پھر این آر او کیا ہے؟
وزیراعظم عمران خان اپنا موقف اچانک بدل لینے کے حوالے سے یوٹرن خان مشہور ہو گئے اور وہ اپنے دفاع میں اکثر کہتے ہیں کہ یوٹرن لینا لیڈر کی عظمت کی نشانی ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کر کے آگے بڑھ جاتا ہے لیکن میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور سیاسی جانشین مریم نواز نے تو اس ضمن میں حد ہی کر دی ہے۔ وہ ایک تازہ بیان میں فرماتی ہیں کہ "عمران خان کی حکومت کو پورے پانچ برس دینے چاہئیں تاکہ انہیں یہ حسرت نہ رہے کہ اپوزیشن نے اپنی مدت پوری نہ کرنے دی۔ ان کا مزید کہنا تھا انہیں ہٹانا دو منٹ کا کام ہے لیکن ہم نہیں چاہتے انہیں سیاسی شہید بننے کا موقع ملے، ہم انکی تین سال کی نااہلی اور نالائقی کا بوجھ کیوں اٹھائیں، کون نہیں چاہتا کہ اسکی حکومت نہ بنے لیکن ہم وقتی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے اس سے ہمارے بیانیے کی بھی نفی ہو گی، پاکستان نے جو تکلیف سہنی تھی سہہ لی اب ملک کو آئین و قانون کے مطابق ہی چلایا جائے، اداروں کو اپنی آئینی کردار تک محدود ہونا چاہیے اور حکومتوں کے بننے اور گرانے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے"۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اپنے تازہ بیان میں کہتے ہیں کہ عمران خان مہنگائی پر قابو نہ پانے کی ذمہ داری لیں اور استعفیٰ دے کر گھر جا ئیں۔ انہوں نے کہا وزیراعظم صاحب، ملک میں مہنگائی بلند ترین سطح کو چھورہی ہے، کیا اب ہم تھوڑا سا گھبرالیں، ادویات کی قیمتوں میں 100 فیصد سے زائد اضافہ عام آدمی سے زندگی کا حق چھیننے کے مترادف ہے، وزیراعظم ہاؤس کے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر عمران خان کو ان والدین کی تکلیف کا کوئی احساس نہیں جو بچوں کے سکول کی فیس تک ادا نہیں کرپا رہے، مہنگائی کے خاتمے کے دعوے کرنے والے عمران خان کرائے کے گھر میں رہنے والے ایک عام آدمی کا مہینے کا بجٹ بنا کر دکھا دیں۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق پی ڈی ایم نے اصولی طور پر فیصلہ کر لیا ہے کہ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو آئندہ سربراہی اجلاس میں بھی مدعو نہ کیا جائے، جیسا کہ گزشتہ روز سٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ گو یا کہ پاکستانی ریاست کی موجودہ سیاست اس کے مدوجزر سمجھنے والوں کے فہم سے بھی باہر ہوتی جا رہی ہے۔ مریم نواز کو بلاول بھٹو سے گلہ ہے کہ انہوں نے اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے کا فیصلہ یکطرفہ طور پر کیاجس سے یہی مطلب اخذ کیاگیا کہ پیپلزپارٹی سندھ میں برسراقتدار ہے لہٰذا وہ استعفے دینے کے حق میں نہیں۔ اس پر تو مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ (ن) سیخ پا ہو گئے۔ حالانکہ اس سے پہلے بلاول بھٹو کے اس مطالبے پر کہ پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت بالخصوص پنجاب میں عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے لیکن مسلم لیگ (ن) نے اس کی دوٹوک مخالفت کی۔ مسلم لیگ (ن) کے مدارالمہام سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بطور جنرل سیکرٹری پی ڈی ایم پیپلز پارٹی اور اے این پی کی تحریری جواب طلبی کر ڈالی بغیر اس بات کا ادراک کئے کہ پی ڈی ایم تو گیارہ جماعتوں کا اتحاد ہے کوئی کسی سے زبانی بات تو کرسکتا ہے، لیکن تحریری جواب طلبی کیسے کرسکتا ہے۔ اس طرح پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی معمول بن گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی دونوں جماعتیں کبھی تو یہ ہارڈ لائن لیکر تاثر دیتی ہیں کہ حکومت کو ہر حالت میں گرانا ہے، دوسری طرف آئین اور قانون کی پاسداری کر نے کے دعوؤں کے حوالے سے عملی طو ر پر ایسا موقف اختیار کیا جا رہا ہے جو پی ڈی ایم کے موقف سے ایک قدم آگے اور دوقدم پیچھے کے مترادف ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے سٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے اور غلط انداز میں پی ڈی ایم چھوڑ کر جانے والے اپنی غلطی تسلیم کریں اور فیصلے پر نظرثانی کریں۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا رمضان المبارک کے بعد پوری قوت کے ساتھ عوامی رابطے کا آغاز کیا جائے اور ایک باقاعدہ سربراہی اجلاس بلایا جائے جس میں اس بات پر غور کریں گے کہ معیشت کی بہتری کے لیے ہمارے پاس کیا تجاویز ہیں، کیا فارمولا ہے اور ہم عوام کو ان برے دنوں اور معیشت کی زبوں حالی سے کیسے نجات دے سکتے ہیں اس پر ہمیں اپنے ماہرین کی رائے لینی ہو گی۔
کچھ باتیں تو پہلے سمجھ سے باہر تھیں لیکن آ ہستہ آہستہ اپنی جگہ پر واضح ہوتی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ہر اپوزیشن جماعت اپنے مفادات کی آبیاری کے لیے فیصلے کر رہی ہے۔ یہ الزام بھی تواتر سے لگ رہا ہے کہ بیک چینل کے ذریعے کچھ مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔ مریم نواز کا ملک بھر میں شعلہ نوائی کے بعد جھاگ کی طرح بیٹھ جانا اور بیماری کے حوالے سے خود کو سیاست سے تھوڑا پیچھے ہٹانا بھی ایک معمہ ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی ضمانت پر رہائی اور اس سے چند ہفتے قبل ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کا بھی جیل سے باہر آ جانا یقینا بعض حلقوں کی طرف سے شریف برادران کے لیے ممکنہ نرم گوشہ پیدا ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ خان صاحب بڑے دھڑلے سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ میں این آر او نہیں دوں گا لیکن جس انداز سے اپوزیشن پر ہتھ ہولا رکھا جا رہا ہے اور مسلم لیگ کی ہارڈ لائن لیڈر شپ بھی حکومت کی مدت پوری کرنے کی باتیں کر رہی ہے تو پھر این آر او کیا ہوتا ہے۔ یہ باتیں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ سے ضرور پوچھی جائیں گی ابھی تک شہباز شریف میڈیا کے قابو نہیں آ ئے جیسے ہی آئے یہ سوال ان سے پوچھیں جائیں گے۔