اصل دیوبندی مزاج کیا ہے
اصل دیوبندی مزاج کیا ہے؟ یہ بحث وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر جاری رہتی ہے۔ میں نے "دیوبندی مزاج" کی تعبیر تفہیم کے لیے لکھی ہے ورنہ اصل تعبیر یہ ہونی چاہیے کہ اہل روایت کا اصل مزاج کیا ہے۔ اس بحث کا پس منظر یہ ہے کہ بعض تجدد پسند یہ خلط مبحث پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ موجودہ عہد کا دیوبندی مزاج اسلاف کے مسلک سے انحراف کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اصل دیوبندی مزاج میں توسع تھا وغیرہ۔ اس ضمن میں اپنی مرضی کی عبارات منتخب کرکے ان پر اپنا مقدمہ قائم کیا جاتا ہے۔ اس مقدمہ کے بطن سے پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اصل دیوبندی مزاج کی نمائندگی ان تجدد پسندوں کے افکار میں نظر آتی ہے۔
ان تجدد پسندوں میں سے کچھ غامدی صاحب کے خوشہ چین اور ان کے فکری جانشین ہیں۔ انہیں خود اصرار نہیں کہ انہیں دیوبندی کہا جائے لیکن ان کے چاہنے والے البتہ بضد ہیں کہ انہیں اصل دیوبندی مزاج کا مستند نمائندہ سمجھا جائے۔ کچھ وہ جن کے اپنے مزاج کا اتار چڑھاؤ غیر معتدل رہتا ہے۔ معمولی اختلاف کی خراش سے ان کے آبگینے ٹوٹ جاتے ہیں۔ کچھ ایسے جو غیر ضروری مباحث کو سوشل میڈیا کی زینت بنائے رکھتے ہیں۔ کچھ وہ جن کا لازمی مطالبہ ہے کہ اصحاب رسول کے مابین خط امتیاز کھینچا جائے۔ کچھ وہ فکری اپاہج جن کی شخصیت تاثر اور مفادات سے گندھی ہے۔ یہ سب وہ متبادل "تراث" ہے جس کے بارے دعویٰ اور مطالبہ ہے کہ اسے اصل دیوبندی مزاج سمجھا جائے۔
علامہ اقبال مرحومؒ سے کسی نے دریافت کیا دیوبندیت کیا ہے؟ علامہ مرحومؒ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا: "دیوبند نہ فرقہ ہے نہ مذہب ہر معقول پسند، دین دار آدمی کا نام دیوبندی ہے"۔ اصل دیوبندی مزاج میں توسع ضرور ہے لیکن اس حد تک نہیں کہ یہ تجدد کی حدوں کو چھو کر اس سے بغلگیر ہو جائے۔ توسع اور اعتدال سے متصف ہونے کے باوجود دیوبندی مزاج تجدد کے باب میں ہمیشہ حساس رہا ہے۔ ہر عہد کے دیوبندی مزاج نے تجدد کی نشان دہی کی اور اس کا علمی و عملی رد کیا ہے۔
مولانا رشید احمد گنگوہیؒ دار العلوم کے بانیان میں سے تھے۔ ان سے جب اپنے عہد کے تجدد پسند سر سید احمد خان کے بارے سوال ہوا تو ان کا جواب کچھ اس طرح تھا: "اگر ہندو مسلمان باہم شرکت بیع و شراء اور تجارت میں کر لیویں، اس طرح کہ کوئی نقصان دین میں یا خلاف شرع معاملہ کرنا اور سود اور بیع فاسد کا قصہ پیش نہ آوے، جائز ہے اور مباح ہے۔ مگر سید احمد سے تعلق رکھنا نہیں چاہیے۔ اگرچہ وہ خیر خواہی قومی کا نام لیتا ہے یا واقع میں خیر خواہ ہو مگر اس کی شرکت مالِ کار اسلام و مسلمان کو سم قاتل ہے۔ ایسا میٹھا زہر پلاتا ہے کہ آدمی ہرگز نہیں بچتا۔ پس اس کے شریک مت ہونا اور ہنود سے شرکت معاملہ کر لینا۔ اور اگر ہنود کی شرکت سے اور معاملہ سے بھی کوئی خلافِ شرع امر لازم آتا ہو یا مسلمانوں کی ذلت یا اہانت یا ترقی ہنود ہوتی ہو، وہ کام بھی حرام ہے"۔
یہ تجدد کے باب میں صف اول کا دیوبندی مزاج ہے۔ گو اس مؤقف میں کچھ سختی در آئی ہے لیکن اس مؤقف کا حاصل یہ ہے کہ سر سید احمد خان دین کے نام پر بے دینی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جنت و جہنم کا انکار، معجزات کا انکار وہ میٹھا زہر تھا جسے پینے کے بعد ایمان سسک سسک کر مر جاتا تھا۔
مولانا قاسم نانوتویؒ دار العلوم کے روح رواں تھے، ان کے سامنے سر سید احمد خان کا تذکرہ ہوا تو فرمایا: "ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ سنی سنائی سید صاحب کی اولولعزمی اور درمندی اہل اسلام کا معتقد ہوں اور اس وجہ سے ان کی نسبت اظہار محبت کروں تو بجا ہے۔ مگر اتنا یا اس سے زیادہ ان کی فسادِ عقائد سن سن کر ان کا شاکی اور ان کی طرف سے رنجیدہ خاطر ہوں"۔ یہاں سر سید احمد خان کے اعتراف عظمت کے باوجود ان کے فساد عقائد کی شکایت اصل دیوبندی مزاج کی خوبصورت عکاسی ہے۔ اعتدال یہ ہے کہ اعتراف عظمت کے باوجود اگر کہیں فساد عقائد یا خرابی دین کی صورت پیش آ رہی ہو تو اسے بھی واضح کیا جائے۔
