بروٹس تم بھی؟
بھاگنے نہیں دیں گے۔۔ یہ مکافاتِ عمل ہے۔۔ گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔۔ آمر چوہے دان میں پھنس گیا۔۔ وغیرہم! قارئین یہ تبصرے سابقہ صدر پرویز مشرف غداری کیس کی فائل کھلنے کے نہیں بلکہ اس زمانے کے ہیں جب پرویز مشرف کے زیرنگرانی کرائے گئے انتخابات کے نتیجے میں پی پی برسرِاقتدار آئی اور اس نے متذکرہ بالا تبصروں اور عوامی جذبات کا خیال کئے بغیر آمر کو سیف پیسج یعنی محفوظ راستے کے ذریعے ایجو رروڈ کی محفوظ و مامون رہائش گاہ تک پہنچا دیا مگر جس کے بعد بے پناہ طاقت، ذہانت و فطانت کے دعویدار سابقہ صدر کو چین نہ آیا اور وہ خود اپنی مرضی اور رضا سے چل کر یہاں آیا اور موجودہ دشوار و سنگین صورت حال میں یوں پھنس گیا جیسے مکڑی جالے میں پھنس جاتی ہے۔! آج جب دبئی میں قیام پذیر پرویز مشرف کی ضعیف والدہ کا ذکر رقت آمیز انداز میں کیا جاتا ہے۔
علالت اور پاکستان میں کھلنے والی غداری کیس کی فائل کے عذاب میں گرفتار ماضی کے طاقتور ترین شخص کی بے بسی کی تصویر کشی کی جاتی ہے تو ان ہزاروں جوانوں کی ماؤں کے تڑپتے کلیجوں کا خیال آتا ہے جن کے بچے وانا اور وزیرستان میں شہید ہو گئے، جو ڈرون حملوں میں بے گناہ مارے گئے، جو خودکش دھماکوں کا ایندھن ہو گئے۔! طالبان نام کا جن جسے آج مذاکرات کے ذریعے بوتل میں بند کرنے کی سعیِ لاحاصل حکومت کر رہی ہے، اس جن کو طاقت فراہم کرنے اور ماؤں کے کلیجے چبانے کا حکم صادر فرمانے والے کو بے بس و مجبور دیکھ کر خیال آتا ہے پانی کے بدبودار قطرے اور جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے قائم ہونے والے انسان کی بے بصاعتی اور بے ثباتی کا، طاقت جس کے لئے امتحان بھی ہے اور آزمائش بھی، اگر کوئی سمجھے تو؟
ذرا پیچھے کی طرف نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے طاقت اور اقتدار وردی پوش کے لئے دنیا کی سب سے بڑی حقیقت تھا جبکہ جاننے والے اسے آزمائش اور نگاہ کا دھوکہ سمجھتے ہیں، ایسا فریب جس میں پھنس کر اک دنیادار اپنی حقیقت فراموش کر بیٹھتا ہے! اگر قوم کا حافظہ زیادہ کمزور نہیں ہوا تو اسے بات بات پر آہنی مکے لہرانے والے کارنامے یاد ہوں گے! نئی سیاسی جماعت کی تشکیل، بیوروکریسی کے پرانے نظام کا تیاپانچہ، امریکی صدر کی ایک کال پر وار آن ٹیرر کا آغاز، صوفی کونسل کا قیام (جس کے نمایاں صوفی چودھری شجاعت حسین، میاں یوسف صلاح الدین اور مشاہد حسین تھے)، این آر او کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی، دھماکے اور بعدازاں قتل جیسے کارناموں کی فہرست۔۔ قارئین بہت طویل ہے جس کو دہرانا اس مختصر وقت میں ممکن نہیں، البتہ بارہ مئی! کہ اس کے ذکرکے بغیر بات آگے نہیں بڑھتی!
