ڈائریکٹوریٹ ایس
سٹیو کول (Steve Coll) ممتاز امریکی صحافی، ریسرچر اور ادیب ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی افغانستان پر لکھی کتاب گھوسٹ واربہت مشہور ہوئی تھی۔ سٹیو کول واشنگٹن پوسٹ کے لئے لکھتے رہے، وہ معروف جریدے نیویارکرکی ٹیم میں بھی شامل رہے، آج کل وہ کولمبیا یونیورسٹی کے گریجوائٹ سکو ل آف جرنلزم کے ڈین ہیں۔ سٹیو کول کو اپنی کتابوں پر امریکہ کا اعلیٰ ترین صحافتی ایوارڈ پلٹرز ایوارڈ مل چکا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ S ان کی ایک اور مشہور کتاب ہے۔ پچھلے سال یہ شائع ہوئی اور عالمی میڈیا میں ڈسکس ہوتی رہی۔ سٹیو کول نے اس کتاب کو لکھنے میں کئی سال لگائے، لگتا ہے کہ انہیں کلاسیفائیڈ امریکی دستاویزات اور صدراوباما ایڈمنسٹریشن کی ٹاپ میٹنگز کے منٹس تک رسائی دی گئی۔ افغان اعلیٰ حکام، خاص کر انٹیلی جنس افسروں کے ساتھ بھی ان کی ملاقاتیں رہیں اور ایک طرح سے باقاعدہ ریسرچ ور ک کر کے یہ کتاب لکھی۔ اس کے مندرجات میں بہت کچھ امریکی پوائنٹ آف ویو شامل ہے، پاکستانی اداروں پرکئی بے بنیاد الزامات ہیں، مگر کچھ ایسے دلچسپ امریکی سچ بھی ہیں جو پاکستانی قارئین کے لئے دلچسپی کا حامل ہوں گے۔ یہ کتاب نائن الیون کے فوراً بعد سے لے کر اگلے تیرہ چودہ برسوں یعنی حامد کرزئی کی رخصت اور اشرف غنی کے صدر بننے تک محیط ہے، اس میں اسامہ بن لادن کے قتل والا آپریشن ایبٹ آباد بھی شامل ہے۔ اس کتاب پر بات کرنے سے پہلے ایک اہم بات سمجھنا ضروری ہے۔ مغرب میں اہم سفارتی، عسکری اور ان ممالک کی قومی سلامتی امور پر کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ بہت سے اعلیٰ عہدے دارسابق وزرا خارجہ، سابق فوجی سربراہ، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سابق سربراہان وغیرہ ریٹائر یا منصب چھوڑنے کے بعد اپنی یاداشتیں شیئر کرتے ہیں۔ کئی امریکی صدور نے اپنی کتابیں لکھیں۔ صدر نکسن نے استعفا دینے کے بعد غیر معمولی علمی کام کیا۔ صدر کارٹر کی کتابیں مشہور ہیں۔ جنرل کالن پاول نے کتاب لکھی، بش کی وزیرخارجہ کونڈا لیزا رائس نے اپنی یاداشتیں لکھیں، جن میں پاکستان کے حوالے سے بھی بعض دلچسپ باتیں شیئر کیں۔ صدر کلنٹن کی کتاب مشہور ہوئی، ہیلری کلنٹن کی یاداشتیں بھی کم نہیں تھیں۔ بش سینئر کی کتاب میں نے نہیں دیکھی، البتہ ان کی اہلیہ باربرا بش کی کتاب مائی ٹرن پڑھی ہے۔ سی آئی اے کے کئی سابق چیفس اپنی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ امریکی سٹیٹ آفس(وزارت خارجہ)کے کئی اعلیٰ عہدے دار کتابیں لکھتے رہے ہیں۔ انہیں لاکھوں ڈالر کی آمدنی ہوجاتی ہے، دوسرا یہ لوگ اپنی صفائی بھی پیش کر دیتے ہیں۔ بہت سی تنقید کا کتاب کے ذریعے جواب دیا جاتا ہے۔ ادھر قارئین کواپنی معلومات میں کئی مسنگ کڑیاں، بیک گرائونڈ انفارمیشن مل جاتی ہے۔ معروف امریکی صحافیوں کی مختلف ادوار پر کتابیں مشہور ہوئیں۔ ان میں سرفہرست باب وڈورڈ ہیں۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں، ہر ایک کو دنیا بھر میں ایک خاص مقام اور اہمیت ملی، کیونکہ امریکی صحافی کو وائٹ ہائوس کے ٹاپ سرکل تک باقاعدہ رسائی دی گئی اور بہت سی بیک گرائونڈ بریفنگز ملیں، جن سے انہیں کتاب لکھنے میں مدد ملی۔ اسی طرح بروس ریڈل ہیں، یہ سی آئی اے میں بھی کام کرتے رہے اور مختلف تھنک ٹینکس سے وابستہ ہیں، ان صاحب نے بھی سائوتھ ایشیا، عسکریت، افغانستان، پاکستان پر خاصی کتابیں لکھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان تمام کتابوں میں امریکی نقطہ نظر ہی ملے گا۔ ایک خاص قسم کی امریکی سوچ، امریکی پالیسیوں کا دفاع، امریکی ناکامیوں کا الزام بھی دوسرے ممالک پر تھوپ دینا اور بعض اوقات تو سچ میں کچھ ڈنڈی ما ر کر وہ مسالہ پیش کرنا جس کی مغربی قارئین میں پزیرائی ہوسکے۔ کسی پر جھوٹے ہونے کا سطحی الزام لگانا مقصود نہیں۔ یہ بتانا ہے کہ ان سابق امریکی عہدے داروں، امریکی صحافیوں کی کتابوں میں جو کچھ بیان کیا جائے، اسے آنکھیں بند کر تسلیم نہ کیا جائے کہ بہرحال وہ امریکہ کے حصے کا "سچ "ہی ہے۔ کچھ درست بھی ہوگا، مگر بہرحال غلطی، خطا کا امکان باقی رکھا جائے۔ ایسی کتابیں ضرور پڑھنی چاہئیں تاکہ تصویر کے مختلف رخ سامنے آئیں، مگر یاد رکھیں کہ آخر میں خاصا کچھ جمع، نفی کرنا پڑے گا۔ اس سے بڑی بے وقوفی کوئی نہیں کہ آپ امریکی نقطہ نظر کو حتمی، عالمگیر سچائی سمجھ کر مان لیں کہ ایساتو خود امریکی بھی نہیں کرتے۔ نوم چومسکی سے ایڈورڈ سعید اور البرٹ مائیکل سمیت بہت سے امریکی دانشور، سکالرز ان جیسی کتابوں پر تنقید کرتے، ان کے مندرجات کی سچائی پر شک کرتے رہے ہیں، کائونٹر پنچ، زیڈ میگزین اور اس جیسے دوسرے الٹرنیٹو میڈیا (مین سٹریم میڈیا سے ہٹ کر کام کرنے والے ویب میگزینز)میں اس حوالے سے بہت کچھ شائع ہوتا رہتا ہے۔ رائے عامہ کو میڈیا کے ذریعے کس طرح بدل اور اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے، اس پر نوم چومسکی نے Manufacturing Consent: جیسی شاندار کتاب لکھی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جرنیلوں، اعلیٰ سطح کے انٹیلی جنس افسران اور سابق خارجہ سیکرٹریز اور اعلیٰ ڈپلومیٹس کی جانب سے کتابیں لکھنے کی مستحکم روایت موجود نہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنی یاداشتیں لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ عسکری، سفارتی حوالوں سے حساسیت بھی غیر ضروری حد تک پائی جاتی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہت سے اہم معاملات میں پاکستان کا موقف سامنے نہیں آتا۔ یہ درست ہے کہ بعض معاملات میں وقت گزر جانے کے بعد بھی کھل کر بیان نہیں کیا جا سکتا، بہت سے ایسے امور ہیں، جن کی تفصیل بتانے میں کوئی حرج نہیں۔ ادھوری، نامکمل معلومات سے صرف غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جس قدرمغالطے اور سازشی تھیوریز پاکستانی اداروں کے بارے میں عام ہیں، ویسے دنیا کے شائد ہی کسی ملک میں ملیں۔ لے دے کر چند ایک کتابیں ہی دستیاب ہیں۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق بریگیڈئر آئی اے ترمذی نے ایک کتاب لکھی، اس میں بعض بڑے دلچسپ واقعات بیان کئے گئے۔ موصوف نے مگر خاصی مبالغہ آمیزی سے کام لیا اور کچھ غیر ضروری چٹپٹا مسالہ بھی چھڑک دیا۔ اسی وجہ سے وہ کتاب زیادہ توقیر نہیں رکھتی۔ غالباً اس تجربے کے بعد یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ چند ایک ہی کتابیں موجود ہیں، ان سے پڑھنے والوں کو فائدہ ہی پہنچا۔ پاک فوج کے آخری کمانڈر انچیف( اس کے بعدعہدے کا نام چیف آف آرمی سٹاف رکھ دیا گیا تھا)جنرل گل حسن کی بائیوگرافی قدرے خشک انداز میں لکھنے کے باوجودمعلومات افزا ہے۔ جنرل صاحب نے پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں کے بارے میں اپنے مخصوص اکھل کھرے انداز میں کھل کر لکھا۔ جنرل کے ایم عارف جنرل ضیا الحق کے قریبی ساتھی رہے، ان کی کتاب ورکنگ ودھ ضیا(ضیا کے ساتھ )مشہور ہوئی، خاکی سائے دوسری کتاب ہے، اس میں بھی خاصا کچھ نیا پڑھنے کو ملا۔ دونوں دوست پبلشر اسلام آباد نے شائع کیں۔ ایس ایس جی کے بانی جنرل مٹھا کی کتاب بھی انہوں نے چھاپی ہے۔ ایوب خان اور جنرل مشرف کی سوانح حیات شائع ہوئیں، مگر ان میں سرکاری رنگ غالب تھا۔ ایوب خان پر الطاف گوہر کی کتاب دلچسپ ہے، ایوب خان کی ڈائریاں جو ان کی رحلت کے تین عشروں بعد شائع ہوئیں، وہ اہم ہیں۔ افسوس غلام اسحاق خان جیسا باخبر اور جہاندیدہ شخص بغیر زبان کھولے، کچھ لکھے بغیر چلا گیا۔ وہ کئی ادوار کے عینی شائد تھے، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے معماروں میں سے ایک۔ کاش وہ اپنی یاداشتیں لکھتے تو بہت سے گمنام، اَن سنگ ہیروز کو شناخت مل جاتی۔ غلام اسحاق خان کے قریبی ساتھی روئیداد خان کی خود نوشت آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے انگریزی، اردو دونوں میں شائع کی ہے۔ دلچسپ ترین کتابوں میں سے ایک، کئی بار اسے پڑھا، ہر بار حظ اٹھایا۔ اسے پڑھنا کسی سوغات سے کم نہیں۔ جنرل ر کے ایم عارف کے تجربے کو ان کے بعد کے لوگوں نے نہیں دہرایا۔ جنرل اسلم بیگ اتنا زیادہ بول چکے کہ اب کتاب لکھ بھی دیں تو کوئی توجہ نہیں دے گا، اس کے برعکس ان کے جانشیں جنرل وحید کاکڑ گوشہ نشیں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جنرل آصف نواز کو زندگی نے مہلت نہیں دی، ویسے وہ کتاب، قلم کے آدمی بھی نہیں تھے، ان کے بھائی شجاع نواز جو ایک امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ ہیں، انہوں نے پاک فوج کے حوالے سے ایک بڑی عمدہ کتاب کراسڈ سورڈز Crossed Swords لکھی، اس کا ناشر بھی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ہے۔ نہایت معلومات افزا، دلچسپ اور مستند حوالوں سے معمور کتاب، سیاست میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کو ہمیشہ یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ جنرل جہانگیر کرامت امریکی تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے، مگر بائیوگرافی لکھنے کی امریکی روایت انہوں نے بھی نہیں سیکھی۔ جنرل کیانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کتابیں پڑھنے کے شائق ہیں، ان کے پاس فرصت بھی ہے، لیکن امکان یہی ہے کہ وہ کبھی بائیوگرافی نہیں لکھیں گے، یہی جنرل راحیل شریف سے توقع ہے۔ میری خواہش تھی کہ جنرل حمید گل بھی اپنی یاداشتیں تحریر کرتے۔ وہ بہت کچھ جانتے تھے اور وسیع المطالعہ ہونے کے ناتے ان کی کتابیں عسکری، انٹیلی جنس حوالوں سے شاہکار ہوتیں۔ میجر(ر) عامر بھی ایک نابغہ ہیں، بے پناہ رازوں کے امین، بہت کچھ جاننے والے۔ قومی سلامتی کے راز محفوظ ہی رہنے چاہئیں، مگر جو کچھ بیک گرائونڈ نالج کے طور پر بیان ہوسکتا ہے، وہ توکیا جائے۔ اگر ہماری طرف کا سچ سامنے نہیں آئے گا تب لوگ بھارتی، مغربی مصنفین کی کتابوں کی طرف دیکھیں گے اور نت نئے غلط مغالطوں اور سازشی نظریات پر یقین لے آئیں گے۔ بات طویل ہوگئی، سٹیو کول کی کتاب ڈائریکٹوریٹ ایس پر ان شااللہ اگلے کالم میں بات ہوگی۔