جسبیر سنگھ: تمہارے یار کی قبر پر ہم فٹ بال کھیلتے ہیں
ڈھوک جیون قبرستان کی تلاش میں دو چار سال بیت گئے لیکن ناکامی ہوئی۔ میں بھی اس بات کو بھول بیٹھا کہ اسلام آباد کے مہنگے ترین سیکٹر ای سیون کے نیچے صدیوں پرانی بستی دفن ہے جس کا نام ڈھوک جیون تھا جس میں سردار جسبیر سنگھ کے یار حاجی حیات کی قبر تھی، سردار جسبیر سنگھ قیام پاکستان کے وقت گائوں چھوڑکر بھارت چلا گیا تھا اور پھر سالوں بعد اس کا بیٹا باپ کے دوست کی قبر کی مٹی کو چومنے مارگلہ میں ڈھوک جیون کا قبرستان تلاش کر رہا تھا۔
ای سیون کوئی بڑا سیکٹر نہیں۔ یہ ایک مختصر سا علاقہ ہے۔ کسی بھی دوسرے سیکٹر سے آٹھ دس گنا چھوٹا۔ اس سیکٹر کی ایک ایک گلی تلاش کر لی لیکن یہاں کوئی قبرستان نہ ملا تو میں آہستہ آہستہ اس واقعے کو بھول گیا۔ ایک روز گرم دو پہر تھی اورمیں بوہڑی کے چشمے پر بیٹھا تھا ْ اوپر گائوں کی طرف سے ایک ادھیڑ عمر آدمی نیچے پگڈنڈی پر چلتا ہوا آیا اور چشمے کے پاس بنی مسجد میں آ کر لیٹ گیا۔ وہ مقامی آدمی تھا۔ وہ مجھے اس چشمے اور اس سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر واقع قدیم گپھائوں کے بارے میں بتانے لگا۔
باتوں باتوں میں مجھے اچانک یاد آیا کہ مجھے ڈھوک جیون قبرستان کی بھی تو تلاش تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ قبرستان کہاں ہے۔ میرا خیال تھا یہ مقامی آدمی ہے اور اسے ضرور معلوم ہو گا لیکن سوال سن کرو ہ بھی سوچ میں پڑ گیاْ۔ کہنے لگا ای سیون کے آس پاس ہی کہیں ہو گا۔ آپ ایسا کریں ای سیون کے سامنے جنگل میں ایک بوہڑ (برگد) کا درخت ہے جہاں بدھ مت اور ہندو مذہب کے لوگ آتے تھے۔ اس درخت کے آس پاس کہیں کوئی قبرستان ہو گا۔
برگد کا یہ قدیم درخت ڈاکٹر اے کیو خان صاحب کے گھر سے تھوڑا پہلے سڑک کے کنارے واقع ہے۔ ا س کے ساتھ ہی جامعہ فریدیہ ہے۔ درخت کے اطرا ف کا جنگل چھان مارا لیکن قبرستان نہ ملا۔ جنگل میں گھومتے ا یک پہر ہو گیا تھا۔ تھک ہار کر ای سیون کے واحد پارک پہنچا کہ دم بھر کو یہاں سستا لوں۔
پارک میں داخل ہوا تو سینیٹر مشاہد حسین سید بچوں کو لے کر واک کر رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں ای سیون میں ڈھوک جیون کے قدیم قبرستان کی تلاش ہے کیا آپ نے کبھی اس قبرستان کو دیکھا یا اس کا نام سنا۔ مشاہد حسین سید کا جوب بھی نفی میں تھا۔ وہ یہیں کے رہائشی تھے لیکن یہان کے قدیم قبرستان کا انہیں بھی معلوم نہیں تھا۔
سلام دعا کے بعد رخصت ہونے لگے تو اچانک انہیں کوئی خیال آیا اور کہنے لگے ایک منٹ رکیں۔ سامنے سی ڈی اے کے کچھ ملازمین کام کر رہے تھے۔ مشاہد صاحب کہنے لگے کہ یہ صاحب بہت پرانے ہیں اور ایک عرصے سے یہاں کام کر رہے ہیں، ان سے پوچھتے ہیں شاید انہیں معلوم ہو۔ مشاہد حسین سید نے انہیں آواز دی، وہ صاحب آئے تو انہوں نے پوچھا یہاں ای سیون میں ڈھوک جیون کا ایک قبرستان ہے، کیا آپ کو معلوم ہے وہ کہاں ہے۔
جی صاحب جی معلوم ہے۔۔ یہ جواب سنا تو مسرت اور حیرت کے ملے جلے جذبات نے آ لیا۔ کہاں ہے؟ کیا آپ ہمیں وہاں لے جا سکتے ہیں۔۔ ہمارے لہجے میں غیر یقینی سی خوشی تھی۔ یہیں ہے صاحب جی، یہ آپ کے پیچھے۔ یہاں کہاں ؟ یہ تو پارک ہے۔ صاحب جی، یہی ڈھوک جیون کا قبرستان ہے۔ ڈھوک جیون ہوتا تھا تو یہ قبرستان تھا، ای سیون بنا تو یہاں پارک بن گیا۔
