سپن ڈاکٹرز کی جادوگری
صحافت میں اپنی نصف سے زیادہ زندگی گزارنے کے بعد اب دور سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کسی خاص کیس میں کون سا فریق آواز اونچی کر کے حقائق بدلنے کے چکر میں ہے۔ ایسا بہت بار دیکھا کہ مختلف جماعتوں یا مقتدر قوتوں کے میڈیا ایکسپرٹس جنہیں آج کل سپن ڈاکٹر (Spin Doctor)کی دلکش اصطلاح سے پکارا جاتا ہے، یہ لوگ کسی بھی معاملے کو یوں تیزرفتاری سے موڑ دیتے ہیں کہ آدمی حیرت سے یہ تماشا دیکھتا رہ جاتا ہے۔
ماضی میں بہت بار ایسا ہوا۔ ہماری ماضی قریب کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات کی گواہی دیتی ہے۔ کسی روز اس پر تفصیل سے بات کریں گے۔ ابھی صرف عمران نیازی والے معاملے کو دیکھ لیں۔ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ کرکٹر جس نے اکیس سال قومی ٹیم کے لئے کرکٹ کھیلی، کپتان رہا، ملک کے چند مشہور ترین آدمیوں میں شمار ہوا۔ اس کے بعد سوشل ورک اور پھر سیاست کی طرف آیا، اس میں دس پندرہ سال گزر گئے۔ اس تمام عرصے میں وہ عمران خان کے نام سے معروف رہا۔ صرف چھ سات سال پہلے جب وہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے لئے خطرہ بنا تو اچانک ہی مسلم لیگی تھنک ٹینکس کے سپن ڈاکٹرزمیں سے کسی کو نادر خیال آیا اور تب سے عمران خان کو دانستہ عمران نیازی کہنا شروع کر دیا۔
یہ سب کچھ فضول اور غیر منطقی تھا۔ نیازی پٹھانوں کا معروف قبیلہ ہے، پنجاب میں میانوالی ان کا مستقر ہے، مگر یہ ملتان، ڈیرہ اسماعیل خان بلکہ بہاولپور وغیرہ میں بھی آباد ہیں، نیازی قبیلہ افغانستان میں بھی آباد ہیں۔ ن لیگی سپن ڈاکٹر دراصل عمران خان کے ساتھ نیازی لگا کر ان کی سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے منفی شہرت رکھنے والے جنرل امیر عبداللہ نیازی کے ساتھ مماثلت پیدا کرنا چاہتے تھے، حالانکہ نیازیوں میں اردو کا منفرد لب ولہجے کامنیر نیازی جیسا شاعر موجود ہے، علم وادب کے شعبوں میں کئی اور نامور لوگ بھی نیازی ہیں۔ آج سوشل میڈیا پر لیگی ٹرولز اسی لفظ نیازی کو بار بارطنز کے طور پر برتتے ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عمران خان کے شناختی کارڈ میں یہ نام ہے۔ حالانکہ لوگ جس نام سے معروف ہوں، اسی سے پہچانے جاتے ہیں۔ کبھی کسی سے پوچھا گیا کہ میاں تمہارا شناختی کارڈ والا نام کیا ہے، ہمیں بتائو، ہم اسے مشہور کرنا چاہتے ہیں؟ نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔
حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ مریم نواز صاحبہ کی آڈیو لیکس سامنے آئیں تو ن لیگی سپن ڈاکٹر ز نے بوکھلاہٹ میں کئی حربے استعمال کئے۔ مریم صاحبہ کی آواز اس قدر واضح اور غیر مبہم تھی کہ اسے جعلی کہنا ممکن نہیں تھا۔ اس لئے ایک پریس کانفرنس میں مریم نواز نے خود بھی تسلیم کر لیا کہ یہ ان کی اپنی آواز ہی ہے، جعلی آڈیو نہیں۔ مریم بی بی سے سوال پوچھا جاتا رہا کہ چند مخصوص میڈیا ہائوسز کو اشتہار نہ دینے کی بات کیوں کہی گئی؟ اس پر ن لیگی سپن ڈاکٹرز نے یہ وضاحت تخلیق کی کہ مریم صاحبہ اپنی پارٹی کے اشتہارات کی کمپین کا کہہ رہی تھیں۔