بارہ مئی کہ جب اسلام آباد میں مشرف شو ہو رہا تھا اور اس کی دھوم ہرسو مچی تھی، کرائے کے تماش بین چلو چلو اسلام آباد چلو کے نعرے لگا رہے تھے اور موٹروے پر شو کے باراتیوں کا راج تھا اور ڈھول تاشوں اور بھنگڑوں کی تھاپ پر ڈکٹیٹر شیشے کی بلٹ پروف دیوار کے پیچھے دھاڑ رہا تھا۔۔ "میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں"۔ مکے لہرانے والے کا لہجہ دنیا کے سابق اور حالیہ فرعونوں کی "آخری چیخ" سے مشابہ تھا اور شہر قائدؒ کہ اس میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، چن چن کر معصوموں اور بے گناہوں کو مقتول بنانے کا خوفناک کھیل جاری تھا جبکہ اسلام آباد میں "غازیو، مجاہدو۔۔ جاگ اٹھا ہے سارا وطن" کے ترانے اس پنڈال میں گونج رہے تھے جہاں طاقت سازی کا دعویٰ کرنے والا اپنے تئیں پاکستان کی نئی تاریخ لکھ رہا تھا (واقعی وہ اک نئی ہی تاریخ تھی) اپنے لوگوں پر اپنی طاقت کا سکہ جمانے کے لئے دھاڑ رہا تھا، خود کو ناقابلِ شکست قرار دے رہا تھا اور اس بدقسمت ملک کی خود کو خوش قسمتی قرار دیتے ہوئے خود کو ملک و قوم کا واحد نجات دہندہ بھی قرار دے رہا تھا!
مجھے یاد ہے جب میں بارہ مئی پر لکھنے کے لئے بیٹھی تو اس کالم کا آغاز یہ تھا "بارہ مئی کی ایف آئی آر۔۔ جو درج نہ ہو سکی"!
مگر آج پرویز مشرف کی کہانی جس مقام پر پہنچ چکی ہے اور جس قدر تیزی سے اس کے گرد قانون کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور جس عوامی تضحیک، تمسخر اور نفرت کا اسے سامنا ہے، اسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے بارہ مئی کی ایف آر کراچی کے تھانوں میں تو کسی وجہ سے نہ درج ہو سکی مگر اس عدالت میں ضرور درج ہوگئی جس پر کسی لسانی شدت پسند، بے رحم مافیا کا قبضہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جہاں سارے فیصلے، اپنے مقرر و معین وقت پر کر دیئے جاتے ہیں کہ وہاں جو منصف بیٹھتا ہے اس کا فرمان ہے "ہم مجرموں کی رسی پہلے دراز کرتے ہیں اس کے بعد کھینچ لیا کرتے ہیں"۔
مگر یہاں یہ نکتہ بھی ہمیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ پرویز مشرف اس ملک و قوم کا واحد مجرم نہیں، واحد طاقتور نہیں، واحد ڈکٹیٹر نہیں۔۔ اس ملک کی تاریخ ماضی کے آمروں اور انہیں محفوظ راستہ دینے اور ان کی بے محابا طاقتوں کے بازو دراز کرنے والوں سے اٹی پڑی ہے۔۔ جن کی صفیں ایازوں کو پیچھے دھکیلنے اور محمودوں کے لئے راستے کشادہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔۔ پرویز مشرف کو عبرت کا نمونہ بنانے اور اسے تنہا سارے گناہوں کا ذمہ دار قرار دے کر اپنے اپنے اعمال نامے محفوظ کرنے والوں کو ہو سکتا ہے ہمارا عدالتی نظام اور حکومت کا متعصب اور کمزور رویہ ان گناہوں سے بری کر دے جو پرویز مشرف کی ٹیم کے ممبران کی حیثیتوں میں انہوں نے کئے، مگر وہ عدالت جہاں آخری انصاف، آخری فیصلے لکھے جاتے ہیں وہاں یقیناً معیار وائٹ کالر نہیں، شفاف اعمال اور نیتیں ہیں۔
