روہی ( چولستان) کیوں رو رہا ہے؟
اگر اسرائیل اپنے مقبوضہ صحرائے نقب کو گل و گلزار بنا سکتا ہے تو پاکستان اپنے روہی کی پیاس کیوں نہیں بجھاسکتا؟ سیاسی فضولیات سے وقت ملے تو یہ محض ایک سوال نہیں، یہ فرد جرم بھی ہے۔
روہی کے ریگزار میں پیاس اتری پڑی ہے۔ صحرا کی وسعتوں میں دو بوند پانی کو ترستی بھیڑوں کے لاشے بکھرے ہیں، لوگ پانی کے ایک ایک قطرے کو ترس رہے ہیں، پورا وسیب دہائی دے رہا ہے لیکن یہ آہیں اور یہ تکلیف ہمارے قومی بیانیے میں کہیں جگہ نہیں پا سکیں۔ میڈیا سے سوشل میڈیا تک سیاست کا آسیب اترا پڑا ہے۔ لہجوں کووحشت اور شعور کو نیم خواندگی نے چاٹ لیا ہے۔
ہر سال گرم موسم آتا ہے تو چولستان کی ریت پر المیے تڑپنے لگتے ہیں۔ یہ کوئی آج کا قصہ نہیں، یہ ہر موسم کا نوحہ ہے۔ پہلے تو یہ کہہ کر دھوکہ دیا جا سکتا تھا کہ صحرا ہے اور صحرا میں گرمیوں کے مسائل ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن اب جو کچھ اسرائیل نے صحرائے نقب کے ساتھ کیا ہے، اس کے بعد ہمارے پاس روہی کی اس تباہی کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ اسرائیل کے پاس تو پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تھری لیکویڈ شارٹیج، والی بات کسی کو یاد ہو تواس میں سے ایک پانی ہی تھا۔
اسرائیل کے پاس قابل کاشت زمین صرف 20 فیصد تھی۔ اسرائیل کے کل رقبے کا دو تہائی تو صرف ایک صحرا یعنی صحرائے نقب پر مشتمل ہے اور اسرائیل میں یہ واحد صحرا نہیں ہے۔ یہودی سازشوں، کی تو ہمیں خوب خبر ہوتی ہے لیکن کیا ہم یہ بھی جاننا چاہیں گے اسرائیل نے اس صحرا کے ساتھ کیا کیا؟
اس نے صحرا میں ڈرپ اری گیشن سسٹم متعارف کرایا۔ یہ دنیا کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ لیکن اسرائیل اب اس سے بھی آگے جا چکا ہے اور اب وہ " آئی ڈراپ اری گیشن" سسٹم پر کام کر رہا ہے۔ اس کے ذریعے کسی بھی پودے اور درخت کی جڑ کو صرف اتنے قطرے پانی پہنچایا جاتا ہے جتنی اس کو ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے آپ آنکھ میں قطرے ڈالتے ہیں، ویسے ہی وہ پودوں کی جڑ میں قطرے ڈالتے ہیں۔ اور یہ سارا کام کمپیوٹر سے منسلک ہے۔ وہ خود ہی فیصلہ کرتا ہے کس پودے کو کتنے قطروں کی ضرورت ہے۔ ایک اسرائیلی کسان کا انٹرویو پڑھ رہا ہوں اس کا کہنا ہے کہ یہ سب بہت آسان ہے، میں اپنے گھرکے کمرے میں بیٹھ کر کمپیوٹر کے ذریعے اپنا کھیت سیراب کر لیتا ہوں۔
اس صحرائے نقب میں اسرائیل نے سبزیاں اگائیں اور پھل بھی۔ آلو ٹماٹر سے لے کر زیتون اور آم تک اگائے۔ اسرائیل اپنے اس صحرا سے کینو بھی حاصل کر رہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ نقب نام کا یہ صحرا یورپ بھر کو سبزیاں اور پھل بیچ رہا ہے۔ اس صحرا کو یورپ کی ویجیٹیبل باسکٹ، کہا جاتا ہے۔
اسرائیل کے پاس پانی بہت کم ہے۔ جو ہے اس کا زیادہ تر حصہ کھارا ہے۔ اسرائیل کی ہبریو یونیورسٹی نے کسانوں کے ساتھ مل کر تجربات کیے۔ ٹارگٹ دو تھے۔ پہلا یہ کہ کھارے پانی کو ٹریٹ کر کے زرعی استعمال میں لانے کی بجائے کچھ ایسا کیا جائے کہ زراعت کو ہی کھارے پانی سے ہم آہنگ کر دیا جائے۔ جب یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو دوسرا ٹارگٹ یہ رکھا گیا کہ کچھ ایسا کیا جائے کہ یہ کھارا پانی سبزی اور پھل کے ذائقے کو بھی بڑھا دے۔ دونوں تجربات کامیاب ہوئے اور آج اسرائیلی کسان یورپ کی منڈی میں فخر سے کہتا ہے کہ میری زرعی پیداوار میں زیادہ ذائقہ میرے کھارے پانی کی وجہ سے ہے۔
