ایک کبھی نہ بھولنے و الا دن
چوہتر سال پہلے ایک دن ایسا بھی آیا تھا
جب اک سُورج نکلنے پر
چمکتی دُھوپ پھیلی تھی تو منظر جگمگایا تھا
اگرچہ میں نے وہ منظر بچشمِ خود نہیں دیکھا
مگر جب یاد کرتا ہوں تو سانسیں گنگناتی ہیں
کئی صدیوں سے صحرا میں بکھرتی ریت کی صورت
کروڑوں لوگ تھے جن کا
نہ کوئی نام لیتا تھا نہ کچھ پہچان باقی تھی
ہر اک رستے میں وحشت تھی
سبھی آنکھوں میں حسرت تھی
نہ آبا کی ہُنر مندی نہ اگلی شان باقی تھی
کھلا سر پر جو اُس اعلان کا خوشبو بھرا سایا
ہلالی سبز پرچم کا وہ ٹھنڈا دلربا سایا
تواُن کی جاں میں جاں آئی
رگوں میں روشنی دوڑی دہن میں پھر زبان آئی
چوہتر سال پہلے کا وہ اک احسان مت بُھولو
خدا کی خاص رحمت ہے یہ پاکستان مت بھولو
آج صبح فیس بک پر برادرِ عزیز میاں عبدالشکور کے فرزند اورمیرے عزیز بھتیجے ابوزر کی آواز اور ویڈیو گرافی میں اپنی یہ نظم سُنی تو جہاں رُوح سرشارہوئی وہاں یہ سوچ کر اس کا لطف مزید بڑھ گیا کہ اگرچہ یہ نظم چند برس قبل لکھی گئی تھی مگر یہ ہماری اُردو گنتی کا کمال ہے کہ اس کے کئی ہندسے ہم وزن بھی ہیں اور ہم آواز بھی یعنی آپ آسانی سے چھیاسٹھ کی جگہ چوہتر رکھ سکتے ہیں۔ دوسری خوبی جسکی وجہ سے میں نے اس نظم کو یومِ آزادی کے خصوصی کالم کا حصہ بنایا ہے اس کا آخری شعر ہے
چوہتر سال پہلے کا یہ اک احسان مت بُھولو
خدا کی خاص رحمت ہے یہ پاکستان مت بُھولو
خود تنقیدی اور خود احتسابی بلاشبہ افراد اور اقوام دونوں کے لیے یکساں طور پر لازمی اور ضروری ہیں کہ اس کی مددسے خامیوں کو دُور اور خوبیوں کو اُجاگر کیا جاسکتا ہے اسی طرح زندگی میں سنگ میل بن جانے والے دن بھی ایک پُل کی طرح ہوتے ہیں کہ جس پر کھڑے ہوکر آپ آگے اور پیچھے دونوں طرف دیکھ سکتے ہیں لیکن ہر عمل کی طرح اس کا بھی ایک پروٹوکول ہوتا ہے کسی ملک کے قیام یا اُس کی آزادی کا دن بھی ایک مخصوص پروٹوکول کا متقاضی ہوتا ہے کہ جس طرح شادی کے موقع پر دلہن کی عیب جوئی خلافِ آداب سمجھی جاتی ہے اسی طرح آزادی کی خوشی کو بھی روٹین کی بے جا تنقیس آمیز تنقید کا ہدف بنانا کوئی مستحسن فعل نہیں کہ یہ کام بعض احباب ایک مشن کے طور پر کرتے ہیں اور تصویر کا صرف تاریک رُخ ہی دیکھنا اور دکھانا اُن کی عادت بن جاتی ہے میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ بے شک ہم وطنِ عزیز کو بوجوہ ٹھیک طرح سے چلا نہیں پائے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم نے یہ بنایا ٹھیک نہیں تھا۔
گزشتہ کچھ برسوں سے ہر یومِ آزادی پر کچھ مہربان مولانا عبدالکلام آزاد کی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کچھ پیش گوئیوں کے حوالے دیتے ہیں جن کی صحت اور نوعیت سے قطع نظر دیکھنے اور پوچھنے والی بات یہ بھی ہے کہ مولانا مرحوم نے ہندوستانی مسلمانوں کے ایک علیحدہ وطن کے حوالے سے اپنے اختلاف رائے کا جو اظہار کیا تھا وہ اپنی جگہ مگر اس کے مقابلے میں جو حل انھوں نے پیش کیا تھا اس کا حساب کون دے گا۔ کیا بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی زندگی کسی بھی اعتبار سے پاکستانیوں سے بہتر ہے؟
کیا اُن کی معیشت، معاشرت، مذہب، تہذیب یہاں تک کہ عمومی سطح پر پوری زندگی ایک جہنم کا منظر پیش نہیں کررہی؟ مقصد کسی مناظرے یا بحث میں پڑنا نہیں صرف یہ احساس دلانا ہے کہ ہمارا دشمن تقسیمِ ہند کا فارمولا نہیں وہ جہالت، پسماندگی، غربت، استحصال اور بے انصافی ہے جس نے تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں کی طرح ہمیں بیک فُٹ پر رکھا ہوا ہے۔
پاکستانی معاشرے کو درپیش چیلنجز اور مسائل کا تعلق ہماری اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ ہماری تاریخ اور جغرافیے سے بھی ہے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی ہماری کم علمی فرقہ پرستی اور آبادی کے بے ہنگم پھیلائو کی وجہ سے ہماری راہ کی دیوار بنے ہوئے ہیں اس پر مستزاد ہماری عدلیہ، انتظامیہ، فوج اور سیاستدانوں کا عمومی کردار ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے ادارے کے مفادات اور تحفظات سے باہر نکل کر قوم کی تعمیر میں اپنا بھرپور حصہ نہیں ڈال سکا لیکن یہ تقدیر کا کوئی دائمی فیصلہ نہیں اور یہ صورتِ حال ناقابلِ اصلاح بھی نہیں ہے اقبال نے کہا تھا۔
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
میں اس بات سے کوئی زیادہ متفق نہیں ہوں کہ ساٹھ ستر سال قوموں کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ آج ہم جس دنیا میں رہ رے ہیں وہ صدیوں اور سالوں نہیں بلکہ مہینوں اور دنوں میں بدل رہی ہے سو ہمیں ہر محاذ پر بیدار اور چوکس ہونا پڑے گا اگر میرے اس بیان کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے تو میں بہت اعتماد سے یہ کہنا چاہوں گا کہ تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود ہم مجموعی طور پر بہتری کی طرف جارہے ہیں۔
ہم دنیا کے دو سو سے زیادہ ممالک میں اپنے حجم، صلاحیت اور کارکردگی کے حوالے سے اب بھی ایک زندہ، متحرک اور بڑی قوم ہیں ضرورت اُسی اتحاد، ایمان اور تنظیم کی ہے جس کا ہم نے 74 برس قبل اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا اگر آج سے ہم خود کلامی کی جگہ مکالمے کا استعمال شروع کردیں اور اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں سے وفاداری نبھانے کے ساتھ ساتھ مل کر پاکستان کو حقیقی معنوں میں مادرِ وطن کا رتبہ اورمقام دینا شروع کردیں تو اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہم وہ سب کچھ کرکے دکھا سکتے ہیں جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔
سو آخر میں میں ایک بار پھر اُس شعر کی طرف دیکھتا اور اُس میں موجود جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں کہ ربِ کریم شکر کرنے والوں کے لیے ہمیشہ آسانیاں پیدا کرتاہے اور اُن کے ارادوں میں برکت ڈالتا ہے۔
خدا کی خاص رحمت ہے یہ پاکستان مت بھولو