وہ طاقت جس سے آمر اور ان کے حواری پسندیدہ کھلونے کی طرح کھیلتے ہیں ان کے لئے کتنا بڑا عذاب ہے۔۔ شاید وہ جانتے تو ہوں گے مگر ماننے کی فرصت نہیں پاتے، یہی وجہ ہے خود کو احتسابوں سے مبرا مان کر، اپنے قدموں سے چل کر اس سزا میں داخل ہو جاتے ہیں جو اس وقت پرویز مشرف پر وارد ہو چکی ہے۔! انٹرنیٹ پر آل پاکستان مسلم لیگ کھیل کر سیاست کا بے تاج بادشاہ بننے کی ترغیب اتنی زورآور تھی کہ پرویز مشرف اک خواب کی طرح اس میں داخل ہوگیا مگر اس کی تعبیر؟
کوئی لاپتہ افراد کا نوحہ پڑھ رہا ہے۔۔ کوئی نواب بگٹی کا۔۔ کسی کے ہاتھ میں عافیہ صدیقی کے آنسوؤں کی کتاب ہے، کوئی ڈرون حملوں میں بھوسہ بن جانے والوں کے دکھوں کو آواز کر رہا ہے اور کوئی ان 50 ہزار شہداء کا دکھ رو رہا ہے جو وار آن ٹیرر کا نشانہ بن گئے۔۔ کسی کو این آر او یاد آ رہا ہے اور کوئی تین نومبر کی ایمرجنسی، آئین سے مذاق اور عدالتِ عظمیٰ کی تضحیک کی فائل کھولے پاکستان کا مقدمہ پیش کر رہا ہے، مگر ان تمام جرائم کے علاوہ ایک ناقابلِ معافی جرم لال مسجد کا سانحہ بھی ہے، جس کے بعد، ملک میں کبھی نہ امن دکھائی دیا نہ سکون۔! اب ان تمام جرائم کا تنہا ذمہ دار پرویز مشرف تھا یا اس کا شریکِ کار بھی؟ یہ اک ایسا سوال ہے جو بحث مباحثوں میں بار بار دہرایا جا رہا ہے۔۔
پرویز مشرف کا انجام پاکستانی عدالتوں اور حکومتی کورٹ میں کیا لکھا جائے گا یہ تو آنے والے وقت ہی بتائے گا۔۔ مگر پرویز مشرف کی تنہائی اور اس کے سابقہ حواریوں، دوستوں اور سیاسی، نیم سیاسی ساتھیوں کی اس کے وجود، اعمال اور جرائم سے لاتعلقی یہ ضرور ظاہر کرتی ہے کہ یہ جہاں عبرت کدہۂ دہرہے، جس میں اک وقت ایسا آتا ہے جب اپنا سایہ بھی انسان کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے، پلٹ کر دیکھنے پر فقط ماضی اک واہمے کی طرح دکھائی دیتا ہے اور طاقت اک ایسا دھوکہ جو ایمان کو ضعیف اور انسان کو بے مہار کرکے اسے اک مخصوص دائرے میں مقرر و معین مدت تک پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بھگاتی رہتی ہے اور جب وہ بے دم ہو کر گر پڑتا ہے۔۔ تو اس پر ایسا ہی ضعف طاری ہو جاتا ہے۔۔ جو بار بار سی ایم ایچ کے ایمرجنسی میں داخل ہونے والے پرویز مشرف پر طاری ہے۔۔
قدرت کسی ایک طاقتور کو عبرت کا نمونہ بنا کر دوسروں کو اسی طرح سبق سکھایا کرتی ہے۔۔ مگر پرویز مشرف کی کہانی سے بجائے سبق سیکھنے کے خود کو پاکباز اور اسے گناہگار ثابت کرنے والوں کو دیکھ کر لگتا ہے۔۔ سبق حاصل کرنا جس خوش قسمتی کا نام ہے وہ ابھی اس معاشرے سے دور ہے۔۔ یہی وجہ ہر کوئی پاکبازوں کے ٹولے میں کھڑا فردِ واحد پر پتھر پھینک رہا ہے۔۔ جو شاید ان سے یہ کہنے کے بھی اب قابل نہیں رہا۔۔ بروٹس تم بھی؟