Sunday, 16 March 2025
  1.  Home
  2. Bushra Ejaz
  3. Saneha Youhanabad

Saneha Youhanabad

سانحہ یوحنا آباد

عمران ٹیلر، روبینہ اور سیما تینوں کرسچین ہیں۔ میرے گھر میں برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ محنتی اور دیانتدار اتنے کہ ان پر گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہوں، واپسی میں گھر کے فرد کی طرح انہیں گھر کا خیال رکھتے ہوئے پاتی ہوں۔ ان سے پہلے مرحومہ اماں ایلس مسیح میرے پاس تقریباً بیس برس رہ کر گئی ہے۔ اماں ایلس اتنی ایماندار اور فرض شناس تھی کہ اس کی مثال مشکل سے ہی کہیں نظر آتی ہے۔ اماں ایلس کا شوہر بابا منا مسیح، فوج میں خاکروب کی نوکری کرکے ریٹائر ہوا تو اس کی پنشن لگ گئی۔ ایک دفعہ پنشن پورے چھ ماہ کے لئے رُکی رہی۔ بڑے چکر لگائے دفتروں کے اماں ایلس اور بابے منا مسیح نے، مگر کام نہ بنا۔ میں ان دنوں خبریں میں کالم لکھتی تھی۔ وہ زمانہ چونکہ الیکٹرانک میڈیا کا نہیں پرنٹ میڈیا کا تھا، میں نے "اماں ایلس کیا کرے" کے عنوان سے کالم لکھ ڈالا۔

اگلے ہی روز متعلقہ محکمے سے فون آنا شروع ہو گئے اور دو دن کے اندر نہ صرف بابا منا مسیح کی رُکی ہوئی پنشن بحال ہوگئی بلکہ بقایا بھی اکٹھی موصول ہوگئی جس پر اماں نے مجھے خوب بھینچ بھینچ کر پیار کیا اور اپنے مخصوص لہجے میں "وڈی وڈی عمر ہوئے میری دھی رانی کی" دعا بھی جھولیاں پھیلا پھیلا کر دی۔ بابا چند برس بعد انتقال کر گیا تو پھر پنشن اماں کے نام منتقل کرانے کا مرحلہ درپیش ہوا، یہاں بھی چار چھ ماہ اماں مختلف محکموں میں خوب رُل چکی تو مجھ سے رجوع کیا۔ میں نے کالم کو دوبارہ ہتھیار کی طرح استعمال کیا۔ "ایک پرانا پنشن کیس" کے عنوان سے کالم لکھ دیا۔ اس دفعہ بھی نتیجہ حسب توقع ہی نکلا اور چند ہی روز میں اماں کے نام بابے کی پنشن منتقل ہوگئی۔ اماں نے پھر دعائیں دیں اور پیار کیا۔

اماں ایلس چند برس ہوئے انتقال کر گئی۔ اس کا بیٹا یوسف اب بھی ملنے آتا رہتا ہے۔ یہ لوگ جن کا ذکر میں نے کالم کے شروع میں کیا ہے، میرے گھر کے اہم افراد میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ جب سے یوحنا آباد کا سانحہ ہوا ہے، غیر حاضر ہیں۔ سانحہ یوحنا آباد اس پرامن اور اپنے کام سے کام رکھنے والی اقلیت کے جس روپ کو پیش کر رہا ہے اس پر سبھی حیران ہیں۔ کئی طرح کے تبصرے پیش کئے جا رہے ہیں۔ مگر ایک بات پر سبھی متفق ہیں کہ کرسچین کمیونٹی نے پچھلے سٹرسٹھ سالوں میں پہلی دفعہ اس طرح کا ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ یہ پرتشدد احتجاج جو اس وقت پورے ملک میں پھیلا دکھائی دیتا ہے، اس لحاظ سے نہایت حیران کن ہے کہ جس واقعے نے اس احتجاج کو وجہ دی ہے، وہ اس ملک کا پچھلے دس گیارہ برسوں سے معمول بن چکا ہے۔

مسجدیں، امام بارگاہیں، سکول، اہم قومی مراکز، شاہراہیں، بازار، غرضیکہ کون سی جگہ ایسی بچی ہے جہاں بم دھماکہ یا خودکش دھماکہ نہ ہوا ہو۔ خود کرسچین کمیونٹی کے کئی چرچ ماضی میں اس کا شکار ہوئے ہیں مگر اس دفعہ بم دھماکے کے اگلے روز جو پرتشدد ہنگامے شہر میں شروع ہوئے اور انہوں نے پورا شہر میدانِ جنگ بنا دیا اسے دیکھ کر دو باتوں کا اندازہ ہوتا ہے، یا تو شرپسند پرامن لوگوں کے ٹولے میں گھس گئے ہیں اپنا ایجنڈا لے کر یا پھر ماضی میں کرسچین کمیونٹی سے ہونے والی زیادتیاں، جن میں گوجرہ، شاہدرہ اور حال ہی میں بھٹے میں زندہ جلائے جانے والے مسیحی جوڑے کا المیہ نمایاں طور پر شامل ہے، اس اشتعال کی وجہ بن گئے ہیں۔ جس نے اس کھولتے ہوئے ردِعمل کا اظہار کرکے سوسائٹی پر یہ ظاہر کر دیا ہے کہ کمزور کے ساتھ ناانصافی اسے ایک دن مظلوم سے ظالم بنا دیتی ہے اور جب وہ ظالم بن جاتا ہے تو پھر وہ اگلے پچھلے سارے حساب برابر کرنے پر تل جاتا ہے۔

ان پرتشدد واقعات کو شروع ہوئے آج تیسرا روز ہے۔ یہ کالم لکھنے کے دوران فیروزپور روڈ پر سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ، گاڑیوں کو نذرِآتش کرنا، شہر کے داخلی، خارجی راستوں کی ناکہ بندی اور یوحنا آباد میں پنجاب پولیس کی بے بسی کے بعد رینجرز کی تعیناتی ایسے عوامل ہیں جنہوں نے قانون و انصاف کے اداروں کو بھی سوالیہ نشان بنا دیا ہے اور اس معاشرے کو بھی۔ جس کا حال اس وقت پریشر ککر جیسا لگتا ہے جو ذرا سے واقعے کی ٹھوکر بھی نہیں سہہ سکتا اور پورے زور سے پھٹ جاتا ہے! لوگ اس قدر تیزی سے تشدد کی طرف مائل ہوتے ہیں اور عام مجمع اس طرح بلوائیوں کا روپ دھارتا ہے کہ تہذیب اور قانونِ سزا و جزا، منہ میں انگلیاں دابے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ انسان دیکھتے ہی دیکھتے اک وحشی درندے کا روپ دھار لیتا ہے، ایسا درندہ جسے آدم خوری کی عادت پڑ چکی ہے۔ سانحہ یوحنا آباد کے بعد مظاہرین جس طرح دو بے گناہ انسانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں بعداز تشدد زندہ جلا دیا اور لوگ انہیں بچانے کے جس مزے سے اس خوفناک واقعے کی ویڈیوز اور تصاویر بناتے رہے، وہ اس سارے سانحے کا ایسا خوفناک اور تاریک پہلو ہے جو اس سارے معاشرے کی سوچ اور مزاج کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایسے واقعات اس ملک میں اب تواتر سے ہونے لگے ہیں جنہیں لوگ فلم کی طرح دیکھتے ہیں، ان کی ویڈیو بناتے ہیں اور ہنستے مسکراتے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