بات اس لئے نہیں بن سکی کہ ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے سے پہلے تو پارٹی میڈیا سیل بناتی ہیں، جیسے ہی وہ اقتدار میں آجائیں، فوری طور پر یہ میڈیا سیل بند کر دئیے جاتے ہیں۔ اس لئے کہ اب حکومتی فنڈز اور خرچوں سے کام کرنے والے کئی ادارے ان کے ماتحت آ جاتے ہیں۔ تب ہر کمپین سرکار کے خرچ پر چلائی جاتی ہے۔ یہی سب کچھ ق لیگ نے 2002سے 2007 تک کیا اور پھر پیپلزپارٹی نے اگلے پانچ برسوں تک اسی روایت کو دھڑلے سے آگے بڑھایا۔
مسلم لیگ ن 2013ء سے 2018ء تک مرکز میں برسراقتدار رہی، انہوں نے اس عرصے میں بطور جماعت ن لیگ کی کوئی کمپین نہیں چلائی، اشتہار سرے سے دئیے ہی نہیں گئے۔ ہر کمپین سرکاری بجٹ اور خرچ پر چلائی گئی۔ آج کل تحریک انصاف بھی یہی کر رہی ہے۔ اس لئے یہ بات تو سراسر غلط اور دروغ گوئی تھی کہ مریم صاحبہ اپنی پارٹی کے اشتہارات نہ دینے کی بات کر رہی تھیں۔
مریم صاحبہ کی دوسری آڈیو لیک نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ کیسے شدومد سے اپنی حکومت میں میڈیا پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی رہی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے میں کوئی راز نہیں تھا۔ صحافتی اور سیاسی حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ ان دنوں کیا ہوتا تھا اور کس طرح وزیراعظم ہائوس میں قائم کردہ مریم بی بی کا سیل کام کرتا تھا؟ یہ خبریں ان دنوں عام تھیں کہ وہ رات کو نیوز چینلز کی کوریج دیکھ کر اپنے پارٹی ترجمانوں کی تعریف یا ان کی کھنچائی کرتی ہیں اور پھر میڈیا کو کس طرح اشتہارات دینے یا روکنے ہیں، اس کا فیصلہ کرتی ہیں۔
مریم بی بی کی آڈیو لیکس نے صرف مہر تصدیق ثبت کی ہے اور عام آدمی تک بھی وہ سچ پہنچ گیا ہے، جس کا پہلے باخبر لوگوں کو علم تھا۔ اس حوالے سے سپن ڈاکٹرز کی عیاریاں اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں ہیں۔ مجھے بہت افسوس ہوا جب پرویز رشید جیسے سینئر شخص کو ان لیکس کا بچکانہ انداز میں دفاع کرتے دیکھا۔ حقائق جب سامنے آ جائیں تب خاموشی ہی نسبتا باوقار طریقہ ہے۔ کبھی غلطی کا عذر اس کی شدت اور کراہت کو بڑھا دیتا ہے۔ کاش ن لیگی سپن ڈاکٹر اس کا ادراک کر پائیں۔
آج کل کراچی میں نسلہ ٹاور کے انہدام کے حوالے سے بھی خوفناک قسم کی سپن ڈاکٹرائن دکھائی جا رہی ہے۔ کراچی کا بلڈر مافیا، خوفناک حد تک کرپٹ بیوروکریسی، سندھ کی بدعنوان صوبائی حکومت اور میڈیا کا ایک حصہ حقیقی صورتحال کو انتہائی مختلف بلکہ متضاد انداز میں پیش کر رہا ہے۔ اپنی بدعنوانی اور سفاکی کو چھپانے کے لئے سپریم کورٹ کے ایک نہایت درست اور اعلیٰ فیصلہ کو کراچی دشمنی، مہاجر دشمنی، بزنس مین دشمنی اور نہ معلوم کون کون سی دشمنی کہا جا رہا ہے۔
