Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Well Done, Islamabad Wildlife

Well Done, Islamabad Wildlife

ویل ڈن ، اسلام آباد وائلڈ لائف

رمضان کے آخری عشرے، بالخصوص طاق راتوں سے اگلے دن مارگلہ میں بے زبان جانوروں کا شکار ہوتا ہے۔ اس سال بھی ایسا ہی ہوا۔ لیکن اس سال اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ مستعد تھا، چنانچہ اس دفعہ جانور نہیں، شکاری خود شکار ہو گئے۔

مارگلہ کا جنگل میلوں پھیلا ہے۔ اس میں سفر آسان نہیں۔ وائلڈ لائف کا عملہ بہت مختصر ہے۔ اس عملے کے ساتھ دفتری مور ہی نبٹا لیے جائیں تو بڑی بات ہے لیکن یہ پورے جنگل کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ عملہ اتنا مستعد ہے کہ دیکھ کر پیار آتا ہے۔

یہ ان گھاٹیوں اور پگڈنڈیوں میں ملازمت نہیں کر رہے، یہ جنگل سے ان کا عشق ہے جو انہیں لیے پھرتا ہے۔ تلہاڑ اور دیگر آبادیوں کے شکاریوں کو معلوم ہے کہ وائلڈ لائف کا عملہ بہت کم ہے۔ رمضان المبارک میں روزے کے ساتھ ویسے ہی پٹرولنگ مشکل ہوتی ہے تو شکاری اس موقع کی تاک میں ہوتے ہیں۔

آخری عشرے میں جب کچھ سٹاف عید کی چھٹیوں پرچلا جاتا ہے، تو شکاری جنگل میں اتر آتے ہیں۔ یہ تاریکی میں آتے ہیں اور تاریکی میں ہی لوٹ جاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے یہ صبح سے پہلے آئیں، شکار کریں اور سارا دن دبکے رہیں یہاں تک کہ رات اترے اور یہ تاریکی میں فرار ہو جائیں۔ طاق رات کا یہ اس لیے انتخاب کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں گناہ گار سے گناہ گار مسلمان بھی اس رات معمول سے زیادہ عبادت کرتا ہے اور سٹاف کے اگلے دن سویرے سویرے پٹرولنگ کے لیے نکلنے کا امکان ذرا کم ہوتا ہے۔

مقامی بستیوں کے جو لوگ دوسرے شہروں میں ملازمت کرتے ہیں وہ جب عید پر لوٹتے ہیں تو ان میں سے بعض کی سب کی بڑی تفریح مارگلہ میں جانوروں کا شکار ہے۔ ان میں سے اگر کوئی پولیس، کسٹمز یا اس طرح کے محکمے کا ملازم ہو جائے تو وہ سمجھتا ہے قانون پامال کرنا اس کا بنیادی حق ہے۔ چنانچہ یہ بندوق اٹھاتے ہیں اور پہاڑ سے نیچے وادی میں اتر آتے ہیں۔

شکار کی جگہیں مخصوص ہیں۔ گرمی پڑتی ہے تو جانور صبح سے پہلے ان جگہوں سے پانی پینے آتا ہے جہاں چشمہ ہو یا ندی میں پانی رکا ہوا ہے۔ برسات آنے کے بعد تو جگہ جگہ چشمے ندیاں رواں ہو جاتی ہیں لیکن برسات سے پہلے اور بہار کے بعد اپریل مئی جون میں، جانور کو پیاس پانی کے ان ذخائر تک لے آتی ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ انہی ایام میں مارگلہ کے جنگل میں آگ لگتی ہے۔ وائلڈ لائف کا مختصر سا سٹاف بے سرو سامانی کے عالم میں آگ بجھانے جاتا ہے اور پیچھے سے شکاری شکار کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ درہ کوانی کی جن گھاٹیوں میں جانور زیادہ تعداد میں ہیں، آگ وہاں نہیں لگائی جاتی۔ آگ دوسری اطراف میں لگتی ہے تا کہ وائلڈ لائف کا عملہ "شکار گاہ" سے بہت دور آگ بجھاتا رہے اور شکاری آرام سے اپنا کام کر لیں۔

جرم مگر اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ پھر کچھ عرصے سے وائلڈ لائف بورڈ بہت متحرک ہے۔ رینا سعید خان سے آپ سو اختلاف کریں لیکن اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جنگل کو انہوں نے یوں دیکھا ہے جیسے کوئی اپنے گھر کو دیکھتاہے۔ وائلڈ لائف کا عملہ بھی قابل تحسین ہے۔

سٹاف کم سہی، ان کے پاس ٹرینکولائزر گن تک نہیں، کسی حادثے کی صورت میں ان کے پاس کوئی بندوق تک نہیں ہوتی لیکن پٹرولنگ وہ روزانہ کرتے ہیں۔ ان کی قوت مشاہدہ اتنی تیز ہے کہ ان کے ساتھ گھومتے پھرتے آپ حیران رہ جاتے ہیں۔

