روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں (1)
تحریک انصاف نے برسوں قبل"گو نواز گو" کا نعرہ لگایا، خاصہ مقبول ہوا، اتنا مقبول کہ مسلم لیگی لیڈر پیر صابر شاہ نے جوش جذبات میں یہ نعرہ لگایا اور ان کے کارکنوں نے پورے جوش و خروش سے جواب دیا۔ مسلم لیگ(ن) نے "رو عمران رو" کی صورت میں جواب گھڑا۔ پارلیمانی ایوانوں کے علاوہ جلسے جلوسوں میں متوالے ایک ردھم سے یہ نعرہ لگاتے اور سوشل میڈیا پر انصافیوں کی درگت بناتے۔ خیال یہ تھا کہ 2018ء کے الیکشن کا یہ مقبول نعرہ ہو گا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جولائی 2017ء کے اواخر میں تحریک انصاف "گو نواز گو" کے نعرے سے عملاً دستبردار ہو گئی کہ میاں نواز شریف کو ایوان اقتدار سے نکالنے میں کامیاب رہی مگر "رو عمران رو" کا نعرہ مسلم لیگ کے گلے پڑ گیا۔ 25جولائی کے بعد رونے دھونے کا کام مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور کارکنوں نے سنبھال لیا ہے اور لوگ حیران ہیں کہ عمران کو رلانے کے درپے مسلم لیگی یہ نعرہ لگا کر انصافیوں کو چڑانے کے بجائے خود اس کی عملی تصویر کیوں بن گئے؟ ۔ واقعی یہ دنوں کا الٹ پھیر ہے۔ پنجاب میں سپیکر کے انتخاب کے موقع پر مسلم لیگی ووٹوں میں کمی مقام عبرت ہے۔ 1988ء سے 2013ء تک ہر انتخاب کے بعد مسلم لیگ چابکدستی سے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملاتی اورپیپلز پارٹی و مسلم لیگ(ق) میں نقب لگا کر فارورڈ بلاک بنایا کرتی تھی۔ 1990ء میں انتخابات کے بعد "مرد درویش"میاں غلام حیدر وائیں کی مسلم لیگی حکومت قائم ہوئی تو عوام پہلی بار فارورڈ بلاک کی اصطلاح سے متعارف ہوئے۔ منظور احمد موہل اس بلاک کے کرتا دھرتا تھے، جنہوں نے پیپلز پارٹی سے ناطہ توڑ کر میاں نواز شریف کی نامزد صوبائی حکومت کا ساتھ دیا، پھر چل سو چل۔ 2008ء میں میاں شہباز شریف کی صوبائی حکومت آزاد امیدواروں اور یونیفکیشن بلاک کی مرہون منت تھی ورنہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ق) سے مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی۔ اس بار چودھری پرویز الٰہی اور چودھری محمد سرور نے مل کر مسلم لیگ(ن) کا دائو حمزہ شہباز کی قیادت میں کام کرنے والی پارٹی پر الٹ دیا جس پر لیگی رہنمائوں کی چیخیں بقول شیخ رشید لکشمی چوک تک سنائی دے رہی ہیں۔ ہمارے بعض دانشور دوست عرصہ دراز سے یہ باور کرا رہے ہیں کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا یہ پروپیگنڈہ ان دانشوروں کو متاثر کر گیا مگر پہلے پیپلز پارٹی اور اب مسلم لیگ(ن) کی انتخابات میں خستہ حالی دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی؟ ۔ پنجاب کی سیاست میں جوڑ توڑ کے ماہر دو سیاستدانوں چودھری پرویز الٰہی اور چودھری محمد سرور پر مبنی "لیتھل کمبینیشن" بنا کر عمران خان نے شریف سیاست پر جو وار کیا، کیا وہ اس کی سیاسی سمجھ بوجھ کا ثبوت ہے یا سیاست سے بے خبری کی علامت؟ اگر مسلم لیگ (ن) کی عقاب صفت قیادت اب بھی باز نہیں آتی تو معاملہ شائد صرف فارورڈ بلاک تک محدود نہ رہے۔ کسی سیاسی جماعت میں توڑ پھوڑ اور وفاداریاں تبدیل کرنے کی روش، سیاسی اور جمہوری نظام کے لیے نیک فال نہیں۔ مسلم لیگ(ن) کا بطور جماعت قائم رہنا ملکی مفاد میں ہے لیکن اسے مضبوط اور متحد رکھنے کی ذمہ داری شریف خاندان اور اس کے وفادار ساتھیوں پر ہے۔ یہ جماعت شریف خاندان کا بغل بچہ بن کر کوئی معرکہ سر کرنے کی پوزیشن میں ہوتی تو 2018ء کے الیکشن میں اس انجام سے دوچار نہ ہوتی جس پر غور کرنے کے بجائے قیادت رونے دھونے اور طعن و تشنیع میں مصروف ہے۔ پنجابی کا محاورہ"بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتیں ہیں "مسلم لیگ پر صادق آتا ہے۔ جو 1950ء سے اب تک ٹکڑوں میں بٹی اور پھر کسی نہ کسی موقع پر اکٹھی ہو جاتی ہے۔ ان بہنوں کو ایک بار نواز شریف نے اقتدار کے سائے تلے اکٹھا کیا۔ اب چودھری پرویز الٰہی کی باری ہے۔ جن مسلم لیگی ارکان کے لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا رخ کرنا مشکل تھا وہ مسلم لیگ(ق) کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونا پسند کریں گے کہ رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔ اگر عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر بھی حسنین دریشک جیسے کسی خاندانی سیاستدان کو نامزد کر دیا جس کا قارورہ چودھری پرویز الٰہی اور چودھری سرور کے علاوہ جہانگیر ترین سے ملا اور جسے سردار نصراللہ خان دریشک ایسے ہر فن مولا سیاستدان کی پشت پناہی حاصل ہوئی تو مسلم لیگ(ن) کو لگ پتہ جائے گا۔ پیپلز پارٹی نے سپیکر کے انتخاب کے موقع پر اتحاد سے نکل کر مسلم لیگی قیادت کو مشکل میں ڈالا۔ سب کو پتہ چل گیا کہ صرف مسلم لیگیوں نے چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ دے کر اپنی قیادت سے بے وفائی کی۔ اب ہارس ٹریڈنگ کی شکائت فضول ہے کہ جس فارورڈ بلاک، ہارس ٹریڈنگ اور چھانگا مانگا سیاست کا پودا میاں نواز شریف نے لگایا تھا اس کا پھل کھانے کا موقع آیا تو مسلم لیگیوں کو کڑواہٹ کا احساس ہونے لگا۔ جو چیز 1990ء سے 2013ء تک درست وہ 2018ء میں غلط اور شجر ممنوعہ کیسے ہو گئی، میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو کی یہ عادت کب بدلے گی۔؟ الطاف حسین اور آصف علی زرداری کی طرح میاں نواز شریف کا انداز سیاست قصۂ پارینہ ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے حالات سے سبق سیکھا، پیپلز پارٹی کو بلاول کی صورت میں آصف علی زرداری سے بہتر قیادت مل گئی۔ اگر زرداری کی پرچھائیاں کم ہوتی گئیں تو اس نوجوان کا مستقبل روشن ہے مگر میاں نواز شریف بیٹی کی محبت میں میاں شہباز شریف اور مسلم لیگ(ن) کو وہ قرض اتارنے پر مجبور کر رہے ہیں جو واجب بھی نہ تھے۔ جوں جوں مسلم لیگ(ن) پر میاں نواز شریف کی مضبوط گرفت کا تاثر پختہ ہو گا یہ جماعت تحلیل ہوتی چلی جائے گی اور مرکز و پنجاب میں اس کے ارکان موقع محل کی مناسبت سے اقتدار کے ایوان میں داخل ہوتے جائیں گے۔ کون سامسلم لیگی کوئے یار سے نکل کر سوئے دار جانے کا سوچ سکتا ہے۔ لوگ میاں نواز شریف کی جیل یاترا کی مثال دیتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ یہ جیل یاترا اضطراری ہے اختیاری نہیں۔ ریاست اگر افراد کے سامنے کمزور نہ ہو، ملک میں قانون کی حکمرانی اور انسانی مساوات پر یقین رکھتی ہو تو میاں صاحب اتنی بھی اکڑ نہ دکھائیں، جتنی ابتدائی دنوں میں دکھائی۔ معمولی جرائم میں ملوث قیدی تو جلتی دہکتی بس میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھر کر بخشی خانے لائے جاتے اور انہیں اپنے کسی عزیز سے ملنے کی آزادی نہیں ہوتی مگر اربوں روپے کی لوٹ مار میں ملوث قیدیوں کے لیے جب کمرے میں ایئر کنڈیشنر، آرام دہ بستر اور عدالت لانے لے جانے کے لیے لینڈ کروزر حاضر ہو، عدالتیں ضمانت لینے کے لیے بے قرار نظر آئیں اور طاقتور افراد و ادارے کسی نہ کسی طرح سمجھوتے کے لیے تیار، تو انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ گھبرائیں، خوف کھائیں، لیکن خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ پاکستان کو سیاسی جونکوں سے نجات ملے گی، آج نہیں تو کل۔ روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں گوشے رہ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں ان میں لہو جلا ہو ہمارا، کہ جان و دلمحفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں