نگران حکومتیں، کارِ لاحاصل
وقت آ گیا ہے کہ نگران حکومتوں کے تماشائے بے ذوق کی صلاحیت، اہمیت اور افادیت کا بے لاگ جائزہ لیتے ہوئے دیکھا جائے کہ دنیا بھر کے جمہوری ممالک سے ہٹ کر، ہم نے عہدِ آمریت کی متعارف کردہ اِس مشق رائیگاں کو کیوں سینے سے لگا رکھا ہے؟ یہ اچھوتا خیال 1956 اور 1973 کے دستور سازوں کو بھی نہ سوجھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے بحالئی آئین فرمان مجریہ 1985 کے ذریعے صدر اور گورنروں کے اس اختیار کو آئین کا حصہ بنا دیا کہ وہ اسمبلیوں کی معیاد ختم ہونے پر نگران وزیراعظم اور نگران وزرائے اعلیٰ کا تقرر کریں۔ بعض تکنیکی ترامیم کے ساتھ یہ پخ آج بھی آئین کا حصہ ہے۔
1990 کے انتخابات میں، غلام مصطفیٰ جتوئی کی نگران وزارتِ عظمیٰ تلے پہلے اور2018 میں جسٹس (ر) ناصرالملک کے زیراہتمام آخری انتخابات ہوئے۔ اب تک کے چھ انتخابات میں سے کوئی ایک بھی ایسے نہ تھے جو ہر پہلو سے معتبر اور غیر متنازع قرار پائیں۔ البتہ یہ سند، عمران خان کی ضد کے سبب، 2013 کے انتخابات کے حصّے میں ضرور آئی جب سپریم کورٹ نے انتخابات کے دھاندلی سے پاک ہونے کی تصدیق کر دی۔ آخری اور تازہ ترین مثال اُجلی روایات کے حامل نیک نفس جسٹس (ر) ناصرالملک کی ہے جن کے سر پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اتفاق رائے سے نگران وزارتِ عظمٰی کا تاج سجایا گیا۔
25 جولائی کو غروب آفتاب کے کچھ ہی دیر بعد، اوّلِ شب کی فتنہ ساماں ساعتوں میں یکایک آر ٹی ایس کی حرکتِ قلب بند ہوگئی۔ ووٹوں کی صندوقچیاں جادوئی اڑن کھٹولے پہ بیٹھ کر نامعلوم بارگاہوں میں پہنچ گئیں اور تین دِن تک شب گزیدہ نتائج عوام کے اعصاب پر کچوکے لگاتے رہے۔ جسٹس (ر) ناصرالملک کچھ نہ کر پائے۔ وہ بھی ہار گئے۔ الیکشن کمیشن بھی ہار گیا، عوام بھی ہار گئے۔ یہ ووٹ کی توہین بلکہ عصمت دری کا ایسا شرمناک مظاہرہ تھا کہ آج تک عذابِ جاں بنا ہوا ہے۔
ہماری دیکھا دیکھی بنگلہ دیش نے بھی 1996 میں نگران حکومتوں کا تصوّر اپنا لیا لیکن بارہ برس بعد اس مشقِ بے ثمر سے تائب ہو کر دنیا بھر میں مروجہ نظام کی طرف واپس چلا گیا۔ اہلِ بنگال نے اتنی خوش ذوقی کا مظاہرہ ضرور کیا کہ نگران حکومت کے سربراہ کو وزیراعظم کے بجائے "چیف ایڈوائزر" کا نام دیا۔ دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ممالک میں کہیں بھی اس نوع کی نگران حکومت کا کوئی تصوّر نہیں۔ "اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ" (EIU) کے مطابق بہترین جمہوری اقدار رکھنے والے سرِفہرست دس ممالک میں ناروے، آئس لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ، فن لینڈ، آئرلینڈ، ڈنمارک، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔ ان میں سے کسی نے نگران حکومتوں جیسے چونچلے نہیں پال رکھے۔
ہمارے ہاں کا نگران بندوبست، آئینی و قانونی تقاضوں سے بے نیاز، نرالے ہی ڈھنگ رکھتا ہے۔ پاکستان کا آئین غیر مبہم طور پر نگران حکومتوں کے دائرہ کار کو منصفانہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت تک محدود کر دیتا ہے۔ متعدد عدالتی فیصلے بھی صراحت کے ساتھ قرار دے چکے ہیں کہ نگرانوں کا کام کسی نوع کا انقلاب برپا کرنا، پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لانا یا دور رس نتائج کے حامل اقدامات کرنا نہیں۔
وزیراعظم نوازشریف کے دور میں لگ بھگ تین سال پر محیط کاوشِ پیہم کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے الیکشن ایکٹ 2017 کی منظوری دی جو آج بھی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے متفقہ، جامع اور مستند دستاویز ہے۔ اس ایکٹ کا آرٹیکل 230 اور اس کی گیارہ ذیلی شقیں وضاحت سے بتاتی ہیں کہ نگران حکومتوں کے فرائض کیا ہیں اور انہیں کون سے کام نہیں کرنے چاہئیں۔