چلتے چلتے رک کر وہ آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ نشان دیکھیے، یہ تیندوے نے علاقہ مارک کیا ہے، یہ دیکھیے یہ اس کے پنجے کا نشان ہے، یہ غورال کے بال بکھرے ہیں، یہ ہرنوں کے قدموں کے نشان ہیں، حتی کہ وہ بھی بتا دیتے ہیں کہ یہاں سے کچھ لوگ گزرے ہیں، شاخیں ٹوٹی پڑی ہیں اور جانور گزرے تو شاخ اس طرح نہیں ٹوٹتی، وغیرہ وغیرہ۔

رمضان کے آخری ایام میں وائلڈ لائف رینجرز کو کچھ کٹی ہوئی شاخیں ملیں۔ انہیں یہ جاننے میں ذرا دیر نہ لگی کہ یہ شاخیں شکاریوں نے کاٹی ہیں اور ان سے وہ آبی ذخیرے کے پاس خود کو کیمو فلاج کرنے کا کام لے رہے ہیں تا کہ آسانی سے جانور کو شکار کیا جاسکے۔

وئلڈ لائف رینجرز نے یہ بات اپنے افسران تک پہنچائی۔ چنانچہ سادہ کپڑوں میں ایک ٹیم تیار کی گئی کہ جنگل میں ان شکاریوں کی تلاش کرے، ان کو لوکیٹ کر کے اطلاع دے اور انہیں گرفتار کیا جائے۔ یہ آسان کام نہیں تھا۔ شکاری خود چھپ کر بیٹھا ہوتا ہے اور پورے جنگل کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں اس شکاری کو ڈھونڈ نکالناکہ وہ کہاں چھپا بیٹھا ہے، یہ غیر معمولی مہارت کا کام ہے۔

جنگل میں ندی کے اُس پار موبائل فون کے سگنل بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ یعنی اب اس ٹیم نے نہ صرف گھات لگائے شکاریوں کو تلاش کرنا تھا بلکہ پھر واپس آ کر اطلاع بھی دینا تھا اور پھر ٹیم کو ساتھ لے جا کر انہیں گرفتار کرنا تھا۔ یہ ایک ناقابل یقین مہم تھی۔ مجھے اس جنگل کی آوارہ گردی کرتے بیس سال ہونے کو آئے ہیں اور میری رائے میں یہ ممکن ہی نہیں تھا۔

لیکن اسلام آبادوائلڈ لائف بورڈ ٹیم نے یہ کر دکھایا۔ اس ٹیم نے صبح کے اندھیرے میں شکاریوں کو تلاش کیا، وہ جہاں گھات لگائے بیٹھے تھے وہ جگہ بھی دیکھ لی، پھر دبے پائوں جنگل سے باہر آ کر اطلاع بھی دے دی۔ فوری طور پر ایک ٹیم بنائی گئی، پولیس کو بلایا گیا۔ اب یہ لوگ جنگل میں داخل ہوئے کہ شکاریوں کو گرفتار کر لیں۔

دبے پائوں چلتے ہوئے وائلڈ لائف کی ٹیم شکاریوں کے سر پر پہنچ گئی۔ شکاری بھاگ نکلے۔ اگر چہ وہ مقامی شکاری تھی اور ان پہاڑوں میں بھاگنے پھرنے کا تجربہ رکھتے تھے لیکن وائلڈ لائف رینجرز سے بھاگ نکلنا آسان نہیں ہے، عادل صاحب نے اسے جا لیا۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے اس نے عادل پر بندوق تان لی لیکن عادل نے اسے گولی چلانے کی مہلت نہیں دی اور اس پر جھپٹ کر بندو ق کی نالی کا رخ اوپر کر تے ہوئے اسے دبوچ لیا۔

شکاری اب پولیس کی حراست میں ہے اور سنا ہے اس کو چھڑانے کے لیے شہر کے جرائم پیشہ افراد، جنہیں معززین شہر کہا جاتا ہے، متحرک ہو چکے ہیں۔ اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اگر گولی چل جاتی تو کیا ہوتا؟ یہیں انہی پہاڑوں میں وائلڈ لائف کے سفیر حسین کو شکاریوں نے گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔

کسی افسر کسی وزیر کو اب یاد بھی نہ ہو گا کہ کوئی سفیر حسین بھی تھا اور اس کے اہل خانہ کس حال میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وائلڈ لائف کے نہتے اہلکار کب تک بے سروسامانی میں جان پر کھیلتے رہیں گے۔ وہ بول کر نہ کہیں، زبان ِ حال سے تو کہہ ہی رہے ہیں کہ:

ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں

اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟

Check Also

Sifar Se Aik Tak

By Hafiz Safwan