انٹیلی جینٹ لیڈر شپ کی اشد ضرورت
طویل عرصے کے بعد لاہور میں دہشت گردی کے سنگین واقعہ سے خوف و ہراس پھیل گیا ہے، جوہر ٹاؤن میں حافظ سعید کی اقامت گاہ کے قریب ہی ہونے والی اس دہشت گردی کا مقصدحا فظ صاحب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کہاجا سکتا ہے لیکن حا فظ سعید تو پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے وہاں موجود نہیں تھے۔ بھارت کی موصوف کو ختم کرنے اور ان سے شدید نفرت جس کا سب کو علم ہے، کا وقتاً فوقتاًاظہار ہوتا رہتا ہے۔ بھارت مسئلہ کشمیر کا پرامن حل نکالنے کے بجائے کشمیرمیں ہونے والی تمام کارروائیوں کا ملبہ حافظ صاحب اور ان کی کالعدم قرار دی گئی جما عت الدعوۃ پرڈالتا ہے۔ بھارت مختلف فورمز پر یہ پراپیگنڈاکرتا چلا آ رہا ہے کہ پاکستان نے حا فظ سعید اور ان کی تنظیموں کو پناہ دے رکھی ہے اور وہ (بقول بھارت) پورے ثبوت ہونے کے باوجود ان کے خلاف کا رروائی کرنے سے قاصر ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و ستم کو چھپانے اور ان سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے گاہے بگاہے اسلام آباد پر بھونڈے الزامات لگاتا رہتا ہے، اگر پاکستان نے کارروائی نہیں کی تو حافظ سعید اور ان کے قریبی ساتھی کئی کئی سال قید کی سزاجیل میں کیسے کاٹ رہے ہیں جبکہ ان کی جماعت پر کافی عرصے سے پابندی اور تعلیمی و دیگر ادارے بندیا سرکاری تحویل میں ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نر یندرمودی مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام سے فراڈ بازی کے ساتھ ساتھ ان پر ظلم وستم ڈھانے کی روش پر قائم ہے۔ حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا " ہندوستان کشمیریوں پر بندوقیں تان کر اے پی سی بلا رہا ہے، نریندر مودی ہر روز نیا ڈرامہ کرتے ہیں، انہیں آج اچانک کشمیر کی یاد آگئی، مودی نے آرٹیکل 370 اور 35A ختم کر کے کشمیریوں کا بنیادی حق چھین لیا، انہوں نے اپنے کٹھ پتلی لوگوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلا رکھی ہے، دو سال قبل ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کا قبرستان بنانے کا پلان سوچا تھا، کیا دنیا اندھی ہو گئی، بھارتی بربریت نہیں دیکھ رہی، کشمیریوں کے اصل رہنما جیل میں بند ہیں، حریت رہنماؤں کو جیل میں ٹارچر کیا جا رہا ہے"۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہاں کچھ حلقوں میں یہ تاثر کیسے پیدا ہو گیا ہے کہ بھا رت کو احساس ہو گیا کہ آرٹیکل 370سے بات نہیں بن رہی اور وہ کشمیری رہنماؤں کی اے پی سی بلا کر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا خواہشمند ہے۔ شکر ہے کہ خرابی بسیا ر سے پہلے ہی یہ احسا س ہو گیا ہے، مودی کی طرف سے جمعرات کو بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں ان نام نہاد کشمیر لیڈروں کو مدعو کیا گیا لیکن انہیں یہاں بھی منہ کی کھانا پڑی۔ نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد پہلی مرتبہ کشمیری سیاستدانوں کے ساتھ اہم اجلاس کیالیکن اس میں کسی اہم فیصلے کا اعلان نہیں کیا گیا اور متعدد کشمیری رہنماؤں نے کہا انہوں نے بھارت پر 2019 میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس لینے پر زور دیا۔ بعد ازاں مودی نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ایک ٹویٹ میں اجلاس کو"ترقی یافتہ اور پراگریسو کشمیر کی جانب جاری کوششوں میں شامل ایک قدم سے تعبیر کیا، ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری جمہوریت کی یہ سب سے بڑی طاقت ہے کہ ٹیبل پر بلاتفریق بیٹھنے اور تبادلہ خیال کی صلاحیت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے جموں و کشمیر کے رہنماؤں سے کہا یہ عوام ہی ہیں، بالخصوص نوجوان، جنہوں نے جموں و کشمیر کو سیاسی قیادت فراہم کی ہے اور ان کی خواہشات کو مکمل طور پر پورا کردیا ہے، ہماری حکومت کی ترجیح خطے میں نچلی سطح پر جمہوریت کومضبوط کرنا ہے، حلقہ بندی تیزی سے کرنی ہوگی تاکہ انتخاب ہوسکیں اور جموں و کشمیر کو منتخب حکومت ملے جو کشمیر کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔"۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے بھی اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول کرلی تھی۔ اس کے باوجود مقبو ضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے بیان کو سراہنا پڑے گا۔ جس میں انہوں نے سوال کیا کہ بھا رت دوحا میں طالبان سے بات کر رہاہے تو پاکستان سے ڈائیلاگ کرنے میں کیا حرج ہے؟ ، بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں بھی ڈائیلاگ کرنا چاہیے۔ اے پی سی میں بھی محبوبہ مفتی نے نریندر مودی کو کھری کھری سنا دیں۔ انہوں نے کہا" کشمیر کے لوگ مصیبت میں ہیں، آپ کو کشمیریوں کو ان کا حق دینا ہوگا، آپ نے کشمیر میں غیرقانونی اور غیرآئینی اقدامات کئے، انہوں نے اپنے عزائم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے تمام اقدامات کے خلاف جدوجہد کریں گے، محبوبہ مفتی نے اپنے سابق موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا آپ نے پاکستان سے بات کرکے سیزفائرکرایا، اچھی بات ہے تاہم انہوں نے استفسار کیا کہ اگر آپ سرحدوں پر سیزفائر کراسکتے ہیں تو پھر پاکستان سے بات چیت کیوں نہیں کرسکتے "؟
یہاں یہ سوال پید اہوتا ہے کہ حافظ سعید کی اقامت گاہ پر حملے کا تعلق اس نام نہاد بھارتی کانفرنس سے تو نہیں تھا؟ بھارت حافظ سعید کو ختم تو نہیں کرسکا لیکن کم از کم یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ کوشش کر رہا ہے تا کہ بھارت نواز کشمیریوں کے سامنے نمبر بنا سکے۔ جس کار کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا گیا، اس میں 15سے 20کلو وزنی مواد رکھا گیا تھا اور اسے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑایا گیا۔ یہ کسی عام آدمی کا کام نہیں بلکہ ٹرینڈ دہشت گرد کا ہی لگتا ہے۔ یہ واقعہ کسی بہت بڑے خطرے کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں چوکنا ہو کر رہنا پڑے گا۔ فطری طورپر پاکستان کے بارے میں بھارت کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ یہ واقعہ ایک ایسے خطرے کے طور پر سامنے آیا ہے کہ نئی دہلی اور کابل پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر برپا کرنے جارہے ہیں۔ جوں جوں مودی کی جادو گری بھارت میں ناکام ہوتی جا رہی ہے توں توں وہ پاکستان کے خلاف دباؤ بڑھائے گا۔ کووڈ کی وجہ سے بھارتی معیشت بالکل بیٹھ گئی ہے۔ بھارت اور اس کے حامیوں کے لیے یہ بڑی سبکی ہے کیونکہ اس طرح مغرب کے نزدیک اس کانام نہاد سرمایہ، طاقت اور منی سپر پاور ہونے کا ز عم خاک میں ملتا جا رہا ہے۔ لہٰذا بی جے پی کی حکومت روایتی عیاری ومکاری سے کام لیتے ہو ئے پاکستانی محاذ کو گرم کر کے دنیا کی تو جہ اپنے بحرانوں سے ہٹانا چاہتی ہے۔
اس مرحلے پر یہ کس قدر افسوس ناک ہے کہ پاکستانی قوم اور سیاستدان بھارتی عزائم کے خلاف بنیان مرصوص نہیں بن پائے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سرپٹول بھرپور طریقے سے جاری ہے اور اس میں تشو یشناک حد تک اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ اس صورتحال سے ظاہر ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کو فائدہ ہی پہنچے گا۔ اس حوالے سے ملک کا سنجیدہ طبقہ اور میڈیا کا موثر حصہ بھی ہوش سے کام لینے کی تلقین کررہا ہے لیکن ان کی نہیں سنی جا رہی۔ کشمیر کے بارے میں پا لیسی گومگو کا شکار ہے اور ایک قدم آ گے دوقدم پیچھے کے مترادف ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمو دقریشی بھی لمبی لمبی اور دھواں دھار تقریروں سے کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور لگتا ہے کہ ہماری حکومت کو یہ ادراک ہی نہیں کہ کشمیر کے معاملے کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے حتیٰ کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت میں کبھی کنفیوڑن کی کیفیت ہے۔ ان حالات میں ہمیں آپس کے معاملات درست کرنے کی بھرپورسعی کرنی چاہیے۔
یہ اچھی خبر ہے کہ نیشنل انٹیلی جنس رابطہ کمیٹی کا ادارہ این آئی سی سی فعال ہو گیا ہے جس کا بدھ کو آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز میں وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت اجلاس ہوا، جس میں کشمیر اور افغانستان کی صورتحال پر بریفنگ کے علاوہ اہم قومی اور داخلی سلامتی سے متعلق امور کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ خدشہ یہی ہے کہ بجائے کوئی کام کرنے کے متذکرہ ادارہ بھی محض افسروں کی موٹی موٹی مراعات کی آماجگاہ بن کر نہ رہ جائے کیونکہ اس وقت پاکستان کونہ صرف انٹیلی جنس معلومات بلکہ انٹیلی جینٹ لیڈر شپ کی بھی اشد ضرورت ہے۔