Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Irfan Siddiqui
  3. Aik Aur Siasi Jamaat (1)

Aik Aur Siasi Jamaat (1)

ایک اور سیاسی جماعت (1)

کیا پاکستان کو درپیش گوناگوں مسائل کا حل ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام ہے؟

یہ سوال میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ تین جانے پہچانے سیاستدان، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفی نوازکھوکھر اِس مفروضہ نئی سیاسی جماعت کے مبلّغین یا محرکین سمجھے جاتے ہیں۔ تینوں سے میری بہت گہری دوستانہ قربت نہ سہی لیکن بہت اچھی دعا سلام ہے۔ میں تینوں کے بارے میں نہایت مثبت رائے رکھتا ہوں۔ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ تینوں قومی مسائل کا درد بھی رکھتے ہیں اور مسیحائی کا جذبہ بھی۔ ان کی نیک نیتی پر بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ لیکن کیا وہ پاکستان کے مرضِ کہن کی ٹھیک تشخیص کر رہے ہیں؟ کیا اُن کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے کہ پہلے سے موجود تمام سیاسی جماعتیں کُلّی طور پر ناکام رہی ہیں؟

کیا پاکستان کے موجودہ زوال وانحطاط کی ذمہ داری صرف سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے؟ اور کیا پون صدی پر محیط تمام المیے، سقوط ڈھاکہ کا سانحہ، مختلف شعبوں کی شکست و ریخت، اداروں کی ٹوٹ پھوٹ، آسیب کی طرح خیمے گاڑے بے یقینی، جڑیں تک ہلا ڈالنے والا عدمِ استحکام اور اِن عوارض کے بطن سے پھوٹنے والی معاشی غارت گری کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے کندھوں پر ہے؟ سب سے اہم سوال یہ کہ اس صورتِ حال میں انقلابی تبدیلی لانے اور پاکستان کو کمزوری و لاغری سے نکال کر توانا جوانِ رعنا بنانے کا واحد نسخہ کیا ایک نئی پارٹی کا قیام ہی ہے؟ وہ بھی ایسی جس کے ڈاکٹر، طبیب، وید، سنیاسی اور مسیحا برسوں کسی نہ کسی سیاسی شفا خانے میں عرق کشید کرتے، معجونیں اور کشتے بناتے اور پُڑیاں لپیٹتے رہے ہوں؟

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے اب تک وفاق میں تین سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے مجموعی طور پر پندرہ برس، مسلم لیگ (ن) نے سوا دس سال اور تحریک انصاف نے پونے چار برس حکومت کی۔ اِس دوران ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو (دو بار)، نوازشریف (تین بار)، جزوی طورپر شاہد خاقان عباسی، یوسف رضاگیلانی، راجہ پرویز اشرف اور عمران خان (ایک ایک بار) وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ ایک چوتھی ہمہ مقتدر جماعت نے کم و بیش اکّیس برس کمال جاہ و جلال کے ساتھ حکمرانی کی۔ (نگرانوں کو چھوڑ کر) 29 برس9 منتخب وزرائے اعظم کے حِصّے میں آئے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ آمروں کے عہد میں میاؤں کی آواز نکالنے سے عاجز بھیگی بلّیاں بن جانے والے ادارے، جمہوری حکمرانوں کا دور آتے ہی شیروں کا رُوپ دھار کر شاہراہِ دستور کے چار سُو دھاڑنے لگے۔

سپریم کورٹ کی پیشانی پر جھومر کی طرح آراستہ ترازو کے پلڑے کبھی متوازن نہ ہو پائے۔ مارگلہ سے آتی موسم شناس بلکہ موسم گَر ہواؤں کے ساتھ ساتھ مسلسل ہلکورے کھاتے رہے۔ آمروں کو خلعتِ جواز بخشنے اور اُنہیں وردی سمیت سیاسی اکھاڑوں میں کشتی لڑنے کی اجازت دینے والی عدالتوں نے سیاستدانوں کے بارے میں ایسے ایسے فیصلے صادر کیے کہ تصّور سے بھی جھُرجھری آ جاتی ہے۔ وہ قاتل قرار پا کر مصلُوب ہوئے، ہائی جیکر قرار پا کر طویل قید و بند کی سزائیں پائیں، بدعنوان قرار پا کر زندانوں کا رزق ہوئے، خائن قرار پا کر تاحیات سیاست بدر کر دئیے گئے، برسوں عدالتوں، کچہریوں میں رُلتے رہے، الزام و دُشنام کے تیروں سے چھلنی کیے جاتے رہے اور قتل ہوتے رہے۔

کیا تاریخ کا یہ منظر نامہ نئی پارٹی کے کہنہ مشق محرکین کی آنکھوں سے محو ہو چکا ہے؟ کیا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اطمینانِ قلب سے کہہ سکتے ہیں کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں واقعی ناکام رہیں؟ کیا وہ بقائمی ہوش و حواس یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ سیاستدانوں کو ہمیشہ اپنے منشور پر عمل درآمد، اپنے اہداف کی تکمیل، اپنے فلسفہئِ حکمرانی کی عملی تشکیل اور کسی خارجی رخنہ اندازی سے بے نیاز ہو کر پوری توجہ اور انہماک سے کام کرنے کے مواقع ملے اور وہ ناکام رہے؟ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سیاسی حکومتیں ہر طرح کی کجی، عیب، نقص یا نااہلی سے کُلّی طور پر پاک تھیں۔ بس وہ ایسے ہی تھیں جیسے بیسیوں دوسرے ممالک میں ہیں۔

