Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Arif Nizami
  3. Mehaz Ilzam Tarashi Ya Homework Bhi

Mehaz Ilzam Tarashi Ya Homework Bhi

محض الزام تراشی یا ہوم ورک بھی!

اس کے باوجود کہ وفاق اور پنجاب میں عمران خان کی رضا، منشا اور ڈھب کی نگران حکومتیں آئی ہیں، تحریک انصاف ان کی کارکردگی سے ناخوش ہے حالانکہ نگران حکومت ان کے آگے کورنش بجا لا رہی ہے جس انداز سے عمران خان کے دست راست اور فنانسر زلفی بخاری کو ای سی ایل پر نام ہونے کے باوجود ہنگامی طور پر خصوصی اجازت لیکر عمرہ پر ساتھ لے جایا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کے مترادف قانون کا اطلاق دوسرے لوگوں پر ہوتا ہے ان پر نہیں۔ اگر یہی حرکت میاں نواز شریف یا شہباز شریف نے کی ہوتی تو پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چودھری نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا۔ واضح رہے کہ نگران وزیر داخلہ اعظم خان عمران خان فاؤنڈیشن کے باقاعدہ رکن ہیں۔ بعد از خرابی بسیاراب اطلاعات ہیں کہ نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے کہ خصوصی امتیازی سلوک کیوں کیا گیا؟ ۔ دوسری طرف خواتین کی خصوصی نشستوں کے حوالے سے پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو جو لسٹ فراہم کی اب پی ٹی آئی کے سربراہ کا کچھ موڈ تبدیل ہو گیا ہے، وہ فہرستوں میں ترجیح بدلنا چاہ رہے ہیں۔ شیریں مزاری نے واضح کر دیا ہے کہ لسٹ انہوں نے تیار نہیں کی، ویسے آج کل منزہ حسن زیادہ ان ہیں، یہ وہی ہیں جنہوں نے 2013ء میں فوزیہ قصوری کو آؤٹ کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ الیکشن کمیشن کا استدلال درست ہے کہ اب لسٹ واپس لینے یا اس میں ترجیح تبدیل کرنے کی آخری تاریخ گزر چکی ہے لہٰذا کوئی تبدیلی نہیں ہو سکے گی لیکن خان صاحب کو کون سمجھائے؟ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں خود قانون ہیں اور دیگر سیاستدانوں پر جو قواعدوضوابط نافذ ہوتے ہیں وہ ان کیلئے نہیں ہیں۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کی طرف سے نگران حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ پیر کو جبکہ ابھی عید کی چھٹیاں ختم بھی نہیں ہوئی تھیں، فواد چودھری نے دھواں دار پریس کانفرنس کر ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومتوں کی کارکردگی ناقص ہے کیونکہ انہوں نے ابھی تک پنجاب اور سندھ میں بیوروکریسی کے تبادلے نہیں کئے جو ان کے مطابق نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کے ذاتی ملازموں کی طرح ہیں۔ فواد چودھری کو اپنا سب ہرا ہی نظر آتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بیوروکریسی کی تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہاں تو پہلے ہی تمام بیوروکریٹس میرٹ پر تعینات ہیں، اس سادگی پہ کون نہ مر جائے!کیونکہ آئین کے آرٹیکل 220 کے مطابق وسیع تر تبادلے کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کی آشیرباد کے بغیر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ فواد چودھری نے اپنی اس پریس کانفرنس میں اپنے دائمی دشمن کے خوب لتے لئے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کا پرانا منترہ دہرایا ہے کہ افتخار محمد چودھری اور خلیل رمدے کی ملی بھگت سے 2013ء کا الیکشن آراوز کا الیکشن تھاحالانکہ اس مضحکہ خیز الزام کی تحقیق بھی ہو چکی ہے اور تردید بھی۔ فواد چودھری کی سابق چیف جسٹس کی دو عملیوں کے حوالے سے بہت سی باتیں درست بھی ہیں لیکن اصل مسئلہ جس کیلئے پریس کانفرنس کی گئی اور جسٹس افتخار محمد چودھری کو شدید ہدف تنقید بنایا۔ سابق چیف جسٹس کا بطور امیدوار الیکشن کمیشن میں یہ اعتراض ہے کہ عمران خان کی غیر منکوحہ دوست سیتا وائٹ کے بطن سے ٹریان پیدا ہوئی جس کا عمران خان نے پہلے تو اعتراف ہی نہیں کیا لیکن بعد ازاں وہ مان گئے کہ وہ ان کی ہی بیٹی ہے۔ ٹریان جو اب جوان ہو چکی ہے اور ان کی سابق اہلیہ جمائما اسے اپنی بیٹیوں کی طرح ہی پال رہی ہیں۔ اس معاملے میں جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری کا رکیک ذاتی حملہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ وہ آرٹیکل 62، 63 کے تحت عمران خان کو نااہل قرار دلوانے کے چکر میں تھے لیکن پی ٹی آئی والوں نے سکھ کا سانس لیا کہ ان کے سربراہ کے کاغذات نامزدگی منظور ہو گئے اور الیکشن کمیشن نے تکنیکی بنیادوں پر جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کے اعتراضات مسترد کر دئیے۔ ایسے پست حملے پر تو شریف برادران بھی نہیں اترے جنہیں پی ٹی آئی والے دن رات گالیاں دیتے ہیں لیکن فواد چودھری نے فوراً یہ الزام داغ دیا کہ ریحام خان والا وار خالی جانے کے بعد یہ سب کچھ مسلم لیگ ن ہی کروا رہی ہے۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے اس وقت ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز لندن میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ میاں صاحب ان کی علالت کے بہانے سیاست کر رہے ہیں مبنی برانصاف نہیں ہے۔ پی ٹی آئی بھی خوب ہے ایک طرف ان کی صحت یابی کیلئے دعا کے پیغامات اور پھول بھجوا رہی ہے دوسری طرف الزام تراشی کی سیاست بھی کر رہی ہے۔ میڈیا میں پی ٹی آئی کے بھونپو دعویٰ کر رہے ہیں ہارلے سٹریٹ کلینک تو باقاعدہ ہسپتال ہی نہیں۔ یہ سارا شریف فیملی کا ڈرامہ ہے حالانکہ ہارلے سٹریٹ کلینک باقاعدہ لندن میں ہسپتال ہے جہاں سرطان کے علاج کی جدید ترین سہولتیں اور سپیشلائزیشن موجود ہیں۔ عام انتخابات میں ایک ماہ سے چند دن زائد کا وقت رہ گیا ہے۔ یہ موقع امیدواروں کو فائنل کر کے بھرپور انتخابی مہم چلانے کا ہے۔ 2013ء کے مقابلے میں تحریک انصاف کیلئے حالات خاصے موافق ہیں، سارے واویلے کے باوجود نہ تو عبوری حکومتیں اور نہ ہی ان کے نیچے انتظامیہ مسلم لیگ کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہیں، لہٰذا آنے والے انتخابات کو آر اوز کا الیکشن نہیں کہا جا سکتا۔ دوسری طرف میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نیب میں کرپشن کے کیسز میں اس حد تک جکڑے ہوئے ہیں کہ ان کیلئے بچت کا راستہ نظر نہیں آرہا۔ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور میاں نواز شریف کے درمیان کشیدگی کوئی نئی خبر نہیں۔ اس طرح عدالت عظمیٰ سے بھی انہیں کسی قسم کے ریلیف کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ عمران خان الیکٹ ایبلز کی کثیر تعداد اپنی صفوں میں شامل کر چکے ہیں اور 45 فیصد ٹکٹ بھی انہیں دئیے گئے ہیں۔ ان تمام عوامل کے باوجود عمران خان کو بھی دیگر لیڈرز کی طرح الیکشن کا سامنا کرنا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی میں ایک کروڑ 48 لاکھ 74 ہزار 104 ووٹ لیکر 47.60 فیصد نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ تحریک انصاف نے 76 لاکھ 79 ہزار 954 ووٹ لیکر قریباً دس فیصد اور پیپلز پارٹی نے 69 لاکھ11 ہزار 218 ووٹ لیکر 13.65 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ پنجاب میں ایک کروڑ 13 لاکھ 65 ہزار 363 ووٹوں کیساتھ 146 نشستیں حاصل کر کے مسلم لیگ ن نے اسی فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ تحریک انصاف نے 49 لاکھ 51 ہزار 216 ووٹ لیکر 5.33 فیصد نشستیں جیتی تھیں۔ ان اعدادوشمار کی روشنی میں اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں گوناں گوں اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ انتخابات بقول ان کے چرائے گئے تھے پی ٹی آئی کو بہتر نتائج کیلئے محض الزام تراشی کے بجائے کافی محنت اور ہوم ورک کرنا پڑے گا۔ عمران خان نے نادرا کے چیئرمین پر الزام لگایا ہے کہ وہ بھی مسلم لیگ ن کے ایجنٹ ہیں اور انہوں نے نادرا کا سارا ڈیٹا خاموشی سے مسلم لیگ ن کے حوالے کر دیا ہے۔ انہوں نے ان کی شکایت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے، اس معاملے کی یقیناً بے لاگ تحقیقات ہونی چاہئے۔ تاہم پی ٹی آئی اور میڈیا پر اس کے حواریوں کو الیکشن ایکٹ 2017ء کا دوبارہ مطالعہ کرنا چاہئے جس کے مطابق یہ لسٹیں کوئی قومی راز نہیں رہیں۔

Check Also

Wardi Ke Shoq

By Saira Kanwal