عمران کہیں نہیں جا رہے؟
اللہ اللہ، کیا طنطنہ تھا کہ اتنے گھنٹوں میں تحریک عدم اعتماد لا کر عمران حکومت کو نکال باہر کریں گے۔ ڈیڈ لائن تو کب کی گزر گئی، اب کوئی ہے جو رہنمائی فرما سکے کہ عمران حکومت کے خاتمے میں کتنے گھنٹے، کتنے منٹ، کتنے سیکنڈ اور کتنے نینو سیکنڈ باقی رہ گئے ہیں؟ قائدین کرام کی گھڑیاں خراب ہو گئی ہیں، ان کی سوئیوں میں کوئی خرابی آ گئی ہے یا ان کی گھڑیاں تو ڈیجیٹل ہیں لیکن مارکیٹ میں سیل دستیاب نہیں ہے؟
نئی خبر یہ آئی ہے کہ جناب شہباز شریف نے مولانا صاحب سے شکوہ کیا ہے کہ پرویز الٰہی صاحب نے ان کی دعوت قبول نہ کر کے ان کی بے عزتی کی ہے۔ شہباز شریف صاحب کا دل تو کر رہا ہو گا کہ اس جرم میں پرویز الٰہی کو معطل کر دیا جائے لیکن جمہوریت کی بالادستی کی خاطر وہ سر دست صرف شکوے تک محدود رہے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب بھی وضع دار آدمی ہیں، غالب امکان یہ ہے کہ دل کی یہ بات ان کی زباں پر آتے آتے رہ گئی ہو گی کہ صاحب آپ نے ز ندگی میں خود کسی کو عزت دی ہی کب ہے کہ اب آپ عزت نہ دیے جانے کا شکوہ کر رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد مُلا نصیر الدین کی وہ گمشدہ چابی ہے جس کا چرچا تو بہت ہے لیکن جس کا سراغ کسی کو نہیں ملنا۔ ایک دفعہ پہلے بھی تحریک عدم اعتماد کا شور مچا تھا اور عمران خان نے کہا تھا کہ تم کیا عدم اعتماد لائو گے میں اعتماد کا ووٹ لے لیتا ہوں۔ اب بھی تحریک عدم اعتماد تک نوبت پہنچنے کا امکان کم ہے۔ عمران کے مزاج کو دیکھتے ہوئے غالب امکان یہی ہے کہ وہ شکست دیکھ کر اسمبلیاں ہی توڑ دیں۔
لیکن اگر کسی کا خیال ہے وہ میر طفر اللہ جمالی یا معین قریشی کی طرح وزارت عظمیٰ سے الگ ہو کر فعل ماضی مطلق مجہول، بن جائیں گے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ عمران کے اقتدار کی مدت میں اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ ویسے ہی چل چلائو ہی ہے۔ آخری سال ڈیڑھ سال میں اقتدار کی باقی ماندہ مدت اہم نہیں ہوتی۔ اہم یہ ہوتا ہے کہ اگلے الیکشن میں کیا نعرہ لے کر اترنا ہے۔ اقتدار کی مدت کے خاتمے پر اگر آپ کے پاس عوام میں فروخت، کے لیے کچھ نہ ہو تو یہ چیز خطرناک ہوتی ہے۔ چند مہینے اقتدار سے چمٹے رہنا اتنا اہم نہیں ہوتا۔
جب سے عمران نے اقتدار سنبھالا، یہ پہلا موقع ہے کہ عمران کے ہاتھ خالی نہیں اور اگر وہ اقتدار سے الگ ہوتے ہیں تو ان کے پاس اپنے ووٹر اور عوام کو مطمئن کرنے کے لیے جذباتی مواد وافر مقدار میں ہوگا۔ اقتدار سے الگ ہونے سے پہلے وہ قوم سے ایک عدد خطاب فرمائیں گے اور ماحول بنا دیں گے۔ آئیے ذرا چشم تصور سے دیکھتے ہیں وہ خطاب کیسا ہو گا؟
سب سے پہلے وہ اس قوم کی جذباتی رگ پکڑیں گے۔ وہ کہیں گے میں وہ پہلا حکمران تھا جس نے امریکی تسلط کے آگے قومی غیرت کا سودا کرنے سے انکار کر دیا۔ میں وہ پہلا حکمران تھا جس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو قومی غیرت کی بنیاد پر استوار کیا۔ میں وہ پہلا حکمران تھا جس نے امریکی دبائو کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھا اور روس کا دورہ کیا۔ میں وہ پہلا حکمران تھا جس نے امریکی دبائو کو برداشت کیا اور اقوام متحدہ میں روس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ یہ میں ہی تھا جس نے اس خطے میں امریکی سامراج کی غلامی قبول کرنے سے انکار کیا اور امور خارجہ میں متبادل راستے اختیار کیے۔ وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔
اس کے بعد وہ کہیں گے کہ یہ درست ہے کہ میں نے شروع میں معیشت کی دنیا میں غیر مقبول فیصلے کیے۔ لیکن یہ مجبوری تھی کیونکہ مجھے حکومت ملی تو اس مالی سال کے 9مہینے باقی تھے لیکن اس مالی سال کا بجٹ شاہد خاقان عباسی کی حکومت دے کر جا چکی تھی ا ور اس بجٹ کے مطابق صرف اس سال کے معاملات چلانے کے لیے 13 ارب ڈالر قرض لینا لازمی تھا۔ ان حالات میں، میں کیا کرتا۔ لیکن پھر بھی ان مشکل حالات میں، معیشت کو میں وہاں تک لے آیا کہ اب آ کر پٹرول دس روپے فی لٹر سستا کر دیا۔ مجھے ہٹا یا نہ جاتا تو میں نے پٹرول مزید سستا کر دینا تھا۔
پھر وہ کہیں گے کہ عزیز ہم وطنو اگر تم امریکی غلامی سے نکلنا چاہتے ہو اور اگر تم مزید سستا پٹرول ا ور مزید بہتر معیشت چاہتے ہو تو اب کی بار مجھے دو تہائی اکثریت سے واپس لائو۔ یہ امریکی ایجنٹ جو مجھے اقتدار سے نکال رہے ہیں اور ملکی معیشت کو مغربی اداروں کے آگے گروی رکھنا چاہتے ہیں ان سے نبٹنے کے لیے مجھے دو تہائی اکثریت چاہیے۔
اب دو امکان ہوں گے۔ یا تو یہ تقریر اسی طرح ہٹ ثابت ہو گی جیسے نوازشریف کی میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لوں گا" والی تقریر ثابت ہوئی تھی۔ اس صورت میں حزب اختلاف کی خوب مزاج پرسی ہو جائے گی۔ دوسرا امکان یہ ہو گا کہ تقریر پٹ جائے گی۔ اس صورت میں عمران کی شکل میں ایک ایسی اپوزیشن موجود ہو گی جو کسی بھی وقت کسی بھی حکمران کا ناطقہ بند کر دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہو گی۔ یاد رہے کہ عمران کا مزاج ہی اقتدار کی ذمہ داریوں والا نہیں ہے۔ ان کا مزاج ہی احتجاج اور حزب اختلاف کا ہے۔
امریکہ مخالفت، سامراج دشمنی اور آخر وقت پر سستا پٹرول یہ وہ چیزیں ہیں جو عمران خان کے لیے ایک محفوظ ٹارگٹ سیٹ کر چکی ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کی بنیاد پر اس نیم خواندہ معاشرے میں اگر پیپلز پارٹی چار پانچ الیکشن لڑ سکتی ہے تو نیم خواندہ معاشرے میں عمران خان ان نعروں کی بنیاد پر طوفان بھی کھڑا کر سکتے ہیں۔ عوام کی یاد داشت کی طبعی عمر تین چار ماہ ہی ہوتی ہے۔ اگلی حکومت آئے گی، پٹرول مہنگا کرے گی اور لوگ کہیں گے: یار ان سے تو عمران اچھا نہیں تھا۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر آنے والے کا نامہ اعمال دیکھ کر ہر جانے والا اچھا لگنے لگتا ہے۔
اقتدار کے خاتمے کے وقت ووٹر کے جذباتی استحصال کے لیے ایک حکمران اپنے نامہ اعمال میں جن چیزوں کی خواہش کر سکتا ہے وہ اس وقت عمران کے ہاتھ آ چکے ہیں۔ امریکہ کو للکارنے والے بھی اب وہی ہیں۔ اور پٹرول سستا کرنے والے بھی۔ کچھ بعید نہیں کہ اقتدار جاتا دیکھ کر وہ بہت کچھ مزید سستا کر دیں تا کہ آنے والوں کو اسے آتے ہی مہنگا کرنا پڑے اور وہ مزید سرخرو ہو جائیں۔ ان کی بلا سے ایسے اقدام سے ملکی معیشت پر کیا بیتے گی یا اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ ہر وہ ایڈ ونچر جس کی قیمت خود ان کی ذات کو نہ دینا پڑے وہ کر سکتے ہیں۔
آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن مجھے اپنی اس رائے پر اصرار ہے کہ حزب اختلاف نے عمران پر ایسی بے وقت کی جنگ مسلط کر دی ہے جس میں عمران جیت جائیں یا ہار جائیں، ہر دو صورتوں میں مزے میں وہی رہیں گے۔