بھی سن لیں اور ان کی آنکھوں میں چھپی خواہشیں اورگلے شکوے بھی جان لیں، پھر حضورِوالا چلو لمحہ بھر کیلئے بنیادی سہولتوں سے بھی محروم عوام کو ایک طرف اور بحرانوں میں گھرے ملک کو دوسری طرف رکھ کر یہ مان لیتے ہیں کہ آپ اور آپ کا خاندان بہت اہم، مگر کیا آپ اور آپ کا خاندان ملک وقوم سے بھی زیادہ اہم، کیا جمہوریت کا مطلب آپ کا وجود اور کیا نظام کی بقا اسی میں کہ حضور اقتدار میں رہیں ‘ یقینا ًنہیں ‘بلکہ بالکل ہی نہیں، حضور یہ 90ء کی دہائی نہیں ‘ وقت بدل چکا ‘ یہ تھیوریاں پرانی ہو چکیں، یہ کہانیاں بے اثر ہو چکیں اور اب نہ کچھ چھپایا جاسکے اور نہ کچھ دبایا جاسکے، حضور یہاں سلام پیش کرنا چاہوں گا ایک سیدھے سادے معاملے کو مسئلہ فیثا غورث بنا چکے آپ کے فیصلہ سازوں کو، بند گلی میں پہنچا چکے کہانی کاروں کو، لڑائی کا طبل بچا چکے فنکاروں اورسلام ہر وقت چھپن چھپائی کھیلتے درباریوں کو ‘ لیکن حضورِوالایہ ضروری نہیں کہ قسمت ہر بارہی ساتھ دے جائے، ضروری نہیں کہ کچا گھڑا ہر بار ہی دریا پار کرا دے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر بارمقدر کے سکندر آپ ہی نکلیں، ہاں، یہ ضروری تو نہیں۔
حضور والا! حال یہ ہو چکا کہ ملاقات کیلئے 3 مہینوں سے پیچھا کرنے اور مختلف لوگوں کے ذریعے درجن بھر پیغامات بھجوانے والے آپکے ایک جانشین کو جب ایک دوست کے مجبور کرنے پر دو چار روز پہلے ملنے گیا تو پھر ہوا کیا ذرا یہ آپ بھی سن لیں، شاہی محل کے جہازی سائز کے ڈرائنگ روم میں قدیم وجدید فرنیچر کا جائزہ لیتے، نایاب ونادر پینٹنگز دیکھتے اور 15 بیس ملکوں سے خریدے گئے ڈیکوریشن پیسز کو نظر وں ہی نظروں میں جانچتے ہوئے جب 40 منٹ ہوگئے تو اچانک سرتا پاؤں برانڈڈ چیزیں پہنے 2 ولائتی قسم کے لڑکے نمودار ہوئے اور سلام دعا کے بنا چپ چاپ ایک صوفے پر بیٹھ کر اپنے اپنے موبائل سے کھیلنے لگ گئے، 10 منٹ مزید گزرے تو تھری پیس سوٹوں میں ملبوس 4 مسلح گارڈز آکر چپ چاپ چاروں کونوں میں کھڑے ہوگئے5 منٹ اور گزرے توایک چھوٹے صاحب آئے اور دور سے ہی سلام پھینک کرایک صونے پر بیٹھ کر سامنے خلا میں گھورنے لگے اور پھر 10 منٹ کے بعد بالآخر لاؤ لشکر سمیت بڑے صاحب تشریف لائے، مصافحے کے نام پر دائیں ہاتھ کی 3 انگلیاں ملائیں، عین سامنے صوفے پر بیٹھے، نظروں ہی نظروں میں جائزہ لیا اور بولے ’’آپ کی ہم سے کیا دشمنی ہے ‘‘ اس تلخ سوال اوربراہ ِ راست حملے کو نظر انداز کرتے ہوئے میں نے مسکر ا کر کہا ’’جائیداد اور اقتدار ‘‘میرے اس جواب کے بعدجب صاحب کے چہرے پر مجھے یہ لکھا نظر آیا کہ’’ میں تمہاری بکواس نہیں سمجھ سکا ‘‘تو میں دوبارہ بولا’’ میری آپ سے دشمنی بس اس وجہ سے کہ میں آپ کی جائیدادیں ہتھیانا چاہتا اور آپ کو حکومت سے نکال کر خود اقتدار میں آنے کا خواہشمند ‘‘، صاحب کا چہرہ سرخ ہوا گردن اور جسم مزید اکڑا‘ انتہائی غصے سے بولے ’’ہم یہاں سنجیدہ گفتگو کرنے آئے ‘ جگت بازی کیلئے نہیں ‘‘، میں نے طنزیہ لہجے میں کہا ’’اچھا۔ واقعی۔ تو پھر آپ بھی مخولیئے قسم کے سوالات نہ کریں ‘‘، بڑے صاحب نے پہلو بدلا‘ 2 چار لمبے لمبے سانس لئے اور انتہائی درشت لہجے میں بولے ’’مجھے یقین ہوچکا کہ You are gone case ‘ لہٰذا بس صرف یہی کہنا ہے کہ نہ ہم کہیں جا رہے اور نہ کسی میں یہ جرأت کہ وہ ہمیں گھر بھجوا سکے ‘‘، صاحب کی بات مکمل ہوئی تو نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے مسکراکر خوشگوار لہجے میں کہا ’’ آپ کی اطلا ع کا شکریہ۔ مگر آپ کا ٹریک ریکارڈ بتانے سے پہلے آپ ہمیشہ اسی طرح کی یقین دہانیاں کرائیں اور پھر میری اطلاع یہ کہ آپ تو پیکنگ بھی شروع کر چکے ‘‘بڑے صاحب بات کاٹتے ہوئے لڑنے کے انداز میں بولے ’’تم جیسے مایوس عناصر مایوسیاں نہیں پھیلائیں گے تو اورکیا کریں گے ‘‘ ماحول کو گرم ہوتا دیکھ کر جب میں نے یہ کہہ کر موضوع بدلنے کی کو شش کی کہ ’’اتنے مزے کی گفتگو ہو رہی، اب مزیدار چائے بھی ہو جانی چاہئے، چائے کیوں نہیں پلارہے میں تو جے آئی ٹی کارکن بھی نہیں ‘‘ تومیری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے بڑے صاحب بڑبڑاتے ہوئے اُٹھے اور یہ کہہ کر کہ ’’ چائے اگلی ملاقات پر، تیز تیز چلتے ہوئے دروازے سے نکل گئے ‘‘ صاحب کے جاتے ہی دونوں برانڈڈ لڑکے اور چاروں مسلح گارڈز بھی کمرے سے نکلے اور یوں سب کے اچانک چلے جانے پر چند لمحے ہکا بکا بیٹھ کر میں بھی اُٹھا، سامنے دیوار پر لگی صادقین کی پینٹنگ کو قریب سے دیکھا۔ ڈرائنگ روم سے نکلا، وسیع وعریض لائونج سے گزرا اور پورچ میں پہنچ کر کالے رنگ کی 5 جیپیں اور جیپوں کے ساتھ کانوں میں تاریں لگائے اور ہاتھوں میں وائر لیس سیٹ پکڑے سوٹڈ بوٹڈ مسلح گارڈز کے پاس سے گزرتے ہوئے اچانک مجھے وہ چہرے یاد آئے کہ جو حکمرانوں کیخلاف نیب میں پڑے 20 سے زیادہ کیسوں، آئی پی پیز کو دیئے گئے 480 ارب کے اسکینڈل، چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ ٹمپرنگ کی اصل کہانی اورجعلی اکاوئنٹس کھولنے سے’’اقامہ‘‘ لینے تک کی ہوشربا داستانیں سنا کر اور چھپ چھپا کر جے آئی ٹی کو ریکارڈدینے والے خاندان کے اپنوں کے نام بتا کر آخر پر کہیں کہ ’’ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ‘‘پھرمجھے 20 اور40 ممبران کے دو فارورڈ گروپس کا خیال آیا، اپنے حافظ صاحب کی یہ بات کہ ’’بادشاہ کا جرم ‘ جرموں کا بادشاہ ہوتا ہے‘‘ دماغ میں گونجا اورپھر اسی لمحے جب ذہن زبان درازیاں کرتے ترجمانوں، لفظوں سے گھائل کرتے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں سے ہوتا ہوا بڑے صاحب کی ’’ متکبرانہ گفتگو ‘‘کی طرف مڑاتو بے اختیار حضرت علی ؓ یاد آگئے کہ ’’ زبان کا وزن ہو تو بہت تھوڑا مگر لوگوں کی اکثریت اسے سنبھال نہ پائے اور جسم ایک دکان جبکہ زبان اس کا تالا ‘جب تالا کھلے تو معلوم پڑے کہ دکان سونے کی یا لوہے کی‘‘۔