توہین؟ کیا مطلب
نیب کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال کے منہ میں گھی شکر، کوئی دوسرا احتساب سے بالاتر نہیں تو عمران خان کیونکر؟ بجا کہ وہ وزیر اعظم ہیں اور ایک مقبول سیاسی جماعت کے سربراہ، ایک کروڑ ستر لاکھ پاکستانی ووٹروں کے محبوب رہنما۔ مگر قانون کی نظر میں وہ دوسرے شہریوں کے برابر ہیں، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی طرح۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم کے طور پر جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوتے رہے اور آصف علی زرداری سابق صدر ہیں مگر بنکنگ کورٹ میں پیش ہونے پر مجبور۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے کبھی امریکہ اور یورپ کی مثال دی جہاں قانون کے سامنے امیر، غریب، طاقتور، کمزور اور حاکم و محکوم سر جھکاتے ہیں نہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے جھوٹے مُنہ کبھی ریاست مدینہ کا نام لیا جو دنیا میں ایک ارب پچاس کروڑ کلمہ گو انسانوں کے دل میں بستی اور دماغ میں جاگزیں ہے۔ یہ توفیق اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو بخشی کہ وہ اقبالؒ اور قائدؒ کے تصورات کے مطابق پاکستان کو ریاست مدینہ میں ڈھالنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایسی فلاحی اسلامی ریاست اور ایسا مثالی معاشرہ بقول اقبالؒ ؎کس نہ باشد درجہاں محتاج کسنکتہ شرع مبیں ایں است و بسریاست مدینہ میں امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ایک یہودی شہری کی شکائت پر عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور خلاف فیصلے کو بدل و جان تسلیم کیا، پیشانی پہ بل آیا نہ زبان پر حرف اختلاف، تسلیم و رضا کے اس مظاہرے اور حاکم وقت کے خلاف جرأت مندانہ فیصلے سے متاثر ہو کر شکائت کنندہ اسلام قبول کرتا ہے کہ جس دین میں عدل و انصاف کی یہ اہمیت ہو اور جس دین کا ماننے والا سربراہ حکومت قانون کی نظر میں عام شہری کے برابر ہے، اس میں داخلہ دنیا و آخرت کی سعادت ہے۔ خلیفہ وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بدوکُرتے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو حاضرین میں سے اُسے کوئی ڈانٹتا ہے نہ سربراہ ریاست اپنے آپ کو جوابدہی سے بالاتر قرار دیتا اور نہ ان کا کوئی وزیر مشیر اسے باس کی توہین سمجھتا ہے۔ وہ اپنے صاحبزادے کو گواہی دینے کے لئے کھڑا کرتے اور پوری وضاحت سے بتاتے ہیں کہ ان کا کرتا کیسے سلا۔ پاکستان میں پہلی بار عدلیہ اور دیگر ریاستی ادارے اس قابل ہوئے ہیں کہ وہ مشیر، وزیر، وزیر اعلیٰ حتیٰ کہ وزیر اعظم کو بلا کر پوچھ گچھ کر سکیں کہ آپ نے اپنے اختیارات، قومی وسائل اور سہولتوں کو ذاتی و خاندانی مفادات کے لئے کیوں استعمال کیا اور امانت میں خیانت کے مرتکب کیوں ہوئے؟ نیب سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس بنا پر برہم ہیں کہ اُس کے تفتیش کاروں نے ماضی میں اہم مناصب پر فائز رہنے والے لیڈروں کا کچا چھٹا عوام کے سامنے کھولا، موقع ملتے ہی انہیں گرفتار کیا اور احتساب عدالتوں کے سامنے پیش کر کے قانون کے مطابق سزا دلائی۔ تحریک انصاف جس کا روز اوّل سے نعرہ احتساب رہا جس پر عمران خان کے حامیوں، پیرو کاروں اور خیر خواہوں کو فخر ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کے کچھ لیڈر بھی نیب سے رنجیدہ نظر آتے ہیں، حیرت انگیز طور پر وزیر اعظم عمران خان کو نیب سے یہ شکائت ہے کہ وہ سست روی کا شکار ہے اور اس نے اب تک پچاس لٹیروں کو سزا کیوں نہیں دلوائی مگر ان کے بعض قریبی ساتھی ہیلی کاپٹر کیس میں عمران خان کی طلبی کو وزیر اعظم کی توہین قرار دے کر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ شائد ان کے ذہن میں احتساب کا مطلب میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی گرفت ہے، اپنے لیڈر کو وہ ہرقسم کے احتساب اور جوابدہی سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں۔ حکومت کے مخالفین نیب کو حکومت کا سہولت کار اور مقتدر قوتوں کا آلہ کار قرار دے کر روز زبان طعن دراز کرتے ہیں اور تو اور مولانا فضل الرحمن کو بھی نیب سے شکائتیں ہیں اور وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قیادت پر برہم ہیں کہ اقتدار کے دنوں میں دونوں جماعتوں نے احتسابی ادارے کو دانتوں سے محروم اور ریڑھ کی ہڈی سے معذور کیوں نہیں کیا جبکہ کل تک حکومتی وزراء نیب کو ایک آزاد خود مختار آئینی و قانونی قرار دیتے چلے آ رہے تھے مگر اب اچانک وہ نیب کے انداز کار پر انگلی اٹھانے لگے ہیں جس کا جواب دیتے ہوئے نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے درست کہا کہ ہیلی کاپٹر کیس سے وزیر اعظم کی توہین نہیں ہوئی بلکہ ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا کہ عمران خان اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں نہ نیب ان سے کسی قسم کی رو رعائت برت رہا ہے۔ چیئرمین نے نیب کوکرپشن، کے خلاف ہائیڈروجن بم قرار دے کر اپنی طاقت اور قوت واضح کی۔ حکومتی وزراء اور عمران خان کے ساتھی ایک طرف اپنے لیڈر کو قانون شکنی، کرپشن اور بے ضابطگی کی آلائشات سے پاک اور ایک صاف ستھرا انسان قرار دیتے ہیں اور ان کے ووٹر اس پر یقین کرتے ہیں دوسری طرف نیب انہیں بلا لے اور وہ پیش ہو جائیں تو توہین، توہین کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ کیا عدل و مساوات اور قانون کی حکمرانی کا یہ تصور ہے جس کے قیام و نفاذ کے لئے عمران خان نے بائیس سال جدوجہد کی اور بالآخر کامیاب رہا۔ بجا کہ ماضی میں صرف انتظامیہ اور پارلیمنٹ نہیں، عدلیہ بھی، منتخب وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ ہی نہیں، وزیروں مشیروں اور عوامی نمائندوں کے سامنے بھیگی بلّی بنی رہی، ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف تو فوجی حکمران تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف علی زرداری نے بھی جب چاہا عدلیہ سے مرضی کے فیصلے لئے، افتخار محمد چودھری سے قبل صرف سجاد علی شاہ ایسے چیف جسٹس تھے جس نے سربراہ حکومت کی خواہشات کے مطابق چلنے سے انکار کیا اور برادر ججوں کے ہاتھوں معزول ہوئے۔ نیب تو قمر الزمان چودھری کے عہد ہمایونی تک حکمران خاندانوں کے لئے گوشہ عافیت اور لانڈری تھا۔ جہاں کرپشن، منی لانڈرنگ اور بے ضابطگیوں کے داغ دھبے مہارت سے دھوئے گئے اب اگر عدلیہ کی طرح نیب نے بھی چہرے کے بجائے کرداردیکھ کر حکمرانوں اور طاقتور طبقات سے ڈیل کرنے کی روائت ڈالی ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کی حکومت کو ہو رہا ہے کہ اپوزیشن کی گلیاں سنجیاں ہو رہی ہیں اور مرزا یار کے وارے، نیارے ہیں تو ہیلی کاپٹر کیس یا چند دوسری احتسابی کارروائی سے گھبراکر وزراء کرام اور مشیران عظام مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے بیانیے کو تقویت نہ پہنچائیں۔ اقبال اور قائد کے پاکستان میں اس کی گنجائش ہے نہ ریاست مدینہ میں حکمران کو عدلیہ اور نیب جیسے اداروں کے روبرو حاضری سے استثنیٰ۔ شوق پاکستان کو اقبال و قائد کے افکار و تصورات کی ریاست بنانے کا ہے، ریاست مدینہ کو رول ماڈل بتایا جاتا ہے تو پھر کردار و گفتار میں بھی ماضی کے حکمرانوں اور مسلم لیگ و پیپلز پارٹی کی قیادت سے فرق، واضح فرق نظر آنا چاہیے۔ تحریک انصاف کو فخر ہونا چاہیے کہ اس کا لیڈر اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے نہ عدلیہ و نیب حکومت کے دبائو میں ہیں اور نہ حکومت ان اداروں کو سوکن کا درجہ دیتی ہے۔ برصغیر میں لیڈروں کو بالخصوص جب انہیں اقتدار مل جائے دیوتا بنانے کا رواج عام ہے۔ ہر غلطی سے پاک، بشری کمزوری سے مبرا۔ سکندر مرزا کو قائد اعظم سے، ایوب خان کو ڈیگال سے اور بھٹو کو چواین لائی سے بڑا لیڈر قرار دینے والوں کا کس کو علم نہیں۔ نواز شریف قائد اعظم ثانی اور آصف علی زرداری سیاست میں پی ایچ ڈی قرار پائے۔ خواہش لیڈر خود پالتے، پروان خوشامدی مشیر چڑھاتے ہیں۔ پتہ اس وقت چلتا ہے جب اقتدار کا سنگھاسن ڈولتا اور نشہ اترتا ہے ؎خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیاخدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیاخدا نہ کرے کہ عمران خان اس نشے میں مبتلا ہو اور اداروں سے فاصلہ پیدا کر بیٹھے ؎کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثاراور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں