غارت گری، انصاف پروری اور ضمانتوں کی گنگا!
ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے تراشے گئے بیانیوں کے بیچوں بیچ ایک بیانیہ تاریخ کا بھی ہوتا ہے جو خود رَو پودے کی طرح آپ ہی آپ اُگتا اور فطرت کے ازلی و ابدی اصولوں کی زرخیز آب و ہوا میں پروان چڑھتا چلا جاتا ہے۔ وٹس ایپ، فیس بُک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک، انسٹا گرام ایسے خرخشوں سے بے نیاز یہ بیانیہ مشرق سے ابھرتے آفتاب کی طرح اپنی دلیل آپ ہوتا ہے۔
9 مئی کے یوم سیاہ، کی کوکھ سے ایسے ہی تاریخی بیانیے نے جنم لیا ہے۔ اس کا پہلا جزو سیاست کے طالب علموں اور عوام الناس کے لیے ہے کہ ہنگامہ و پیکار اور تخریب و انتشار کی بنیاد پر استوار کسی نام نہاد سیاسی جماعت سے تعمیری انقلاب اور مثبت تبدیلی کی توقع پرلے درجے کی خود فریبی ہے۔
تاریخ کے بیانیے کا دوسرا حصہ "پراجیکٹ عمران" کو اپنے معتبر ادارے کا لہو پلانے والوں کے لیے ہے کہ کیکر کی جڑوں میں گنے کی کھاد ڈالی جائے یا کسی لال شربت سے آبیاری کی جائے، اُسکی شاخوں پر آم لگتے ہیں نہ انگور کے خوشے جھولتے ہیں۔
آئی۔ ایس۔ پی۔ آر نے 9 مئی کو یوم سیاہ قرار دیا۔ بلاشبہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا، اس کی نظیر ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ اُن کے ساتھ تو اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہوا جو ماضی میں پاکستان کی مقبول سیاسی قیادت کے ساتھ ہوتا رہا۔ تین بیڈروم کے آراستہ پیراستہ ریسٹ ہاؤس میں دو راتیں گذارنے کے بعد انہوں نے کہا کہ "کیا یہاں جنگل کا قانون ہے؟" اُنہیں کون بتائے کہ اپنے عہد اقتدار کے پونے چار سال میں کس طرح آپ نے اس ملک کو گھنے دلدلی جنگل میں بدل دیا تھا جہاں چار سو حشرات الارض رینگتے اور اژدھے پھنکارتے تھے۔
کال کوٹھڑیوں میں پڑے قیدی مہینوں سورج کی کرن نہیں دیکھ پاتے تھے کہ تب بھی عدلیہ "پراجیکٹ عمران" کا حصّہ تھی اور ضمانتیں بنیادی انسانی حقوق میں شمار نہیں ہوتی تھیں۔ خان صاحب نے نیب قوانین میں ترمیم کے خلاف عدلیہ سے رجوع کر رکھا ہے۔ استدعا یہ ہے کہ 90روز کے ریمانڈ اور ضمانت نہ ہونے والا قانون بحال کیاجائے لیکن اپنے لیے ریلیف مانگتے ہوئے انہوں نے 14 روز والے ریمانڈ کے ترمیمی قانون کا سہارا لیا۔
ضمانت اور ریمانڈ کی حد تک ترمیمی قانون سے مستفید ہونے والے پہلے فرد قرار پائے۔ اگر اُن کے عہد کا جنگل آج بھی موجود ہوتا تو وہ اپنے سیاسی حریفوں کی طرح جانے کون سی عقوبت گاہ میں پڑے ہوتے۔ لیکن شاید یہ میری غلط اندیشی ہے۔ نیب قانون کوئی بھی ہوتا، کٹہرے میں خان صاحب ہوتے تو اُن پر انصاف کی باران رحمت اسی طرح برستی۔
9 مئی کو جو کچھ ہوا، وہ جمہوری احتجاج نہیں بپھرے ہوئے مشتعل جتھوں کی دہشت گردانہ کارروائیاں تھیں جو ملک کے طول و عرض میں ایک خودکار نظم کے ساتھ پھیلتی اور ایک ہی طرح کی پہچان رکھنے والی علامتوں کو خاکستر کرتی چلی گئیں۔ یہ کارکنوں کا بے ساختہ پن نہیں، اُن زہر ناک رویوں کی لہلہاتی فصل تھی جو عمران خان اپنے پورے عہد سیاست میں کاشت کرتے رہے۔ اُن کی پچیس سالہ سیاسی تاریخ پر محیط اُن کے بیانات میں سے ایسے دو چار جملے بھی نہیں نکالے جا سکتے جن سے اتحاد و اتفاق، خیر سگالی، رواداری، بھائی چارے، اُجلی تہذیبی اقدار۔
امن و آشتی، تحمل و برداشت اور خوئے دِل نوازی کی مہک آتی ہو۔ اس کے برعکس وہ اپنے چاہنے والوں کے ہر قطرہئِ خوں میں غصّے، غیظ و غضب، اشتعال اور نفرت کی چنگاریاں بوتے اور بارود بھرتے رہے۔ پہلا بڑا عملی مظاہرہ 2014 کے چار ماہی دھرنوں میں ہوا۔ تب خان صاحب نے سول نافرمانی کا کہا۔ ہُنڈی کا حکم صادر کیا۔ بجلی کے بل جلائے۔ کہنہ مشق طاہر القادری کی قیادت میں ان کے تربیت یافتہ جانبازوں کے ساتھ مشترکہ مشقیں کیں۔ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، پی ٹی وی اور سیکریٹریٹ پر حملے کیے۔ پولیس افسروں کو مارا پیٹا۔
اقتدار سے محروم ہو کر خان صاحب باقاعدہ دو پرچموں والا سٹیج سجا کر، روزانہ کی بنیاد پر "قوم سے خطاب" کرنے والے پہلے سیاسی راہنما کے طور پر ابھرے۔ 9 تاریخ کو بھی اسلام آباد کا رُخ کرتے وقت انہوں نے ایک اعلیٰ فوجی افسر کا تواتر سے نام لے کر پیغام دیا کہ مجھے کچھ ہوگیا تو تمہاری توپوں کا رُخ کس طرف ہونا چاہیے۔ سو جو کچھ ہوا، باقاعدہ منصوبہ بندی اور خان صاحب کی خواہش کے مطابق ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی التجا کے باوجود انہوں نے غارت گری اور غارت گروں کی مذمت سے انکار کر دیا۔
9 مئی کے یوم سیاہ کے سائے 10 مئی پر بھی محیط رہے۔ پھر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ 11 اور 12 مئی کو پے درپے دو "ایام سفید" طلوع ہوئے۔ دنیا بھر کو پیغام ملا کہ یکایک پاکستان کا نظام عدل و انصاف نئی رفعتوں کو چھونے لگا ہے۔ 11 مئی کو خان صاحب کے "غلط اندازِ گرفتاری" پر پٹیشن دائر ہوئی۔ اُسی دن نمبر لگ گیا۔ اُسی دن بینچ قائم ہوگیا۔ اُسی دن نوٹس جاری ہو گئے۔ اُسی دن سماعت شروع ہوگئی۔ اُسی دن درخواست گزار سیاہ رنگ مرسیڈیز میں سوار ججوں کے لیے مخصوص دروازے سے داخل ہوئے، اُسی دن دلائل مکمل ہو گئے، اُسی دن فیصلہ صادر ہوگیا، اُسی دن ملزم کو رہائی مل گئی۔