ہماری سیاست پر دو جماعتوں کا غلبہ رہا۔ اگر اُن کی لغزشوں اور کمزوریوں کی فہرست بنائی جا سکتی ہے تو جمہوریت اور پاکستان کے لیے اُن کی جدوجہد، اُن کی قربانیوں اور عوامی فلاح و بہبود، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اُن کی مقدور بھر کارکردگی کی بیاض بھی مرتّب کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ سیاستدان اقتدار کے ایوانوں کی زینت رہے تو دار و رسن اور زندانوں کی رونق بھی اُنہی کے دم قدم سے رہی۔ اچھی یا بُری کارکردگی کی فہرست بناتے وقت ایک وسیع و عریض کالم اِس تفصیل کے لیے بھی رکھ لینا چاہیے کہ اُن کے عہدِ حکومت میں حکمرانی کی باگیں کس کے ہاتھ میں تھیں؟

قصور نہ دو روایتی جماعتوں کا ہے نہ دو جماعتی نظام کا۔ سیاست کے مفکرین، دو جماعتی نظام کو کسی بھی معاشرے کی بلوغت اور جمہوریت کی پختگی کی علامت قرار دیتے ہیں۔ امریکہ میں گذشتہ پونے دو سو برس سے دو جماعتیں ہی حکمران چلی آ رہی ہیں۔ ستّر فی صد عوام دو بڑی جماعتوں، ری پبلکن اور ڈیمو کریٹس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ کسی کے ساتھ وابستہ نہ ہونے والوں کی تعداد ساڑھے ستائیس فی صد ہے۔ صرف اڑھائی فی صد کے لگ بھگ تیسرے آپشن کے دلدادہ ہیں۔ برطانیہ میں کنزرویٹو اور لیبر پارٹیاں ایک سو سال سے باری باری حکومت کر رہی ہیں۔ گذشتہ بتیس انتخابات میں انیس بار کنزرویٹو اور تیرہ مرتبہ لیبرز نے حکومت بنائی۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ باریاں لے رہے ہیں۔ کہتا بھی ہے تو اس کا چراغ نہیں جلتا۔ برسوں سے تیسری سیاسی قوت پیرہن بدل بدل کر جتن کر رہی ہے لیکن بات بننے میں نہیں آ رہی۔

بھارت میں بھی عملاً دو جماعتی نظام ہی کارفرما ہے۔ بھارت کے الیکشن کمشن نے سیاسی جماعتوں کی درجہ بندی کا ایک اچھا نظام وضع کر رکھا ہے۔ یہ درجہ بندی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ایک خاص حد تک نشستیں یا ووٹ نہ لے سکنے والی جماعت درجہ بندی میں نیچے لڑھک جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اڑھائی ہزار سے زائد رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے صرف چھ کو قومی جماعتیں ہونے کا سرکاری اعزاز حاصل ہے۔ صرف چوّن جماعتیں، ریاستی جماعتوں کا تشخص رکھتی ہیں۔ باقی کو محض شامل باجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں دو سو کے لگ بھگ جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ سب کی حیثیت، سب کا درجہ ایک سا ہے۔ ان میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔

2018 کے انتخابات میں پچاسی جماعتیں میدان میں اتریں۔ تین جماعتوں، پی ٹی آئی (31.82 فی صد)، مسلم لیگ ن، (24.35 فی صد) اور پیپلزپارٹی (13.03 فی صد) نے مجموعی طور پر ستّر فی صد کے لگ بھگ (69.20 فی صد) ووٹ لیے۔ باقی کے 30 فی صد ووٹ 82 جماعتوں میں تقسیم ہو گئے۔ تینتیس جماعتیں ایسی تھیں جس میں سے ہر ایک کے ووٹ تین ہزار سے بھی کم رہے۔ پندرہ جماعتیں دَس ہزار تک نہ پہنچیں۔ بیس ایسی تھیں جن میں سے ہر ایک کو ایک لاکھ سے بھی کم ووٹ ملے۔ متحدہ مجلس عمل، جس میں جمعیت العلمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی بھی شامل تھیں، صرف 4.85 فی صد (پچیس لاکھ سے کچھ زائد) ووٹ حاصل کر پائی۔ اگر قومی جماعت کے لیے بھارتی الیکشن کمشن والا فارمولا یہاں بھی ہوتا تو بڑے بڑے نام، بے نام ہو جاتے اور بیسیوں نام نہاد جماعتیں معدوم ہو چکی ہوتیں۔

علّامہ اقبال نے مردِ مومن کے زوال کے بارے میں کہا تھا، "سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے۔ "علّامہ کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے ایک نئی جماعت کے محرکین سے کہا جا سکتا ہے کہ ملک و قوم کو درپیش موجودہ مسائل کا سبب وہ نہیں، جسے وہ جواز بنا رہے ہیں۔ نہ ہی اُن کی دانا و بینا قیادت کے پرچم تلے کوئی نئی جماعت ہمارے دامانِ پارہ پارہ کی بخیہ گری کر سکتی ہے۔ سبب کیا ہے؟ وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں۔ (جاری ہے)

Check Also

Masjid e Aqsa Aur Deewar e Girya

By Mubashir Ali Zaidi