Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Kya Siyasi Cult Se Nijat Mumkin Hai?

Kya Siyasi Cult Se Nijat Mumkin Hai?

کیا ’سیاسی کلٹ‘ سے نجات ممکن ہے؟

جب کوئی کلٹ، Cult کسی معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو کیا اس سے نجات کی کوئی صورت ہو سکتی ہے یا یہ نظام فطرت ہے کہ معاشرے اور اس کی دو تین نسلوں کو اب یہ کلٹ بھگتنا پڑنا ہے اور طوفان کے گزر جانے کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ اب کیا کچھ باقی گیا ہے اور اس ملبے سے کوئی بنیاد کیسے اٹھائی جا سکتی ہے؟

مذہبی کلٹ ہمارے ہاں حالات کے جبر کے تحت زیر بحث آیا لیکن سیاسی کلٹ پر یہاں کوئی کام نہیں ہوا۔ سیاسی کلٹ کیا ہوتا ہے اور ہنستے بستے معاشروں کو یہ کیسے لاحق ہو جاتا ہے اور لاحق ہو جائے تو اس سے نجات یا کم از کم ڈیمیج کنٹرول کا کوئی امکان موجود ہے یا نہیں اور ہے تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمارے سماج میں تاحال اجنبی ہیں۔ ابلاغ کے منصب جن کے ہاتھ میں ہیں انہیں سنجیدہ موضوعات سے کوئی رغبت ہی نہیں۔

کلٹ کے موضوع پر امریکی سکالر ڈاکٹر سٹیون ایلن نے بہت کام کیا ہے۔ دماغی ا ور نفسیاتی صحت، مائنڈ کنٹرول، کلٹ جیسے موضوعات پر نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا میں انہیں ایک اتھارٹی کی حیثیت حاصل ہے۔ 2019میں ان کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام تھا:The Cult of Trump۔ کتاب کے سرورق پر ایک فقرہ لکھا ہے کہ" کلٹ کے بڑے ماہر واضح کر رہے ہیں کہ صدر (ٹرمپ)نے مائنڈ کنٹرول کو کیسے استعمال کیا"۔ گویا مصنف کے نزدیک کلٹ کا یہ سارا کھیل"مائند کنٹرول، کے ذریعے کھیلا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں بھی ایک سابق وزیر اعظم کا یہ دعوی ہے کہ " میں مائنڈ گیم کا ماہر ہوں "۔

اس کتاب کے سامنے آنے کے بعد مصنف کے ساتھ بعض لوگوں نے انٹرویوز کیے۔ ان انٹرویوز کو آپ گویا اس کتاب کی شرح قرار دے سکتے ہیں۔ سین النگ کا ایک انٹرویو، اس میں پوچھے گئے چند سوالات اور ان کے جوابات ہمیں معاملہ فہمی میں مدد دے سکتے ہیں۔

ایک سوال یہ تھا کہ آپ کلٹ، سے کیا مراد لیتے ہیں؟ سٹیون ایلن نے جواب دیا کہ کلٹ، کی بہت سی شکلیں ہو سکتی ہی لیکن آسان زبان میں اسے یوں سمجھ لیجیے کہ یہ ایک ایسا " آمرانہ اہرام" ہے، جس کے اوپر ایک فرد بیٹھا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ساری طاقت اسی شخص کے پاس ہے بلکہ اس کا یہ دعوی بھی ہے کہ ساری عقل بھی صرف اسی کے پاس ہے۔ اسی دھوکے کی بنیاد پر لوگوں کو اپنا ہمنوا بنایا جاتا ہے۔ اس سارے جھوٹ کے طلسم کوکلٹ، کہا جائے گا۔

دوسرا سوال یہ تھا کہ مذہبی اور سیاسی کلٹ میں کوئی فرق ہے؟ ڈاکٹر سٹیون اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر کلٹ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن ان تمام میں دھوکہ ایک قدر مشترک ہو گی کہ اس کرہ ارضی کا نجات دہندہ اب ایک ہی رہنما ہے اور سچائی تک رسائی صرف اسی عظیم رہنما کو حاصل ہے۔ بس دلیل کی بجائے آنکھیں بند کر کے اس عظیم رہنما کی اطاعت کی جائے۔

تیسرا سوال یہ تھا کہ جو لوگ اسکلٹ، کا شکار ہو جاتے ہیں کیا انہیں اس کا احساس ہوتا ہے؟ ڈاکٹر سٹیون نے کہا کہ ہر گز نہیں۔ نہ صرف یہ کہ انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا بلکہ یہ بات ان سے کی جائے تووہ دوسروں کو احمق سمجھ کر ہنستے ہیں۔ ان کا مائنڈ کسی اور کے کنٹرول میں ہوتا ہے اور وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ شعوری فیصلے کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ معاشرے اور دنیا کی بھلائی کا کام کر رہے ہوتے ہیں اور خدا کی خوشنودی اور رضا کے لیے میدان میں اترتے ہیں ورنہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت ہوتا ہے اور انہیں ایسی جدوجہد کی خود تو کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

چوتھا سوال یہ تھاکہ " کلٹ لیڈر" اور مقبول لیڈر میں کیا فرق ہوتا ہے؟ ڈاکٹر سٹیون نے کہا کہ کلٹ لیڈر، خود کو عظیم سمجھتا ہے، وہ مرکز نگاہ رہنا چاہتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے، وہ ہمدردی سے محروم ہوتا ہے، خبط عظمت کا شکار ہوتا ہے اور جھوٹ بولنے میں اسے کوئی جھجھک اور شرم محسوس نہیں ہوتی۔ وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ وہ دوسروں کو ہراساں کرنا اور ان پر مقدمات بنانا اپنا حق سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس کے پاس اپنے ہر تباہ کن اقدام کا جواز موجود ہوتا ہے۔

پانچواں سوال تھا کہ آپ ٹرمپ کو " کلٹ لیڈر" کیوں کہتے ہیں؟ جواب تھا کہ وہ خود کو عقل کل سمجھتا ہے اور اس کے چاہنے والے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ وہ خدا کے مقرب ہیں اور ان کے مخالفین شیطان کے ایجنٹ ہیں۔ یہ Apostolic Reformation کا مذہبی تصور ہے جو سیاسی کلٹ بن چکا ہے۔

ڈاکٹر سٹیون کے مطابق کلٹ لیڈر موجود مسائل کو ایکسپلائٹ کرتا ہے۔ وہ جھوٹ کی بنیاد پر ایسا پروپیگنڈا کرتا ہے کہ اسے سچ بن کر دکھا دیتا ہے۔ وہ کسی کو برداشت نہیں کرتا۔ وہ اپنے مفاد کو مقدس جدو جہد بنا کر پیش کرتا ہے۔ اس کے پاس جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کے ذہن قابو کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ اپنی محبت اور عقیدت کے عوض لوگوں سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے۔ وہ لوگوں کے ذہن قابو کر لیتا ہے۔ وہ مائنڈ گیم کا ماہر ہوتا ہے۔

اب آئیے اس سوال کی جانب کہ جب کوئیکلٹ، Cult کسی معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو کیا اس سے نجات کی کوئی صورت ہو سکتی ہے یا یہ نظام فطرت ہے کہ معاشرے اور اس کی دو تین نسلوں کو اب یہ کلٹ بھگتنا پڑنا ہے اور طوفان کے گزر جانے کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ اب کیا کچھ باقی گیا ہے اور اس ملبے سے کوئی بنیاد کیسے اٹھائی جا سکتی ہے؟

اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ اور دل چسپ بات یہ ہے کہ سٹیون ایلن نے بھی اس سوال کو موضوع نہیں بنایا۔ میرا خیال تھا کہ کم علمی اور نیم خواندگی کا شکار معاشرے کلٹ لیڈر، کا آسان شکار ہوتے ہیں لیکن امریکہ کا سماج تو نیم خواندہ نہیں تھا۔

امریکہ کا اجتماعی رد عمل البتہ مختلف تھا۔ وہاں معاشرہ کلٹ کا شکار تو ہوا لیکن شعور اجتماعی نے آگے بڑھ کر سماج کو تھام لیا۔ ٹرمپ کا طریق واردات بھی سوشل میڈیا سے عبارت تھا۔ اس کے ٹویٹر پر 8 کروڑ90 لاکھ فالورز تھے۔ لیکن جب اس کا جھوٹ اور پروپیگنڈا حد سے گزرا تو اجتماعی شعور نے رد عمل ظاہر کیا۔ پہلے ان کی پوسٹس ڈیلیٹ ہوئیں پھر ساتھ فیکٹ چیک لیبل لگائے گئے اور اس کے بعد انسٹا گرام اور فیس بک نے ان پر پابندی لگا دی اورٹویٹر ہینڈل معطل کر دیا۔ فاکس نیوزز پر ٹرمپ نے جھوٹ بولے تو سی این این نے فیکٹ چیک کا کام کر دیا۔ ریٹنگ کے ہیجان میں سب پاگل نہیں ہوئے بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا۔

تو کیا ہمارا سماج، ہمارے ذرائع ابلاغ اور ہمارے اہل الرائے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ پائیں گے؟

Check Also

Karen Kuch Aisa Ke Dunya Karna Chahe Kuch Aap Sa

By Asma Hassan