اتحاد، ایمان، تنظیم
یوں تو قائداعظم محمد علی جناح کی قوم کو دی گئی ہر ہدایت ہی بے مثل اور لاجواب ہے لیکن یہ تین لفظ اتحاد، ایمان اور تنظیم تو ایسے ہیں کہ اگر ان کے صحیح مطلب، رُوح اور غایت کو سمجھ کر ان پر خلوصِ دل سے عمل کیا جائے تو ہم آج بھی ایک ایسی قوم کی تشکیل کرسکتے ہیں جس سے بہتر قوم ڈھونڈنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوجائے گا لیکن اُس میں افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے ان پر عمل پیرا ہونے کے بجائے زیادہ وقت ان لفظوں کی ترتیب کو آگے پیچھے کرنے میں ضایع کردیاہے اور اس کو اپنی قومی زندگی کا اصلِ اصول اور اپنی پہچان بنانے کے بجائے گھروں میں لگائے جانے والے ایک آرائشی اور نمائشی طُغرے کی شکل دے دی ہے۔
مثال کے طور پر کراچی شہر کی تعمیرِ نو اور شہری سہولتوں کی فراہمی اور بحالی کے لیے اُس تصویر کو دھیان میں لایئے جس میں سارے اسٹیک ہولڈرز ایک ساتھ بیٹھ کر اور اجتماعی فلاح کے لیے سارے اختلافات اور رنجشوں کو بُھلاکر باہم مشورہ کرتے ہوئے نظر آرہے تھے اور شائد قائد کی رُوح بھی بہت دنوں بعد اس منظر کو دیکھ کر مسکرائی ہوگی مگر اس محفل کے برخواست ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ایک ایک کرکے جب ان تینوں اصولوں کے چہرے آئینوں کی طرح ٹوٹے اور بکھرے ہوں گے تو اس مسکراہٹ پر کیا گزری ہوگی اور اس کے تصور سے ہی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے کہ اتنے پاکیزہ اور زندہ لفظوں کی ایسی بے حرمتی تو شائد کوئی دشمن بھی نہیں کرسکتا تھا۔
اصولاً قائد کی برسی پر اس طرح کی بات سے آغاز کرنا بنتا نہیں تھا کہ میں تو خود ہمیشہ ہر چیز میں اُمید اور بہتری کے پہلو دیکھنے پر یقین رکھتا ہوں لیکن یہ بھی قائد ہی کی تعلیم اور تربیت ہے کہ حقائق سے کبھی نظریں نہ چراؤ اور سچ پر کبھی سمجھوتہ نہ کرو کہ ایسا کرنے سے نیند تو شائد آجائے مگر صبحِ صادق کی خاموشی ہمیشہ کے لیے آنکھوں سے اوجھل ہوجائے گی اور ہم ایک ایسے خوابوں سے محروم اور بے معنی معاشرے کے فرد بن جائیں گے جن کو اگر کوئی سراب نظر نہ آئے وہ خود اُسے تخلیق کرلیتا ہے، اس کیفیت کو میں نے کئی برس پہلے ایک نظم کی شکل میں بیان کیا تھا، سو آیئے قائد سے نظر چُرا کر اس کو ایک بار پھر مشترکہ خود کلامی کے انداز میں پڑھتے ہیں۔
دائروں میں چلتے ہیں
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں گھٹتے
آرزوئیں جلتی ہیں
جس طرف کو جاتے ہیں
منزلیں تمنّا کی
ساتھ ساتھ چلتی ہیں
صبحِ دم ستاروں کی
تیز جھلملاہٹ کو
روشنی کی آمد کا
پیش باب کہتے ہیں
اِک کرن جو ملتی ہے
آفتاب کہتے ہیں
دائرہ بدلنے کو انقلاب کہتے ہیں
آج کل میں مسعود مفتی صاحب کی نئی کتاب "دو مینار" پڑھ رہا ہوں، اُس کے آغاز میں انھوں نے ایک قرآنی آیت درج کی ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ
"اُس عورت کی طرح مت بنو جو اپنا سُوت کات کر پہلے تو اُسے پکا کرتی ہے اور پھر اُسے نوچ نوچ کر توڑ دیتی ہے"اس کے بعد اپنے پیشِ لفظ میں انھوں نے پاکستان اور قائداعظم کے پاکستان کے حوالے سے کچھ سطریں لکھی ہیں جو بیک وقت رُوح فرسا بھی ہیں اور چشم کشا بھی۔ وہ کہتے ہیں، "آج کے نوجوان نے قائداعظم کا پاکستان نہ تو دیکھا ہے نہ اس کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہے۔
قائداعظم کے پاکستان کی عمر صرف گیارہ برس تھی 1947 سے 1958تک، اس کے بعد یہ اغوا ہوگیا اور پچھلے ساٹھ برسوں سے سیاسی، غیرسیاسی اور مذہبی اقتدار پرستوں کے ذاتی مفادات اور باہمی گٹھ جوڑ کا یرغمال ہے۔ قائداعظم کا پاکستان ایک فلاحی ریاست تھی اس کے شہری باکردار تھے… باکردار لیڈروں کے پروردہ تھے، آج کا پاکستانی نوجوان یہ سب کچھ نہیں جانتاکیونکہ اُسے دانستہ لاعلم رکھا گیا ہے۔ اغوا کرنے والے نہیں چاہتے کہ اغوا ہونے والے کی پہچان ہوسکے یا اُس کا ذکر بھی ہو"۔
بلاشبہ یہ ہماری تاریخ کا ایک رُخ ہے اور اپنی حد تک بالکل صحیح بھی ہے جس کی زندہ مثال اور ثبوت ہمارے سیاسی ٹاک شوزہیں کہ جن کی وجہ سے آج کے نوجوان کا ذہن سلجھنے کی بجائے مزید اُلجھتا جا رہا ہے کہ یہ بھی نا دانستہ طور پر ہی سہی پاکستان کے انھی اغوا کنندگان کی چہرہ کشائی کے بجائے رُوپوشی میں معاونت کر رہے ہیں جس کے باعث دِن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے اور جن کی وجہ سے اتحاد، ایمان اور تنظیم کی برکتیں ہمارے درمیان میں سے اُٹھ گئی ہیں۔
اس صورتِ حال سے نکلنے اور اس کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قائداعظم اور اُن کے اُس پاکستان کو سمجھنے اور ڈھونڈنے کی کوشش کریں جو آج بھی ہاتھوں میں پُھول اور چراغ لیے ایک ایسے رستے پرکھڑے ہیں جو کئی غلط موڑ کاٹنے کی وجہ سے موجود ہوتے ہوئے بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ آیئے!اس رستے پر جلد از جلد واپسی کی دُعا کے ساتھ اُس نظم کو ایک دفعہ پھر سے دیکھیں کہ جس میں قائد کے نمودار ہوتے ہی سب کچھ بدل گیا تھا اور جس کی روشنی کا فیض آج کے اندھیروں کو بھی یک سر بدل سکتا ہے۔
کوئی چاند چہرا کُشا ہوا
وہ جو دھند تھی وہ بکھر گئی
وہ جو حَبس تھا وہ ہَوا ہُوا
کوئی چاند چہرا کُشا ہوا تو سمٹ گئی
وہ جو تیرگی تھی چہار سُو
وہ جو برف ٹھہری تھی رُوبرو
وہ جو بے دلی تھی صدف صدف
وہ جو خاک اُڑتی تھی ہر طرف
کسی خوش نظر کے حِصار میں
کسی خوش قدم کے جوار میں
کوئی چاند چہرا کشا ہُوا
مِرا سارا باغ ہرا ہوا