قبرستان پر پارک کیسے بن گیا۔ یہ تو معاہدے کی خلاف ورزی ہے؟ بس جی ڈاڈھے لوگوں سے کون متھا لگا سکتا ہے۔ وہ جو چاہیں کر لیں صاحب جی۔ انہیں کون پوچھ سکتا ہے۔ یہ چھوٹا سا قبرستان تھا پارک کے اندر تھا۔ اس کے چاروں طرف پارک ہے۔ آہستہ آہستہ قبرستان ختم ہوتا گیاا ور اب کسی کو معلوم ہی نہیں کہ یہاں قبر بھی ہے۔
ہم اس وقت جس پارک میں کھڑے تھے اس کا نام ای سیون پارک ہے اور یہ گومل روڈپر واقع ہے۔۔ بد ذوقی یہ ہے کہ ای سیون میں ڈھوک جیون کا کہیں کوئی نام ہی نہیں۔ صرف اس پارک کا نام ہی ڈھوک جیون پارک رکھ دیا جاتا تو قدیم تہذیب سے ایک نسبت باقی رہتی۔ یا کم از کم پارک کے اندر قبرستان کی نسبت سے ڈھوک جیون قبرستان کا کوئی بورڈ ہی آویزاں کر دیا جاتا۔
اتنے سالوں کی تلاش کے بعد اب میں اس قبرستان کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوا تھا تو ایک عجیب سی خوشی کا احساس تھا۔ میں نے بے تابی سے کہا کہ چلیے ہمیں دکھائیے قبرستان کہاں ہے۔ پارک کے اندر سے ایک برساتی ندی بہتی ہے۔ اس ندی کے کنارے ایک جگہ ہمیں لے جا کر اس نے کہا: صاحب یہ ہے ڈھوک جیون کا قبرستان۔
لیکن وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ میں کبھی زمین کو دیکھتا کبھی اس کے چہرے کو۔ ایک خیال آیا کہ یہ آدمی کہیں مذاق تو نہیں کر رہا۔ قبرستان کیا وہاں تو کوئی قبر بھی نہیں تھی۔ میں نے قدرے جھنجھلا کر کہا: یہ آپ ہمیں کہاں لے آئے ہیں۔ قبرستان کہاں ہے؟
کسی گیانی کے سے انداز میں پرسکون لہجے میں اس مالی نے پہلے ای سیون کی طرف دیکھا اور پھر زمین پر نطریں گاڑ کر کہا: اس بڑے سے قبرستان میں ڈھوک جیون کا قبرستان یہی ہے۔ مالی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے لیکن ہمیں کوئی قبر نظر نہیں آ رہی تھی۔ جب وہ دعا سے فارغ ہوا تو میں نے پھر اس سے یہی سوال کیا کہ یہ قبرستان ہے تو قبر کہا ں ہے؟
ابھی دکھاتا ہوں صاحب۔۔ یہ کہہ کر اس نے پگڑی اتاری، آستین چڑھائی اور زمین پر بیٹھ کر ہاتھوں سے صفائی کرنے لگ گیا۔ تھوڑا دیر بعد قبروں کے نشانات واضح ہونے شروع ہو گئے۔ چند قبریں پختہ تھیں، ان کے نشانات نمایاں ہو گئے اور دیکھنے سے پتا چلنے لگا کہ یہاں سے یہاں تک قبر ہے۔ زمین کی صفائی سے ایک ٹوٹا ہواکتبہ ملا جو مٹی میں دبا پڑا تھا۔ کچھ معلوم نہیں یہ کتبہ کس قبر کا تھا۔
مالی نے بتایا کہ قبرستان روز بروز سکڑتا جا رہا ہے اب تو ختم ہی ہو چکا ہے۔ بچے یہاں پارک میں کھیلتے ہیں اور یہ جگہ چونکہ قدرے ویران سی ہے تو یہاں مائیں بچوں کو پیشاب کرانے بھی آ جاتی ہیں اور لڑکے بھی یہاں یہی کام کر جاتے ہیں۔ ہم بتاتے تو ہیں لیکن ہم غریب لوگ انہیں روک تو نہیں سکتے۔ تو کیا یہاں کبھی لوگ فاتحہ پڑھنے نہیں آتے؟
بہت پہلے آیا کرتے تھے صاحب۔ دس سال پہلے تک عید کے موقع پر لوگ آ جاتے تھے۔ لیکن اب کوئی نہیں آتا۔ شاید ان کے بچے بھی مر گئے ہوں۔ اور دادوں دادیوں کی قبروں پر کون آتا ہے صاحب۔
میں بوجھل دل لیے گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔ جسبیر سنگھ کو، کوئی خبر دے کہ ڈھوک جیون اب ای سیون بن چکا۔ ہم اتنے مہذب ہو گئے ہیں کہ قبرستانوں پر پارک بنا دیے ہیں۔ اس کے یار کی قبر پر ہماری اشرافیہ کے بچے فٹ بال کھیلتے ہیں۔
جسبیر سنگھ کا بچہ بھارت سے اپنے باپ کے یار حاجی حیات کی قبر چومنے ڈھوک جیون چلا آیا لیکن ڈھوک جیون والوں نے یہاں رہ کر بھی اپنے پرکھوں کو بھلا دیا۔ اب یہاں عید پر بھی کوئی فاتحہ پڑھنے نہیں آتا۔