سر سید احمد خان نے علی گڑھ میں کالج کی بنیاد رکھی تو ایک معمتد خاص کو مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی خدمت میں بھیجا کہ و ہ مولانا کو یہ پیغام پہنچائیں کہ میں نے مسلمانو ں کی ترقی کے لیے کالج کی بنیاد ڈالی ہے لہٰذا آپ میرا ساتھ دیں۔ مولانا گنگوہیؒ نے پیغام سن کر فرمایا: "بھئی! ہم تو آج تک مسلمانوں کی فلاح کا راستہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے سمجھتے رہے مگر آج معلوم ہوا کہ ان کی ترقی کا اور بھی کوئی راستہ ہے"۔ پھر مولانا قاسم نانوتویؒ کا نام لے کر فرمایا: "وہ ان باتوں میں مبصر ہیں جو وہ فرمائیں ہم ان کی تقلید کریں گے"۔ وہ معتمد مولانا قاسم نانوتویؒ کے پاس پہنچا اور مولانا گنگوہی کا جواب سنایا۔
مولانا نے کہا: "کام کرنے والوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں، ایک نیت اچھی مگر عقل اچھی نہیں، دو عقل اچھی مگر نیت اچھی نہیں، تین نہ نیت اچھی نہ عقل اچھی۔ سر سید کے متعلق یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ نیت اچھی نہیں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ عقل اچھی نہیں کیونکہ وہ جس زینہ سے مسلمانوں کو ترقی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور فلاح و بہبود کا سبب سمجھتے ہیں وہ مسلمانوں کی تنزل کا سبب ہوگا"۔ یہ عبارت بھی اصل دیوبندی مزاج کی تفہیم میں کارگر ہے۔ اپنے عہد کے ارباب تجدد کی نیت پر شک نہیں کیا مگر اس ممکنہ غلطی کی نشان دہی بھی کر دی جس کا ارتکاب ابھی سرسید نے نہیں کیا تھا۔
مولانا عبد اللہ انصاریؒ مولانا قاسم نانوتویؒ کے داماد تھے۔ اپنے بزرگوں اور بڑوں کی اجازت اور مشورے کے بغیر انہوں نے علی گڑھ کالج کو جوائن کر لیا۔ مشہور یہ ہوگیا کہ وہ بڑوں کی اجازت اور مشورے سے علی گڑھ منتقل ہوئے ہیں۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے نام خط لکھا: "مولوی عبداللہ صاحب کے حالات سن کر تعجب ہوا اور افسوس کہ باوجود دعویٰ صوفیت اور بزرگ زادگی کے اس مدرسہ کے متعلق ہو گئے جس کا نام علمائے آخرت کے نزدیک دارالالحاد ہے اور جو مذہب اور مشرب کے خلاف ہے اور یہ جو آپ سے کسی نے کہا ہے کہ وہ فقیر کی اجازت سے مدرسہ نیچریہ میں ملازم ہوئے ہیں سبحانک ھذا بہتان عظیم"۔ ایک دیوبندی خانوادے کے چشم و چراغ کا اپنے عہد کے تجدد پسند کے ہمرکاب ہونا صف اول کے دیوبندی مزاج کو پسند نہیں آیا۔
یہ چند واقعات اصل دیوبندی مزاج کی تفہیم میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اس تفہیم کا حاصل یہ ہے کہ اصل دیوبندی مزاج توسع اور اعتدال و توازن کا نام ہے۔ لیکن وہ اعتدال جو تجدد کی حدوں کو چھو رہا ہو اس کا ہر عہد میں رد کیا گیا ہے۔ اور اگر اس تجدد سے کہیں کچھ مثبت صادر ہوا تو اس کو لینے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ موجود عہد میں بھی یہ دیوبندی مزاج اسی سپرٹ کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن کچھ تجدد پسند، کچھ Inclusivity کے احساس اور کچھ فکری پراگندگی کا شکار ارباب علم اور ان کے خیر خواہوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں اصل دیوبندی مزاج کا نمائندہ ڈکلیئر کیا جائے۔
ان کے مطالبے پر غور کرنے سے قبل ایک لمحے کے لیے غور کر لیں اگر انیسویں صدی کے آخری میں سر سید احمد خان کی مذہبی فکر کو دین کی نمائندہ فکر تسلیم کر لیا جاتا تو آج مذہب کا وجود کس قدر زخمی اور چھلنی ہو چکا ہوتا۔