Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Irfan Siddiqui
  3. Kya Ye Waqai Siasi Jamaat Hai?

Kya Ye Waqai Siasi Jamaat Hai?

کیا یہ واقعی سیاسی جماعت ہے؟

24نومبر کی "فائنل کال" پی ٹی آئی کی نگاہ میں اس لئے ناکام و نامراد نہیں ٹھہری کہ وہ ڈی چوک پہنچ کر اپنے عزائم کے خاکے میں رنگ نہیں بھر سکی۔ اس کے نزدیک شکستِ آرزو کا نوحہ یہ ہے کہ حسبِ توقع لاشیں نہیں گریں، حسبِ تشنگی خون نہیں بہا اور حسبِ تسکین غارت گری نہیں ہوئی۔ پارٹی کے اندر ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے اور منہ نوچنے کا تماشا "لاشوں" کی تعداد پر لگا ہے۔ "حسب توفیقِ دروغ گوئی" مختلف اعداد و شمار دیے جارہے ہیں۔ بات نہیں بن پا رہی تھی کہ گوئبلز کی روح نے سرگوشی کی۔ "لاشیں چھوڑو۔ ثابت کرنا پڑیں گی۔ یہ کہو کہ ہمارے ہزاروں لوگ لا پتا ہیں۔ " سو اَب یہی فرمانِ امروز ہے۔

احتجاج ساری دنیا میں ہوتے ہیں۔ دنیا کے 195 ممالک میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جہاں پر امن احتجاج کا حق، بے مہار، لامحدود، غیر مشروط اور تمام حدود و قیود سے آزاد ہو۔ شہری آزادیوں کو اپنا تفاخر سمجھنے والے مہذب جمہوری ممالک نے "پر امن احتجاج" کے حق کو نہایت کڑے ضابطوں میں جکڑ رکھا ہے۔ اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 16 دسمبر 1966ءکو منظور کردہ چارٹر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جو "انٹرنیشنل کانوینٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائیٹس" (آئی سی سی پی آر) کے نام سے معروف ہے۔ یہ پروٹوکول 23 مارچ 1976ءسے باضابطہ طور پر نافذالعمل ہے۔ پاکستان بھی دنیا کے ان 176 ممالک میں شامل ہے جو اِس کے دستخطی ہیں۔ اس بین الاقوامی عہدے نامے میں کہا گیا ہے:

"The right of peaceful assembly shall be recognised. No restrictions may be placed on the excercise of the right other than those imposed in conformity with the law and which are necessary in a democratic society in the interest of national security or public safety, Public Order, the protection of public health or morals or the protection of the rights and freedom of others. "

"پر امن احتجاج کا حق تسلیم کیا جائے گا اور ایسے پر امن اجتماعات پر ان پابندیوں کے سوا کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی، جو کسی بھی جمہوری معاشرے میں، قومی سلامتی، عوامی جان ومال کے تحفظ، امنِ عامہ، عوامی صحت، اخلاقیات یا دوسرے لوگوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے، ملکی قوانین کے تحت عائد کی جاتی ہیں"۔

اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پر امن اجتماع کا حق کتنی کڑی شرائط کی زنجیروں میں بندھا ہے۔ جب بھی کسی مہذب جمہوری ملک میں کوئی جماعت یا تنظیم، کوئی احتجاجی مظاہرہ کرنا چاہتی ہے تو اسے بیسیوں قانونی ضابطہ بندیوں سے گزر کر اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اجتماع کا مقصد کیا ہے؟ منتظمین کون ہیں؟ ان کے مکمل کوائف کیا ہیں؟ احتجاج کتنے بجے شروع اور کتنے بجے ختم ہوگا؟ اس کا روٹ کیا ہے؟ برطانیہ میں پولیس کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ کسی بھی وقت احتجاج کا روٹ بدل دے۔ اس میں شرکا کی تعداد محدود کردے، اس کے احتجاج کا دورانیہ کم کردے اور طے کرے کہ کون سا میگافون، استعمال کیا جاسکتا ہے جو عام لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب نہ بنے۔ برطانیہ میں دو سال قبل منظور کیے جانے والے قانون "پولیس، کرائم، سینٹینسنگ اینڈ کورٹس ایکٹ 2022" نے بغیر اجازت اجتماع کو کڑا جرم قرار دیتے ہوئے، پر امن احتجاج، کے حق کو نہایت سخت شرائط سے جوڑ دیا ہے۔

اب ذرا پی ٹی آئی کی "پر امن فائنل کال" کے تیور دیکھیے۔ جان بوجھ کر 24 نومبر کی تاریخ اس لیے دی گئی کہ اس دِن بیلاروس سے ایک بڑا وفد اور اس کے صدر پاکستان آرہے تھے۔ اس سے پہلے 15 اکتوبر کو اسلام آباد "امن مارچ" کے لیے وہ وقت چنا گیا جب شنگھائی تعاون کانفرنس میں شرکت کے لیے سینکڑوں مندوب اسلام آباد میں تھے۔ اس مارچ کے دوران، ایک پولیس اہلکار کو بہیمانہ تشدد کرکے شہید کردیا گیا۔ 24 نومبر کے "پر امن احتجاج" کے لیے کسی بھی ملکی قانون کے تحت کسی بھی مجاز اتھارٹی کو، کوئی درخواست نہیں دی گئی۔ کسی بھی عدالت سے اجازت حاصل نہ کی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔ پشاور سے روانہ ہوتے وقت "پر امن احتجاج" کا عزم کرتے ہوئے الجہاد الجہاد، کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔ سروں سے کفن باندھے گئے۔ "مارو یا مر جاؤ" کا جنگی سلوگن دیا گیا۔ صوبے کے انتظامی سربراہ نے کہا۔۔ "ہم جارہے ہیں، اپنا مقصد پائیں گے یا مر جائیں گے۔ واپس نہ آئیں تو ہمارے جنازے پڑھ لیں"۔

پھر اِسے پانی پت، کی جنگ قرار دیا۔ گاڑیاں برازیل ساختہ آنسو گیس کے شیلز سے بھری گئیں۔ جدید اسلحہ ٹھونسا گیا۔ کیلوں جڑے ڈنڈے تقسیم کیے گئے۔ راستے کی ہر رکاوٹ اٹھا کر پھینک دی گئی۔ اٹک پہنچے تو پولیس پر یلغار کرکے 147 اہلکاروں کو زخمی کردیا جن میں سے درجن بھر جان کنی کے عالم میں ہیں۔ موٹروے کی ہر علامت کو توڑتے پھوڑتے، پاس پڑوس کے نوزائیدہ درختوں کو آگ لگاتے، بپھرے ہوئے آتش فشانی لاوے کی طرح ڈی چوک کا رخ کرتے "پر امن" لوگوں نے ہر ریاستی قانون اور ضابطے کی دھجیاں اڑا دیں۔ گنڈا پور نے ٹول پلازے کا بیرئیر توڑ پھینکا۔ کسی گاڑی نے کوئی ٹیکس نہیں دیا۔ اس لیے کہ یہ "پر امن سیاسی احتجاج" بیلاروس سے آئے معزز مہمانوں کے حضور گل ہائے عقیدت پیش کرنے آ رہا تھا۔ سو اِس پر امن احتجاجی کارواں کے شرکا نے جدید غلیلوں کے ذریعے بھی کئی کئی فرلانگ دور کھڑے اہلکاروں پر تازہ گلاب کے پھول پھینکے۔

اِس پر امن احتجاجی قبیلے کا ایک ماضی بھی ہے۔ تھانے کے کسی ہسٹری شیٹر جیسا شاندار ریکارڈ بھی جسے تھانیدار "بستہ ب" کہتا ہے۔ مثلاً تحریری معاہدوں اور یقین دہانیوں سے انحراف، آبپارہ کہہ کر شاہراہِ دستور پر ڈیرے ڈالنے، پی ٹی وی پر حملہ اور قبضہ، پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس پر حملے، پولیس اہلکاروں پر سرِعام ظالمانہ تشدد، پٹرول بم اور سب سے بڑھ کر 9 مئی، جب اڑھائی سو سے زیادہ فوجی تنصیبات روند ڈالی گئیں، شہداءکے مزار ادھیڑ دیے گئے اور فضائیہ کے طیارے نذر آتش کردیے گئے۔

بیانیہ، ملاحظہ فرمائیے کہ۔۔ "پر امن سیاسی احتجاج ہمارا حق تھا لیکن ریاست نے قتلِ عام کر دکھایا۔ " کوئی ایک معتبر دلیل تو دو کہ تم ملکی آئین وقانون کی پاس داری کرنے والے پر امن سیاسی کارکن تھے؟ رہی ریاست تو وہ سادھو، راہب اور درویشِ خدا مست نہیں ہوتی کہ کوئی گنڈا پور اس کے رخسار پر طمانچہ مارے اور وہ دوسرا رخسار آگے کردے۔ آئین ریاست کو اتھارٹی دیتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور آئینِ پاکستان کے مطابق شر پسندوں سے نمٹے۔

26 مئی کو ریاست نے بے مثل صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اپنے آئینی اختیار کو بھی بروئے کار نہ لائی۔ چار اہلکار شہید اور سینکڑوں زخمی کرا بیٹھی۔ اس پر بھی ہاہاکار مچی ہے۔ لمحہ بھر کو تصور کیجیے کہ ہر قسم کے نظم، کنٹرول اور کمانڈ سے عاری یہ فسادی اور انتشاری گروہ ریڈ زون میں داخل ہوجاتا تو کیا حشر بپا ہوتا، پہلو میں واقع اس پانچ ستارہ ہوٹل پر کیا گزرتی جس میں بیلاروس سے آئے معزز مہمان ٹھہرے ہوئے تھے؟

کشتِ وطن میں امن و محبت کی فصلِ گل کاشت کرنے والے قافلہ سالار، نے ٹھیک دس سال پہلے شاہراہِ دستور پر کھڑے ہو کر فرمانِ انقلاب جاری کیا تھا۔۔ "میرے پاکستانیو! سول نافرمانی کے لیے کمر کس لو۔ ٹیکس نہ دو، بجلی گیس کے بل جلا دو، باہر سے پیسے ہنڈی کے ذریعے بھیجو۔۔ " قافلہ سالار، کی روح پرور قیادت میں امن و محبت کے نغمے الاپتا، حلقہِ رومی کے رقصِ درویش کے دائرے بنتا کارواں، دس سال پہلے والے اسی " نقطہِ وجد" پہ آ کھڑا ہوا ہے جہاں سے اس نے سماع کا آغاز کیا تھا "میرے پاکستانیو! سول نافرمانی کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔ "

"کیا یہ واقعی سیاسی جماعت ہے؟"

Check Also

Teenage, Bachiyan Aur Parhayi

By Khansa Saeed