تشدد پسندی اور انتہاپسندی سے حظ اٹھانے کا یہ رویہ، ہر رویے سے زیادہ خطرناک اور خوفناک ہے، جو ہمارے معاشرے کی پہچان بنتا جا رہا ہے۔ کرسچین کمیونٹی کا احتجاج، جس توڑ پھوڑ اور تشدد کی راہ ہموار کر رہا ہے، نہ وہ اس پرامن کمیونٹی کا مزاج رہا ہے اور نہ ہی وہ اس معاشرے کی اصل تصویر ہے، جو کبھی اتنا پرامن اور انسان دوست تھا، اتنا غیرت مند اور پروقار تھا کہ کسی کی ماں بیٹی کو کوئی سرِعام اوئے کہہ کر بھی پکارتا تھا تو لوگ اس کی زبان روک دیتے تھے۔ اب انسان سرِعام مارے جا رہے ہیں، بے گناہ بے قصور لوگ زندہ جلا دیئے جاتے ہیں اور میڈیا اپنے کیمروں کی آنکھ کے پیچھے کھڑا بے رحمی سے کوریج کر رہا ہوتا ہے، یہ نہیں کہ کیمرے پھینک کر ظلم کے گلے پڑ جائے۔ یعنی مرتے ہوئے لوگوں کی آخری آہیں اور وقتِ نزع ان کے کرب کو بیچا جا رہا ہے۔ صرف بیچا ہی نہیں جا رہا، معاشرے میں بے حسی، بے رحمی کو عام کیا جا رہا ہے۔ اس سانحے کے اس تکلیف دہ پہلو نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے، ایسے ہی جیسے کرسچین کمیونٹی کے پرتشدد احتجاج نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ پرتشدد احتجاج جس پر اس وقت تبصرے بیچے اور خریدے جا رہے ہیں، محض احتجاج نہیں مظلوم کا ردِعمل ہے، پسے ہوئے طبقے کا ظلم اور زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہو جانے کا عمل ہے۔

جس پر رسمی تبصروں اور رسمی بیانات کے بجائے اس کی تہ میں جا کر حقیقی وجوہات کا جائزہ لینا اب ازحد ضروری ہو چکا ہے۔ آئے روز ان کی بستیاں مسمارکرنا، انہیں توہینِ رسالتﷺ کے الزام میں زندہ جلانا اور انہیں اپنے شہری حقوق سے محروم رکھنا، وغیرہ، جیسے بے شمار عوامل ہیں جن کا ازسرِنو جائزہ لینا ہوگا۔ کہ یہ محنتی اور پرامن لوگ جو اس وقت بپھرے ہوئے مستقل بلوائیوں کے روپ میں سامنے آئے ہیں اور انہوں نے پورے ملک میں تشدد اور احتجاج کی نئی لہر دوڑا دی ہے، انہیں اس طرف دھکیلنے کے اسباب کیا ہیں؟ پچھلے سٹرسٹھ برسوں کی محرومیاں؟ مذہبی انتہا پسندی؟ ان پر روا رکھی جانے والی زیادتیاں؟ محض یوحنا آباد کی این جی اوز کو ذمہ دار ٹھہرا کر واقعے کے ظاہری پہلوؤں پر تبصرے، حقیقی پہلوؤں سے چشم پوشی کے مترادف ہیں۔

اگر آئندہ بھی ایسا ہی کیا گیا تو یہ اقلیت جو کبھی کسی پرتشدد احتجاج اور ہنگامے کا حصہ نہیں بنی، یہ بھی اسی راہ پر چل پڑے گی اور اس طرح ایک نئے فتنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا جو اس ساری شرپسندی کے پیچھے دکھائی دے رہا ہے۔ شاید شرپسندوں کا حقیقی مقصد بھی یہی ہے جو پرامن لوگوں میں گھس کر تخریب کاری کو احتجاج کا رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے پرامن لوگوں کی صفوں میں گھس آنے والے یہ تخریب کار کسی ملک دشمن ایجنسی کے لوگ ہوں؟ یا پھر ملک میں انارکی پھیلانے والے کسی ایسے انتہاپسند گروپ کا حصہ ہوں جو ملک میں مسلسل بدامنی چاہتا ہے۔ میری کرسچین کمیونٹی سے اپیل ہے، اپنے گلے میں کالی بھیڑیں تلاش کریں جو ان کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں کہ میں ہرگز نہیں مان سکتی، ہم جو کچھ پچھلے تین روز سے دیکھ رہے ہیں وہ عمران، سیما، روبینہ اور اماں ایلس کی کمیونٹی کے لوگ خود کر رہے ہیں۔

Check Also

Pehla Ghair Mulki

By Ashfaq Inayat Kahlon