عدالت عظمیٰ نے ملک بھر میں غارتگری کے حقیقی محرک کا استقبال کرتے ہوئے دلی خوشی کا اظہار کیا۔ پھر سے گرفتاری کے خطرے کے پیشِ نظر، پولیس لائنز کے بنگلے کو شاہی مہمان خانے میں بدل دیا گیا جہاں میل ملاقات سمیت تمام سہولیات فراہم کر دی گئیں۔ دوسرا یوم سفید 12 مئی کو طلوع ہوا جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں پے در پے ضمانتوں کی گنگا موجیں مارنے لگی جس میں خان صاحب گیارہ گھنٹے اشنان کرتے، قلقاریاں مارتے اور چھینٹے اڑاتے رہے۔
درجنوں ضمانتوں پر بھی ان کی تسلّی نہ ہوئی تو ایک عدالتی فرمان آ گیا، "اُن تمام مقدمات میں ضمانت جو خان صاحب یا عدالت کے علم میں نہیں یا جو آئندہ بھی درج ہو سکتے ہیں۔ " صحافی نے وزیر داخلہ سے پوچھا، "کیا آپ عمران خان کو گرفتار کر رہے ہیں؟ جواب آیا "نہیں! عدالتی حکم کے تحت اب وہ کسی کو قتل بھی کر دے تو ہم گرفتار نہیں کر سکتے۔ اسے ضمانت مل چکی ہے"۔
کالم کے بوجھل پن کو کم کرنے کے لیے کچھ ذکر اپنے دوست انصار عباسی کا۔ وہ پہاڑوں کے باسی ہیں۔ مردِ کوہستانی، فطرت سے قریب تر ہونے کے باعث کچھ کچھ سادہ و معصوم بھی ہوتا ہے۔ اپنے ایک حالیہ کالم "دشمن خوش ہوا" میں انہوں نے کور کمانڈر ہاؤس، جی۔ ایچ۔ کیو، ائیر بیس میانوالی اور دوسری دفاعی تنصیبات پر حملوں کی تفصیل بتانے کے بعد لکھا، "کاش کوئی خان صاحب کو اِن دو دنوں میں تحریک انصاف کی احتجاج کے نام پر کی جانے والی تباہی و بربادی کی وڈیوز دکھائے۔۔ " میرے دوست کا خیال ہے کہ یہ وڈیوز دیکھتے ہوئے خان صاحب کی آنکھیں اشکبار ہو جائیں گی اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں خودکلامی کریں گے "میرے بچو! یہ تم نے کیا کر دیا ہے؟" پھر وہ اسد عمر کو ہدایت جاری کریں گے کہ مجھے اور پارٹی کو رسوا کرنے والوں کو چُن چُن کر نکالو اور ان کے خلاف خود مقدمے دائر کرو"۔
آپ بھی کتنے بھولے ہیں عباسی صاحب! خان صاحب جب فرصت کے لمحات میں اِن وڈیوز کا مشاہدہ کرتے ہوئے کور کمانڈر ہاؤس سمیت دفاعِ وطن کی پُر تفاخر علامتوں کو دھڑ دھڑ آگ کے شعلوں میں لپٹا دیکھیں گے تو اُن کے تبسّم نا آشنا ہونٹوں پر بھی افق تا افق مسکراہٹ پھیل جائے گی اور جوش و مَستی کے عالم میں وہ اسد عمر کو حکم دیں گے، "ان سب غازیانِ صف شکن کو کل زمان پارک میں بلاؤ۔ ایک شاندار ضیافت کا اہتمام کرو۔ سب کے لیے حُسنِ کارکردگی کے خصوصی تمغے بنواؤ اور آنے والے انتخابات میں اِن کے ٹکٹ ابھی سے کنفرم کر دو"۔
عباسی صاحب کو کیسے سمجھاؤں کہ غارت گری کے شواہد کے طور پر پیش کی جانے والی وڈیوز، اُن میں دکھائی دینے والے تمام کرداروں کی ترقیئِ درجات کے مستند شواہد بن جائیں گے اور وہ سب عتاب کی بھٹّی میں جھونک دئیے جائیں گے جو اس تاخت و تاراج سے کنارہ کش رہے۔