ہماری کسی یونیورسٹی میں ڈھنگ کی کوئی تحقیق ہوئی ہو تو بتا دیجیے؟ ہماری زرعی یونیورسٹیوں نے ایم بی اے اور ایل ایل بی اور حتی کہ صحافت پڑھانا شروع کر دی اور ہماری جامعات رنگ برنگے انقلابیوں کا اکھاڑابن گئیں۔ اس وقت بھی جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، دارالحکومت کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں تالہ بندی ہے۔
آپ بازار میں کاٹن کا سوٹ خریدنے جائیں، دکاندار فخرسے بتائے گا یہ ایجپشیئن کاٹن، ہے اور چار گنا مہنگی ہے۔ ادھر عالم یہ ہے کہ اسرائیل نے صحرائے نقب سے ایسی نفیس کاٹن پیدا کی ہے کہ ایجپشئین کاٹن، کا سحر توڑ دیا ہے۔ مصر ہی نہیں، اسرائیل کی صحرائی کاٹن نے کیلیفورنیا اور ایری زونا کی مارکیٹ کو بھی ادھیڑ دیا ہے۔
صحرا سے حاصل کردہ پیداوار کی کہانی بھی سن لیجیے۔ صحرا کے ایک ایکڑ سے 80 ٹن پیداوا ر حاصل کی جا رہی ہے۔ آپ ذرا اپنا حساب کتاب کر لیجیے کہ ایک ایکڑ سے پاکستان کے زرخیز ترین علاقوں میں کتنی سبزی اور کتنی فصل اٹھائی جا سکتی ہے، جہاں زمین بھی بارانی اور صحرائی نہیں ہے اور پانی بھی اسرائیل سے کئی گنا زیادہ۔
اسرائیل نے صحرا میں آڑو لگائے اور ایسا کامیاب تجربہ کیا کہ ایک ایکڑ میں چار ہزار درخت لگا رہا ہے۔ ذرا جائیے اور سرگودھا جیسی زرعی زمین میں جا کر دیکھیے ایک ایکڑ میں کینو کے کتنے پودے ہوتے ہیں یا پوٹھوہار میں آڑو کے کتنے پودے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس صحرائی آڑوکے ایک درخت پر اتنا اپھل آ تا ہے جتنا کسی بھی بہترین زرعی زمین میں آڑو کے 160 عام درختوں پر آتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فلاں حکمران صاحب روس سے سستی گندم خرید رہے تھے۔ ادھر اسرائیل ہے جس نے فی ایکڑ عالمی اوسط سے35 فی صد زیادہ گندم اپنے صحرا میں پیدا کر دکھائی ہے۔ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور گندم اور چینی تک باہر سے خریدتے ہیں اور اسرائیل جس کا 60 فیصد سے زیادہ صحرا پر مشتمل ہے اپنی زراعت کی پیداوار کا 50 فیصد بیرون ملک فروخت کر رہا ہے۔
ہمارے لوگ چولستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، ان کے مویشی مر رہے ہیں اور اسرائیل نے ساڑے چار لاکھ یہودی صحرائے نقب میں آباد کیے ہیں اور ان کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔
اسرائیل میں 355 دن سورج ہوتا ہے۔ جب کہ پاکستان میں مون سون آتا ہے تو سیلاب آ جاتا ہے لیکن اس کے باوجودہم پانی ذخیرہ نہیں کر پاتے۔ بھارت سندھ طاس معاہدہ پامال کر دے تو ہم کشن گنگا کیس پراسرار طریقے سے ہار جاتے ہیں۔ افغانستان کے لیے ہم اپنا معاشرہ برباد کروا لیتے ہیں لیکن جب بھارت وادی پشاور اور وادی نوشہرہ کو بنجر کرنے کے لیے افغانستان میں دریائے کابل پر ڈیم کو فنڈ کرتا ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے ہم نے تو آج تک افغانستان سے پانی کی تقسیم کا کوئی معاہدہ ہی نہیں کیا۔ (ایسی کوئی کوشش اب بھی نہیں کی جا رہی)۔
سوال وہی ہے کہ روہی کیوں رو رہا ہے؟ یہ نہ محض موسموں کی حدت ہے نہ پانی کی کم یابی، یہ نہ صحرا کی تقدیر ہے نہ روہی کا نصیب۔ یہ ہمارے حکمرانوں، ہمارے اہل دانش اور ہمارے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کا فکری افلاس، نا اہلی، جہالت اور مجرمانہ غفلت ہے کہ ہم نے قوم کی تعمیر کا کبھی سوچا ہی نہیں۔ سنجیدہ موضوعات یہاں کبھی زیر بحث ہی نہیں آئے۔ ہم صر ف سیاست کے طفیلیے بن کر رہ گئے ہیں۔ تعمیر کا ٹھہرائو ہمیں راس ہی نہیں آتا، ہم ہیجان اور افراتفری کے اسیر ہیں۔ ہے کوئی ہم سا؟