عمران خان سو دن میں کیا ڈیلیور کر پائے؟
پہلے سو دنوں میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی کامیابیوں کی فہرست مرتب کرنا خاصا دشوار کام ہے۔ جمعہ والا کالم میں نے جمعرات کی شام تک دے دینا ہوتا ہے۔ جمعرات کو دن بھر کئی اخبارنویس دوستوں سے بات ہوئی، ان میں وہ بھی تھے جو تحریک انصاف کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان تمام دوستوں سے یہی درخواست کی کہ براہ کرم مجھے وزیراعظم عمران خان کی کامیابیوں کے حوالے سے آگاہ کریں تاکہ اپنے کالم میں یہ تفصیلات درج کر سکوں۔ یہ سوال کسی کو پسند نہیں آیا، اکثر نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ تمہاری مدد کریں، خود ہی ڈھونڈتے رہو۔ دو چار نے تو ناک بھوں چڑھا ئی کہ ایسا بے تک سوال کیا ہی کیوں۔ بعض دوست گستاخانہ لہجے میں روایتی لاہوری جگتیں لگاتے رہے، افسوس کہ اپنے پیارے قارئین کے لئے انہیں نقل نہیں کر سکتا۔ ایک صحافی دوست نے انتظار کرنے کا کہا اور پھر ایک طویل فہرست واٹس ایپ کر دی۔ اس میں کوئی دو ڈھائی سو کے قریب کارنامے اور نئے کام (Initiative)گنوائے جو تحریک انصاف حکومت نے تین ماہ میں کر ڈالے، تحریر کے آخر میں منقول لکھا تھا۔ معلوم نہیں یہ بدبخت منقول کون ہے، فیس بک پر دئیے جانے والے نصف سے زیادہ سٹیٹس میں تحریر کنندہ کی جگہ پر منقول لکھا ہوتا ہے۔ ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ دوست نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے یہ تحریر نقل کردہ ہے، کسی اور نے لکھی ہے اور عام طور پر مختلف جماعتوں کے میڈیا سیل کی جانب سے پریس ریلیز ٹائپ تحریر کو کاپی کر کے شیئر کرنے سے پہلے نیچے منقول لکھ دیتے ہیں تاکہ معاملہ گول مول رہے اوربات آگے بڑھانے والا کام بھی ہوجائے۔ بات سمجھ میں آگئی، اس لئے ہم نے بھائی" منقول" اور اس کی کوشش پر تین حرف بھیجے اور خود ہی دماغ سوزی فرمانے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کرکٹر رہے ہیں اور اکثر بات سمجھانے کے لئے کرکٹ کی مثال دیتے ہیں۔ ہم بھی آج کرکٹ ہی سے استفادہ کرتے ہیں۔ ڈیوڈ گاور انگلینڈ کے مشہور بلے باز تھے۔ بڑے سٹائلش انداز میں کھیلتے تھے، جس نے انہیں کھیلتے دیکھا، وہ ان کے بے مثال آف ڈرائیو نہیں بھول سکتا۔ ان کی بیٹنگ شاعری جیسی لطیف اور نفیس لگتی۔ گاور نے ایک بار لکھا، " بطور بلے باز بڑے مختلف اور منفرد تجربات حاصل ہوتے ہیں۔ بعض اوقات بلے باز بڑا پراعتماد اور ہائی مورال کے ساتھ گرائونڈ میں اترتا ہے، اس کے ذہن میں ہوتا ہے کہ آج سنچری کر کے واپس آنا ہے، فارم بھی اچھی ہے، پچ کنڈیشنز بھی ٹھیک ہیں تو آج میرا ہی دن ہے۔ یہ اور بات کہ اتفاق سے پہلا ہی گیند اچھا پڑا اور وہی پراعتماد بلے باز صفر پر آئوٹ ہو کر واپس لوٹا۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ پچ کنڈیشنز اچھی نہیں، ڈبل بائونس ہے، کوئی گیند اونچا، کوئی نیچا آ رہا، ہوا میں سوئنگ بھی ہور ہا۔ بلے باز کے لئے کھیلنا مشکل ہے، گھومتی گیندوں کو مس کر رہا، سلپ میں کیچ نکلے، مگر خوش قسمتی سے فیلڈر تک پہنچ نہیں سکے، بعض ان سائیڈ ایج ایک دو انچوں کے فاصلے سے وکٹ کے قریب سے گزرے۔ باہر سے دیکھنے والوں کو لگ رہا کہ ابھی وکٹ گری، مگر اس سب کے باوجود بلے باز وکٹ پر موجود ہے۔ ، گیند اسے درست نظر آنے لگا، اعتماد بحال ہو رہا، پچ کے بائونس سے ایڈجسٹ ہو رہا، گیند کی شائن کم ہونے سے بائولرز کو مدد کم ملنے لگی، وہ تھکنے بھی لگے۔ ایسے میں بلے باز سیٹ ہو کر اپنے کیرئر کی بہترین اننگ کھیل سکتا ہے اور مجھ (یعنی ڈیوڈ گاور)سمیت دنیا کے بہت سے بلے بازوں کے ساتھ ایسا ہوا کہ خراب حالات میں انہوں نے غیر معمولی اننگ کھیلی، آخری تجزیے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلے باز وکٹ پر ٹھیر گیا یا قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ واپس چلا گیا۔ اگر وہ وکٹ پر موجود ہے، اس میں صلاحیت ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، اس کو ملنے والے چانس، ان سائیڈ ایج، غلطیاں سب نظرانداز ہوجائیں گی۔ ریکارڈز بک میں سنچری، ڈبل سنچری لکھی جاتی ہے، کوئی یہ نہیں لکھتا کہ اس نے اتنے چانس دئیے اور شروع میں وہ اتنی مشکل سے گزرا۔"عمران خان کے پہلے سو دنوں کے حوالے سے میرے تاثرات بھی ملتے جلتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ جس طرح کے دعوے کر کے تحریک انصاف اقتدار میں آئی تھی، وہ پورے نہیں کر پائی۔ ویسے تو یہ پہلے ہی سے علم تھا کہ ابتدائی چند مہینوں میں معجزہ برپا نہیں ہوسکتا۔ عملی زندگی میں معجزات نہیں ہوتے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی کارکردگی کو ان بڑے بڑے دعوئوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر کچھ زیادہ دل خوش کن تصویرنہیں بنے گی۔ اپنے پچھلے کالم میں حکومت کے ابتدائی تاثر اور جو غلطیاں، ناکامیاں نظر آ رہی ہیں، ان پر لکھا تھا۔ وہ باتیں اپنی جگہ درست ہیں، مگر دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اب عمران خان کی حکومت کو ان کی پیش رو مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی کی حکومتوں کی کارکردگی کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ عمران خان کے دعوے ان کی ناتجربہ کاری کے غماز تھے۔ وہ وقت گزر چکا، اب وہ حکومت میں ہیں تو ان کی حکومت کو پاکستان کی دوسری حکومتوں کی طرح ہی دیکھنا چاہیے۔ ہم پاکستانی ہر معاملے میں کرشمے، معجزات کے متمنی ہوتے ہیں، پیر بھی اسے مانتے ہیں جو غیر معمولی کام کر دکھائے۔ سیدھا سادا شریعت پر عمل کرنے والا نیک آدمی ہمیں بطور پیر قابل قبول نہیں۔ جعلی، دھوکے باز شخص کی چکربازیوں سے متاثر ہو کر اسے پیر بنابیٹھیں گے اور پھر گہرے زخم کھا کر اپنی غلطی کا احساس ہوگا۔ ہم کھیل میں بھی چکاچوند دھماکوں کے قائل ہیں۔ ایسا کھلاڑی جو ایک اوور میں دو تین چھکے لگا کر آئوٹ ہوجائے، وہ ہمارا ہیرو ہے۔ جو کھلاڑی وکٹ پر ٹھیرکر دھیرے سے رنز بنائے اور میچ جتوائے، اسے ہم ہیرو نہیں سمجھتے، اس پر پھبتی کستے اور طنز کرتے ہیں۔ سیاست اور حکومت مگر مختلف چیزیں ہیں، یہاں پر زیادہ سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔ عمران خان اور ان کے وزیرخزانہ اسد عمر نے پہلے سو دنوں کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں بہت سی باتیں کہیں، اپنی کاوشیں گنوائیں اور مستقبل کے منصوبے بھی شیئر کئے۔ عمران خان کی تقریر زیادہ بھرپور اور دل کو چھونے والی تھی۔ خان کا جوش وخروش اپنے مستقبل کے منصوبے گنواتے ہوئے ہمیشہ دیدنی ہوتا ہے۔ ا یک بچے کی سی معصومیت اور ولولہ اس کے چہرے پر تھا۔ اس کے اندر بہرحال کچھ ایسا ہے جو سننے والوں پر اثر کرتا ہے۔ یہ اس کی نیت ہے، کمٹمنٹ ہے یا پھرنظام بدل دینے کا عزم۔ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ووٹ عمران خان کو ایسے نہیں ملے۔ عوام نے اس کے بات پر اعتماد کیا اور مینڈیٹ دے ڈالا۔ اب یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ جواب میں کچھ کر دکھائے۔ مجھے عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی یہ نظر آئی کہ اس نے امید کی شمع روشن رکھی ہے۔ اس کی غلطیاں، ناتجربہ کاری، کہیں کہیں پر غلط سلیکشن صاف نظر آ رہی ہے۔ اس کی نیت میں مگر کسی کو کوئی شک نہیں۔ عمران خان کے بہت سے مخالفین سے بھی بات ہوتی رہتی ہے، وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ عمران خان خود کرپٹ نہیں اور وزیراعظم بننے کے بعدمعمولی سا اشارہ بھی نہیں ملا کہ وہ مال بنانا چاہتا ہے۔ یہ رویہ ماضی کی وزرا اعظم سے یکسر مختلف ہے۔ ہر بار کابینہ کی تشکیل میں اندازہ ہوجاتا تھا کہ وزیراعظم صاحب مال بنانا چاہتے ہیں، اس لئے فلاں فلاں وزارتیں اپنے "مخصوص "ساتھیوں کو دی گئی ہیں۔ عمران خان کے حوالے سے کوئی ایسا نہیں کہہ سکتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ اس کی سلیکشن خراب ہو، غلط بندہ سلیکٹ کر لیا ہو، مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ عمران خان نے فلاں کو وزیراعلیٰ یا وزیر اس لئے بنایا کہ وہ مال بنائے اور "صاحب "کو بھی حصہ دے۔ عمران خان نے اپنی یہ کریڈیبلٹی بہرحال برقرار رکھی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ وہ تبدیلی لانا چاہ رہا ہے، ٹیکس نظام میں ریفارمز لانا، ملکی قوانین میں اہم تبدیلیاں، معیشت پر پوری توجہ دینا، ایکسپورٹ بڑھانے، سرمایہ داروں کو ترغیب دلانے کے حوالے سے وہ پرجوش انداز میں کچھ کرنا تو چاہ رہا ہے۔ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے، یہ الگ ایشو ہے، مگر اس کی نیت، خلوص، عزم میں بہرحال شک نہیں۔ ایوان وزیراعظم میں طویل عرصے بعد ایسا شخص آیا جو ان اوصاف سے معمور ہے۔ ہمارے نزدیک یہ کسی بڑی کامیابی سے کم نہیں کہ امید کی شمع ابھی جل رہی ہے، توقعات موجود ہیں، مستقبل میں بہت کچھ اچھا ہونے کا پورا امکان موجود ہے۔ حکومت کو وقت بہرحال دینا پڑے گا، ڈیڑھ دو سال کے بعد ہی جا کر درست رائے قائم کی جا سکے گی۔