بات بڑی سادہ ہے کہ نسلہ ٹاور میں بدترین قسم کی بدعنوانی ہوئی اور جتنی زمین بلڈر کے پاس تھی، اس نے اس سے ایک تہائی زیادہ سرکاری زمین پر قبضہ کر لیا۔ وہ زمین سروس روڈ کے لئے مختص تھی، جس پر بلڈر ناجائزقابض ہوگیا۔ پھرجیسا کہ ہمارے ہاں عام رواج ہے، پیسے دے دلا کر متعلقہ دفاتر سے اس کی منظوری بھی لے لی۔ عدالت تک معاملہ گیا تو اس نے کاغذات اور حقائق کا جائزہ لے کر نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم جاری کر دیااور اس کا خرچہ بلڈر سے لینے اور بعد میں ملبہ بھی بلڈر کے خرچ پر فوری اٹھانے کا حکم جاری کر دیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ نسلہ ٹاور کے متاثرین کو ان کی جائیداد کی ادائیگی تین ماہ کے اندر کی جائے۔ یہ کہا گیا کہ اگر بلڈر نہ دے تو دیگر جگہوں پر موجود اس کی زمین بیچ دی جائے۔ ویسے تو پراپرٹی کے مقامی ماہرین بتاتے ہیں کہ ایک بار ٹاور گرانے کے بعد جب خالی پلاٹ ہوجائے گا تویہ اتنا بیش قیمت ہے کہ اسے بیچ کر بھی متاثرین کو ادائیگی ہوسکتی ہے۔
معاملہ سادہ اور صاف ہے کہ کراچی میں ایسی بہت سی غیر قانونی عمارتیں بنائی گئی ہیں، ان کی منظوری رشوت دے کر لی گئی، مگر اصل غلطی اور گناہ تو بلڈر کا ہے جس نے قریبی سڑک، سروس روڈ یا سرکاری زمین پر قبضہ کر لیا۔ اس لئے اس معاملے میں ولن عدالت نہیں بلکہ بلڈر ہے۔ عدالت تو غلط کو درست کر رہی ہے اور آئندہ کے لئے ایسی مثال قائم کی جارہی ہے کہ کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہو۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس شہر کراچی کی فلاح وبہبود کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ اگر ان بلڈنگز کے ساتھ سروس روڈ قبضہ چھڑا کر بن جائے تو ا س پر کراچی کے شہری ہی چلیں گے، پنجاب یا کے پی والے تو قبضہ نہیں کر لیں گے؟ اس میں کراچی یا کراچی کے مکینوں کی بہتری ہے نہ کہ ان کی مظلومیت کا رونا رویا جائے۔
یہ سوال البتہ جائز ہے کہ جن اداروں اور لوگوں نے منظوری دی، ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ درست ہے۔ ان کے خلاف بھی کارروائی ہو۔ یہ عمل شروع بھی ہوچکا ہے، کئی کیسز میں غلط منظوری کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا عدالت نے حکم دیا ہے۔ متاثرین کی تلافی ضرور ہونی چاہیے۔ عدالتی فیصلے میں تین ماہ کے دوران ایسا کرنے کا کہا گیا ہے، اس میں کوتاہی نہ کی جائے۔ جہاں کہیں ایسی ناجائز اورغیر قانونی عمارتیں بنی ہیں، ان کے خلاف بھی کارروائی ہو۔
یہ یادرکھیں کہ کہیں سے تو شروع کرنا پڑے گا۔ ایسا ممکن نہیں کہ پہلے دنیا کے تمام چور پکڑ لئے جائیں پھر پہلے چور کو سزا دی جائے۔ پہلے چور کی سزا سے جوسلسلہ شروع ہوگا، وہی آخری چور تک پہنچے گا۔ بلڈر مافیا اور ان کے سپن ڈاکٹر دانستہ ایسا تاثر بنا رہے ہیں جیسے نسلہ ٹاور کے بلڈر پر ظلم ہوگیا۔ ایسا نہیں ہے، بلکہ ایک شاطر، دھوکے باز کو سزا ملی ہے۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ کسی عمارت کے نقشہ کی منظوری میں تاخیر پر تو جرمانہ لگا کرا سے ریگولرائز کیا جا سکتا ہے، مگر کسی نے ناجائز قبضہ کیا ہو تو اسے کیسے ریگولر کر دیا جائے؟ ایسا کہنا دراصل چالاکی اور ہوشیاری سے گرد اڑانا اور کنفیوژن پھیلانے کے مترادف ہے۔ آج کل یہی سپن ڈاکٹری کہلاتی ہے۔ عام قاری اورٹی وی دیکھنے والے عام ناظر ین کویہ بات سمجھنا ہوگی۔