230 (1) کی ذیلی چارشقوں کا عنوانِ جلی ہے "نگران حکومت کے فرائض" (Functions of Caretaker Government): (1) حکومت چلانے کے لیے روزمرہ کی عمومی انتظام کاری (2)قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمشن کی معاونت (3) معمول کے ایسے کام (Routine Tasks) جو عوامی مفاد کے لیے ضروری ہوں اور جنہیں آنے والی حکومت واپس لینا چاہے تو اُسے مشکل نہ ہو۔ (4) تمام افراد اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھنا۔ آرٹیکل 230 (2) کا عنوان ہے "جو کام نگرانوں کو نہیں کرنے چاہئیں" (The Caretakers shall Not): اِس عنوان کے تحت سات موانِعات کا غیر مبہم ذکر ہے۔ (1) کسی نوع کے بڑے پالیسی فیصلے، (2) ایسے پالیسی اقدامات جن سے آنے والی منتخب حکومت کی اتھارٹی مجروح ہو، (3) ایسے معاہدے جو عوامی مفاد کے منافی ہوں (4) بیرونی ممالک یا عالمی اداروں کے ساتھ عہد نامے، (5) سرکاری افسران کی ترقیاں اور تبادلے، (6) ضرورت اور اہمیت کا تعیّن کیے بغیر اور الیکشن کمشن کی اجازت کے بغیر تبادلے کرنا، (7) الیکشن کمشن پر اثرانداز ہونا یا اس طرح کی کسی سرگرمی کا حصہ بننا جو انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے پر اثرانداز ہو۔
اس وضاحت اور صراحت کے باوجود ہمارے نگرانوں کو کچھ اندازہ نہیں کہ وہ کس لیے آئے ہیں؟ ان کا بنیادی وظیفہ کیا ہے اور اُنہیں اپنی توانائیاں کس کام پر مرکوز رکھنی چاہئیں؟ ایک ماہ ہو چلا۔ میرے علم میں نہیں کہ کوئی ایک بھی کابینہ اجلاس صرف انتخابی اُمور اور الیکشن کمشن سے معاونت کے تقاضوں بارے منعقد ہوا ہو۔ شاید ہی کسی نے آئین، الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 230 یا اس سے متعلقہ اہم عدالتی فیصلوں پر ایک نظر ڈالی ہو۔
"وٹس ایپ کالز" کے انداز میں تلاش کیے گئے یہ ہیرے، بڑی لاٹری نکل آنے کی شادمانی و سرشاری کے ساتھ اقتدار کی بارگاہوں تک پہنچے اور پھر بھول گئے کہ وہ کیا کرنے آئے تھے۔ کچھ نے اسے اپنے کام کاج سے فراغت اور تفریح کا سنہری موقع جانا، کچھ تصویر، تقریر اور تشہیر کے آشوب کا شکار ہو کر ٹی وی سکرینوں میں جا بیٹھے اور کچھ منصبی لذائذ اور آسائشوں میں مگن ہو گئے۔ سب کی صبح انتخابات کے طویل التوا کی دعاؤں کے ساتھ طلوع ہوتی اور اسی آرزو کی دھیمی ھیمی آنچ میں غروب ہو جاتی ہے۔ وہ ان رفعتوں کے لیے عوام کے مرہون منت ہیں نہ جوابدہ۔ خلا سے آئے اور خلا میں چلے جائیں گے۔
اس بے چہرہ نظام کی دنیا میں کوئی وُقعت نہیں۔ یہ پاکستان کو دو تین ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے کے لیے انتہائی درجے کی بے توقیری اور عالمی تنہائی میں دھکیل دیتا ہے۔ انہی دنوں سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان، بھارت جاتے ہوئے، خواہش کے باوجود اس لیے پاکستان میں کچھ وقت گزارنے سے گریزاں رہے کہ یہاں کا بے بال و پر سیاسی بندوبست، اُن کے مرتبہ و مقام سے مناسبت نہیں رکھتا تھا۔
نگران منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی قدرت رکھتے ہیں نہ صلاحیت اور نہ عزم۔ یہ بہت نیکوکار ہونے کے باوجود دھاندلی روکنے کی استعداد بھی نہیں رکھتے۔ چھ انتخابی تجربوں سے یہ بات پایہئِ ثبوت کو پہنچ چکی ہے۔ سو آنے والی حکومت اور اپوزیشن کو اتفاق رائے سے، 1973 کے آئین میں کی جانے والی اس آمرانہ پیوندکاری کو کاٹ پھینکنا چاہیے۔ دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں بھی اسمبلیوں کی تحلیل کے وقت موجود وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم رہیں لیکن اگلے ہی دن وہ اُن شکنجوں میں کس دی جائیں جو آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 نے نگران حکومتوں کے لیے بنائے ہیں۔
ہمارا الیکشن کمشن پہلے ہی وسیع اختیارات رکھتا ہے۔ اُسے مزید توانا بنا دیا جائے۔ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں یہی طریقہئِ کار رائج ہے تو ہمیں بھی کئی کئی مہینوں کے لیے ملک کو چند بے سمت طفلانِ خود معاملہ کے حوالے کرکے عملاً مفلوج کر دینے کی اس مشقِ بے ثمر سے نجات حاصل کر لینی چاہیے۔