دھمکی آمیز خط،پانچ سوالات
نفرت اور عقیدت کی بنیاد پر جب صف بندی ہو چکی ہواور کسی بھی معاملے کو قبول کر نے یا رد کرنے کا معیار دلیل کی بجائے نفرت اور محبت بن جائے تو معقول بات کہنے کی گنجائش سمٹتی چلی جاتی ہے۔ امریکہ کے مبینہ دھمکی آمیز خط پر ہونے والی گفتگو بھی ایسا ہی منظر پیش کر رہی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کا نفرت اور محبت سے بالاتر ہوکر معروضیت سے جائزہ لیا جائے۔ چند سوالات ہیں جن کا جواب معاملے کو سمجھنے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ جیسا کوئی طاقتور ملک کسی حکومت کے خلاف سازش کرنے پر تل جاتا ہے تو کیا وہ متعلقہ ملک کے سفیر کو بلا کر بتاتا ہے کہ پیارے بھائی، ہم آپ کی حکومت کے خلاف سازش کرنے لگے ہیں، اس لیے ازرہ کرم آپ جلدی سے اپنی حکومت کو اس سازش کے بارے میں مطلع فرما دیں؟ امریکہ اگر عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجنا چاہتا ہے تو اسے اس سازش کو پورا کرنے کے لیے حزب اختلاف اور دیگر قوتوں سے رابطہ کرنا چاہیے تھا یا حکومت کے سفیر کو بلا کر بتانا تھا کہ ہم یہ کرنے جارہے ہیں؟ کیا سازش ایسے کی جاتی ہے؟ کیا امریکی فیصلہ سازوں کی مت ماری گئی ہے کہ جس کے خلاف سازش کر رہے ہیں، اسی کے سفیر کو بلا کر خبر دی جا رہی ہے؟
دوسرے سوال کا تعلق امور خارجہ میں مراسلت کے مروجہ طریقوں سے ہے۔ موجودہ خط کیا براہ راست کسی حکومت نے لکھا اور ہمارے سفیر کے حوالے کر دیا؟ اگر ایسا ہے تو بتایا جائے۔ اس صورت میں یہ ریاست کو دی گئی دھمکی ہے۔ دستیاب اطلاعات کے مطابق کسی میٹنگ میں کچھ گفتگو کی گئی ہے اور اس گفتگو کی تفصیل ہمارے سفیر نے اپنی حکومت کو لکھ بھیجی۔
سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی ملک کی حکومت کے بارے میں اس طرح کی گفتگو پہلی بار کی گئی یا سفارت کاری کی دنیا میں ایک معمول ہے؟ اگر معمول ہے توکیا یہ معمول صرف ہمارے ساتھ ہے اور ہمارے اب تک کے بزدل حکمران ڈر کر چپ ہو جاتے تھے اور اب عمران خان ڈرنے کی بجائے بول پڑے ہیں، یا یہ معمول دنیا بھر میں ہے؟ اگر دنیا بھر میں ہے تو کیا دنیا ایسی مراسلت کو دھمکی اور سازش سمجھتی ہے یا اسے کچھ اور طریقے سے لیا جاتا ہے۔
خود پاکستان پر کیا ایسے دبائو پہلی بار آئے یا قریب ہر حکومت نے ایسے معاملات کا سامنا کیا؟ ایسے دبائو کا جواب اسی طرح کی خاموش سفارت کاری سے دیا جاتا ہے یا اسے اپنی کمزور کارکردگی چھپانے کے لیے جلسہ عام کی زینت بنا کر سرخرو ہونے کی کوشش کی جاتی ہے؟ کیا ابھی بھارت کو بھی امریکہ کی جانب سے تنبیہہ نہیں کی گئی؟ بھارت کی خارجہ پالیسی کو ابھی حال میں ہی عمران خان صاحب نے داد پیش کی ہے تو کیا اس تنبیہ کے جواب میں بھارت کے وزیر اعظم نے بھی اسی طرح معاملات کو جلسہ عام کی رونق بنایا ہے؟
تیسرے سوال کا تعلق جناب وزیر اعظم کی افتاد طبع سے ہے۔ ٹرمپ کے زمانے میں وہ امریکہ گئے، اس سے ملاقات کی اور واپسی پر استقبال کروایا اور فرمایا کہ ایسے لگ رہا ہے میں ورلڈ کپ جیت کر آ رہا ہوں۔ اور اب چونکہ بائیڈن ہے، وہ فون کال بھی نہیں کر رہا، تو جیسے ملک میں حزب اختلاف کے ساتھ غم و غصے کا معاملہ ہے، ایسے ہی بائیڈن کے ساتھ بھی ایک ذاتی رنجش ہے اور رائی اب پہاڑ بنتی ہے تو بن جائے۔ ہماری بلا سے؟ بائیڈن سے ذاتی غصے میں کہیں عمران خان صاحب اوور ری ایکٹ تو نہیں کر گئے؟ یہ بھی کہیں " میں " کا معاملہ تو نہیں؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ عمران خان نے ایسا کیا کیا ہے کہ امریکہ ان کے خلاف سازش کر رہا ہے؟ چین اور روس کے بلاک سے اگر امریکہ خفا ہے تو ہم سالوں سے اس بلاک سے رہ و رسم رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے لیے اس بلاک کی شکل میں سب سے بڑا چیلنج سی پیک کا ہے جو آگے چل کر ڈالر کی بالادستی کو آنکھیں دکھا سکتا ہے۔ پاکستان عمران کے آنے سے پہلے سی پیک کا حصہ تھا۔ روس سے تعلقات کی صورت گری بھی زرداری دور سے ہو چکی تھی۔ ویسے بھی روس جانے اور چین سے قربت کا فیصلہ ایک شخص کا نہیں ہوتا، پوری ریاست کا ہوتا ہے اور عمران خود یہ بات کہہ چکے ہیں؟ پھر امریکہ ان کے خلاف کیوں سازش کرے گا؟ کوئی ایک وجہ؟
عالم یہ ہے کہ عمران خان صاحب سے پہلے پاکستان نے چین کے ساتھ سی پیک معاہدے خفیہ رکھے ہوئے تھے، عمران حکومت نے امریکی دباو پر یہ معاہدے عالمی مالیاتی اداروں سے شیئر کیے۔ عمران حکومت کے کم از کم تین مشیروں نے سی پیک کے خلاف تقاریر فرمائیں۔ سٹیٹ بنک انہی مالیاتی اداروں کے دبائو پر خود مختار کیا۔ آئی ایم ایف کے اہلکار کو سٹیٹ بنک کا گورنر بنایا؟
کیا یہ ہیں وہ اقدامات جن سے امریکہ ناراض ہے؟ پانچویں سوال کا تعلق عمران خان کی خارجہ پالیسی سے ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی توازن کے اصول پر کھڑی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان توازن اور ایران اور سعودیہ کے درمیان توازن۔ چین ہمارا دوست ہے اسے نہیں چھوڑنا لیکن امریکہ سے بگاڑنی نہیں۔ سعودیہ ہمارا دوست ہے لیکن ایران بھی ہمارا ہمسایہ ہے۔ ہم نے کامیابی سے یہ توازن نبھایا۔ عمران خان کے دورمیں پہلی بار یہ توازن بکھرتا نظر آ رہا ہے۔
چین سے بھی معاملات میں تنائو آیا اور امریکہ بھی خفاہے۔ سعودی ولی عہد کی خفگی کی خبریں بھی آئیں اور او آئی سی اجلاس میں ایران کا وزیر خارجہ بھی موجود نہیں تھا۔ او آئی سی ہماری قوت ہوا کرتی تھی، ہم اس کا ایک اجلاس بھی کشمیر پر نہ بلا سکے۔ بھارت اب وہاں آبزرور کا سٹیٹس لے چکا ہے۔ او آئی سی کے اندر رہتے ہوئے ایک نئے فورم کی بات کی مگر وہاں بھی نہ گئے۔ مہاتیر دیکھتے ہی رہ گئے۔ سوال اب یہ ہے کہ کہیں فارن پالیسی بھی ایسے ہی تو نہیں چل رہی جیسے حکومت چل رہی ہے؟
پاکستانی معاشرہ اپنی ساخت کے اعتبار سے جذباتی ہے۔ حکومت کے پاس کارکردگی نہ ہو تو آسان ترین کام یہ ہے کہ اس کی جذباتی رگ کو دبا دیا جائے۔ عمران خان صاحب کے ہاں یہ بات، معلوم یہ ہوتاہے کہ، ایک پالیسی کے طور پر اختیار کی جا چکی ہے۔ ٹماٹر پیاز کی قیمتوں کو ٹھیک کرنے جیسے حقیر معاملات کے لیے تو وہ آئے نہیں کہ ان سے ایسے سوال کیے جائیں۔ اسلام کے مجاہد بھی وہ ہیں۔
امریکہ کے آگے بھی وہ ہی ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ اپوزیشن امریکہ سے ملی ہوئی ہے۔ یعنی ملک میں جناب عمران خان کے علاوہ سب ضمیر فروش اور غدار ہیں۔ اب مہنگائی کاعذاب آئے یا افراط زر کا، آسان سا جواب ہتھیلی پر رکھا ہے کہ یہ قومی غیرت کی قیمت ہے، اسے حکومتی نا اہلی نہ سمجھا جائے۔ آپ کو چیزیں سستی چاہیں یا آپ غیرت مند ملک چاہتے ہیں؟
جذباتی سماج میں معقول لوگ بھی بیانیے کے ایسے سونامی میں بہہ جائیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ معاشرے کے مزاج کی یہ صورت گری عشروں کی محنت کا نتیجہ ہے۔