شہباز شریف کا امتحان!
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سات ماہ جیل کی ہوا کھانے کے بعد ضمانت پر رہا ہو گئے۔ اس طرح خواجہ آصف کے سوا مسلم لیگ (ن) کی تمام قیادت ضمانتوں پر رہا ہو چکی ہے۔ شہباز شریف کی لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت کی کارروائی کے دوران دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی، پہلے عدالت عالیہ کے ڈویڑن بینچ کے ایک جج مسٹر جسٹس سرفراز ڈوگرنے ضمانت پر رہائی کا حکم دے دیا جبکہ دوسرے رکن مسٹر جسٹس اسجدجاوید گھرال نے ضمانت دینے سے اتفاق نہیں کیا۔ مسٹر جسٹس سرفراز ڈوگر کا کہنا تھا کہ تکنیکی طور پر نیب کہیں یہ ثابت نہیں کر پایا کہ شہباز شریف ٹی ٹیز وصول کرنے میں ملوث ہیں۔ اس حوالے سے ان کے برخوردار سلمان شہباز پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا گیا ہے بظاہر یہی تکنیکی نکتہ فل بینچ میں شہباز شریف کی ضمانت کا باعث بنا۔ مسلم لیگ (ن)کی لیڈرشپ شہباز شریف کی پہلے ڈویڑن بینچ سے رہائی نہ ہونے پر سراپا احتجاج بنی رہی۔ ان کے موقف میں خاصا وزن تھا کہ یہ قانونی تقاضوں کے مطابق نہیں ہے کہ ایک جج کے اتفاق نہ کرنے سے فیصلہ ہی کالعدم قرار دے دیا جائے۔ بہرحال اب ان کی تسلی ہوگئی ہے کہ ان کے لیڈربالآخر ضمانت پر جیل سے باہر آگئے ہیں۔
سیاسی مبصرین کی ایک بڑی تعداد یکے بعد دیگرے لیگی رہنمائوں کی رہائی کو خاصی اہمیت دے رہی ہے گویا کہ یہ سب کسی طاقتور ادارے کے اشارے پر ہو رہا ہے۔ تاہم یہ سوچ عدلیہ کی آزادی پر دھبہ لگانے کے مترادف ہے لیکن شہباز شریف کی رہائی کے سیاسی محرکات سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے چینل 92 پر میرے پروگرام "ہوکیا رہا ہے" میں اس امکان کو سرے سے ہی رد کر دیا تھا کہ شہباز شریف کی لائن اپنے بڑے بھائی نواز شریف اور بھتیجی مریم نواز سے مختلف ہے، جو فوج کے ساتھ محاذ آرائی پر یقین رکھتے ہیں جبکہ برادرخورد شہباز شریف مصالحت اور بات چیت کے حامی ہیں۔ شاہد خاقان کے مطابق تو یہ باتیں ٹاک شوز میں ہوتی رہتی ہیں جبکہ زمینی حقائق مختلف ہیں اور شریف فیملی ایک ہی صفحے پر ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہوگا لیکن کیا وجہ ہے کہ ٹیلی ویڑن چینلز کے علاوہ بھی بہت سے لوگ شریف فیملی میں دراڑ کو حقیقت سمجھتے ہیں۔ آخر ایسی بات آصف زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو جو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں کے بارے میں کیوں نہیں کہی جاتی، دلچسپ بات یہ ہے کہ آصف زرداری مجھ سے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ بلاول نوجوان ہے لہٰذا اس کی اور میری سوچ میں فرق ہو سکتا ہے جسے فطری طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔
شہباز شریف میاں نواز شریف کے برخوردار نہیں بلکہ چھوٹے بھائی ہیں جن کے درمیان 2 سال کافرق ہے۔ چھوٹے میاں صاحب اپنی میانہ رو لائن کا مجھ سے نجی ملاقاتوں میں کئی بار ذکر کر چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس موقف کا برملا اظہار میاں صاحب اور پارٹی کے سامنے بھی کرتے رہتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میاں برادران میں اس بات پرتو اختلاف نہیں ہے کہ ان کے مطابق عمران خان الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ ہیں، اور انہیں اقتدار سے رخصت ہوجانا چاہیے جبکہ برادر خورد حکمت عملی کے طور پر سمجھتے ہیں کہ عسکری قیادت سے لڑائی کر کے خان صاحب کی چھٹی کرانا درست حکمت عملی نہیں ہے، غالباً حالات کے تھپیڑوں کے بعد اب بڑے میاں صاحب بھی شہباز شریف کے بیانیے سے متفق ہوگئے ہیں۔ صاحبزادی مریم نواز بھی مہر بلب ہیں۔ انہوں نے چچا کی رہائی پر ان کا گرمجوشی سے استقبال بھی کیا۔ پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کیروئیے سے ن لیگ کو خاصا دھچکا لگا ہے اور یہ سوچ جاگزین ہو گئی کہ فوج سے محاذ آرائی کے معاملے میں مسلم لیگ(ن)، مولانا فصل الرحمنٰ اور معدودے چند قوم پرست رہنما تنہا رہ گئے ہیں۔ لہٰذا اس راہ پر چلنا ن لیگ کے لیے سیاسی طور پر سودمند نہیں ہوگا۔ ویسے بھی مسلم لیگ (ن) کا مزاج مقتدرقوتوں کے ساتھ محاذ آرائی والا نہیں ہے۔
بہرحال شہباز شریف باہر تو آگئے ہیں لیکن اس پیچیدہ ماحول میں سیاست کرنا آسان کام نہیں۔ انہیں نہ صرف اپنے خاندان، پارٹی بلکہ بطور لیڈر آف اپوزیشن تمام اپوزیشن جماعتوں کوساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ان کا اصل امتحان اپنی بھتیجی مریم نواز کو ساتھ لے کر چلنا ہے جنہوں نے اپنے والد اور چچا کی عدم موجودگی میں بطور اپوزیشن رہنما اپنا رول اچھی طرح نبھایا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ وہ میاں نواز شریف کی سیاسی جانشین ہیں۔ بدقسمتی سے موروثی سیاست ہمارے جسد سیاست کا ایک لازمی جزو بن گیا ہے۔