بھارتی ہیجان کو سمجھنے کی کوشش کریں
سعود ی ولی عہد کا دورہ مکمل ہونے کے بعدپاکستانی میڈیا اور عوام پاک بھارت کشیدگی کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ مختلف محفلوں میں اس حوالے سے گفتگو چلتی رہتی ہے۔ بہت سے لوگ اس بات پر متحیر ہیں کہ آخر بھارت میں اس قدر غصہ اور جنون کیوں نظر آ رہا ہے؟ ایک بڑی وجہ ڈیجیٹل میڈیا کے ایکسپوژر کی بھی ہے۔ لوگ انٹرنیٹ پر بھارتی چینل دیکھ لیتے ہیں۔ ویڈیو کلپس فوری وائرل ہوجاتے ہیں۔ ایک نیا فیکٹر عرب ممالک خاص کر متحدہ عرب امارات میں رہنے والے پاکستانی ہیں۔ ان کے ساتھ دفاتر وغیرہ میں بھارتی، بنگلہ دیشی سٹاف کام کرتا ہے۔ یوں ان ممالک کے ویڈیو کلپس آسانی سے وائرل ہوجاتے ہیں۔ شدت پسندسوچ کو ظاہر کرنے والے ایسے ویڈیو کلپس دیکھ کر لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر بھارت میں اس قدر ہیجان کیوں ہے؟ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہاں جمہوریت کا تسلسل ہے۔ جمہوری ادارے مستحکم اور اسٹیبلشمنٹ کا رول نسبتا ً محدود ہے، آرٹ اور کلچر کی طرف بھی وہ زیادہ مائل ہیں۔ اپنے تمام تر داخلی تضادات کے باوجود آئینی طور پر بھارت ابھی تک سیکولر ملک ہے۔ وہاں اقلیتیں بھی تعداد میں کم نہیں۔ بیس بائیس کروڑ مسلمان، چار پانچ کروڑ کے قریب سکھ ہیں، عیسائی بھی کئی ملین تو ہوں گے۔ خود اکثریتی ہندو آبادی میں بہت تقسیم ہے۔ نارتھ اور ساوتھ انڈیا کی تقسیم اپنی جگہ موجود ہے۔ جہاں اس قدر تقسیم اور رنگا رنگی ہو، وہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا سیکھ لیتے ہیں۔ یہ کہہ لیں کہ سیکھ لینا چاہیے۔ پھر بھی ایسی شدت؟ اس پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے ایک اور نکتہ کی وضاحت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام رواج ہے کہ ایک خاص حلقہ بعض تعصبات کی بنا پر یہ فقرہ بول دیتا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں میں شدت اور جذباتیت ہے۔ یہ بات بظاہر سادہ اوربے ضررنظر آتی ہے، مگر آج کی صورتحال میں اس فقرے کا مقصد ظالم اور مظلوم دونوں کوا یک ہی صف میں کھڑا کرنا ہے۔ بذات خودیہ ایک ظلم ہے۔ اس پورے ایشو میں دونوں ممالک کے عوام کاکلچر اور مزاج کھل کر سامنے آ یا ہے۔ کوئی بھی غیر جانبدار شخص پاکستان کو دیکھے تواسے حیرت ہوگی۔ ملک میں کہیں پر جنگ کا ماحول نہیں۔ میڈیا امن کی بات کر رہا ہے۔ مختلف تقریبات اور ادبی فیسٹول چل رہے ہیں۔ لاہور میں آج کل لاہور لٹریری فیسٹول جاری ہے۔ عوام زور شور سے پی ایس ایل کے کرکٹ میچز دیکھنے میں مشغول ہیں۔ جو لو گ عام طور پر بھارت کے مخالف سوچ رکھتے ہیں اور ہمیشہ اسے سبق سکھانے کی بات کرتے ہیں۔ وہ بھی جارحانہ گفتگو نہیں کر رہے، صرف اپنا دفاع کرنے کی بات کر تے ہیں۔ بھارت میں اس کے برعکس آگ بھڑک رہی ہے۔ اعتدال کی بات کرنے والوں کے لئے زندگی دوبھرہوچکی۔ ٹی وی چینلز پلوامہ حملے میں مرنے والوں کے ورثا کے جذباتی، اشتعال انگیز انٹرویو دکھا رہے ہیں۔ جس میں وہ لوگ پاکستان پر حملہ کرنے اور اسے ہمیشہ کے لئے سبق سکھا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایسے آگ برساتے ماحول میں ہوشمندی اور تدبر کی بات کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس لئے پاکستان اور ہندوستان کے ماحول کا موازنہ درست نہیں۔ پاکستان میں بالکل بھی اُس سطح کے شدت والے جذبات نہیں۔ بھارت میں کئی گنا بدتر صورتحال ہے۔ ہمارے ہاں بھارتی ہیجان کی صرف ایک ہی توجیہہ بیان کی جارہی ہے کہ وہاں الیکشن ہونے والے ہیں اور بی جے پی کا لیڈر نریندرمودی عوامی جذبات استعمال کر کے الیکشن جیتنا چاہتا ہے۔ کیا بات اتنی سادہ ہے؟ غور کرنے سے ایسا لگتا نہیں۔ اگر وزیراعظم مودی الیکشن جیتنے کے لئے ایسا کر رہا ہے تو پھر اس کے سیاسی مخالفین کو متحد ہو کر اسے ناکام بنانا چاہیے۔ لوگوں کو وہ بتائیں کہ حکومت اپنے سیاسی ڈرامے کے لئے کر رہی ہے، اصل صورتحال مختلف ہے۔ ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ بھارتی اپوزیشن بھی اس جذبات کے ریلے میں بہہ گئی۔ کانگریس اگرچہ مودی کی طرح پرجوش نہیں کہ اس نے الیکشن میں مسلمان ووٹ لینے ہیں، مگر وہ بہرحال مودی کے مخالف نہیں کھڑی ہوئی۔ دیگر سیکولر جماعتیں، تنظیمیں، میڈیا میں موجود لبرل، سیکولر عناصر بھی خاموش ہیں۔ ایک مسلمان بھارتی صحافی دوست کے مطابق آج کل بھارت میں بھارتی مسلمانوں کے لئے جس قدر خطرناک، ہراساں کر دینے والی صورتحال بن چکی، ویسی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ حتیٰ کہ کارگل جنگ میں ایسا نہیں تھا۔ فطری طور پر اس قدر شدید، جذباتی ردعمل کی کی وجوہات اتنی سادہ نہیں۔ معاملہ پیچیدہ اور گمبھیر ہے، اس مسئلے کی جڑیں زیادہ گہری ہیں۔ ہمیں ان وجوہات کو سمجھنا ہوگا، جس کے باعث بھارتی سوسائٹی زومبیوں کی طرز کے ایک جنونی معاشرے میں تبدیل ہوگئی۔ اس کے پیچھے دراصل ہندوشدت پسند مذہبی تنظیموں کی کئی عشروں سے کی گئی لگاتار محنت ہے۔ وشوا ہندو پریشد، راشٹریہ سیوک سنگھ وغیرہ سے لے کر مختلف شدت پسند مذہبی گروہوں، تنظیموں نے بھارتی سماج کی مختلف جہتوں میں غیر معمولی محنت کر کے شدت، تعصب، مسلمان دشمنی، ہندو عظمت اور وطنی نرگسیت کے بیج بوئے۔ یہ پانچوں الفاظ (شدت، تعصب، مسلمان دشمنی، ہندو عظمت، وطنی نرگسیت) صرف جملے میں وزن بڑھانے کے لئے نہیں استعمال کئے گئے، بلکہ ان تمام جہتوں پر الگ الگ کام ہوا۔ ان تنظیموں میں سے کچھ نے مذہبی پلیٹ فارم سنبھالا، کسی نے سیاست کا رخ کیا، بعض نے تعلیمی اداروں میں کام کیا، خیراتی ادارے بنائے اور خاص طور سے میڈیا میں سرائیت کیا۔ ہم پاکستانی عام طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے بھارت کے بڑے انگریزی اخبار پڑھ لیتے ہیں۔ ان کا ریجنل میڈیا علاقائی زبان کی وجہ سے نہیں پڑھ پاتے، حالانکہ وہ بہت طاقتور اور عوام کے نچلے، متوسط طبقات تک گہرا اثر رکھتا ہے۔ مراٹھی، بنگالی، تامل، تیلگو، ملیالم وغیرہ میں بڑے بڑے اخبارات ہیں جو دس، دس، پندرہ پندرہ لاکھ روزانہ کی اشاعت رکھتے ہیں۔ بعض تو اس سے بھی زیادہ۔ بھارتی اخبار سستے کاغذ پر چھپنے کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید میں ہیں۔ ریجنل چینلز بھی بہت زیادہ دیکھے جاتے ہیں۔ برسوں پہلے ایک بھارتی صحافی دوست نے بتایا تھا کہ بی جے پی اور وشواہندوپریشد والے ریجنل میڈیا پر بہت کام کرتے ہیں۔ انہوں نے نوجوان صحافیوں کی تربیت کے کئی ادارے قائم کئے اور بہت سے لوگوں کو باقاعدہ کوشش کر کے میڈیا ہائوسز میں داخل کیا گیا۔ چند برس گزرنے کے بعد یہ نوجوان اہم پوزیشن پر آ جاتے ہیں۔ اس بھارتی صحافی کے مطابق کوئی عالمی ادارہ بی جے پی کے کسی بڑے لیڈر سے انٹرویو کا وقت لے تو ممکن ہے اسے فوری وقت نہ دیاجائے۔ بھارتی انگریزی اخبار یا چینل کوایک دو دنوں کے بعد کی اپائنمنٹ مل جائے گی، مگرپارٹی پالیسی کے مطابق کوئی ریجنل اخباررابطہ کرے تو اسی روز انٹرویو دینا لازم ہے۔ ریجنل چینل بلائے تو ٹاپ لیڈر بھی بلا تامل پہنچ جاتے ہیں۔ مقصد یہی کہ عوام کے اندر زیادہ سے زیادہ اپنی لابنگ کی جائے۔ شدت پسند تنظیموں کے مفت تربیتی تعلیمی اداروں کی وجہ سے بے شمار نوجوان انڈین سول سروس، پولیس اور فوج کے امتحانات پاس کر کے بھرتی ہوجاتے ہیں۔ پچھلے تین عشروں کی محنت کے اثرات آج سرچڑھ کر بول رہے ہیں۔ بی جے پی کی سابق حکومتوں نے اس عمل کو تیز کیا، مگر نریندر مودی نے اسے عروج پر پہنچا دیا۔ وزیراعظم مودی نے کارپوریٹ ورلڈ کی قوت استعمال کر کے میڈیا گروپس کے مالکان کوبھی رام کر لیا اور یوں پورا میڈیا سرینڈرکر گیا۔ سماج میں اس گہرے اثرونفوذ کے علاوہ ایک اور کام بالی وڈ فلموں اور سوشل میڈیا پرچکاچوند ویڈیو کلپس کی مدد سے کیا گیا۔ بھارتی عوام میں خبط عظمت کی دل کھول کر آبیاری کی گئی۔ یہ کام تو پنڈت نہرو نے بھی کیا تھا۔ تقسیم سے پہلے اپنی تیرہ سالہ بیٹی کے نام خطوط میں انہوں نے ہندوستان کی تاریخ بیان کی، جس میں کھینچ تان کر اسے دنیا بھر سے افضل ثابت کیا۔ یہ عمل مودی حکومت میں بہت زیادہ آگے بڑھا۔"بھارت ماتا" کی عظمت اور انفرادیت پرمبنی نرگسیت پسندی عوام کے ذہنوں میں ٹھونس دی گئی۔ پاکستان کے خلاف ایک عمومی بیانیہ فلموں اور میڈیا کے ذریعے آگے بڑھایا گیا۔ ایک عام بھارتی کو اس قدر احساس تفاخر اور نرگسیت کا شکار کیا گیا کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان جیسا "چھوٹا "ملک آخر ان کے منہ لگنے کی جرات کیسے کر سکتا ہے؟ سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ کر کے، بعدمیں " اڑی" کے نام سے باقاعدہ بالی وڈ کمرشل فلم بنا کر اس جعلی فخر میں مزید پھونک بھر دی گئی۔ ایسے میں پلوامہ حملے جیسے واقعات بھارتی انٹیلی جنشیا، فعال طبقات اور عوام کو بڑے شاک سے دوچار کر دیتے ہیں۔ اس جھٹکے کے نتیجے میں اپنا داخلی احتساب کرنے کے بجائے وہ تمام تر قصور خارجی عنصر (یعنی پاکستان)پر تھوپ کر سبق سکھانے کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ سوال مگر وہی کہ اس قسم کا جعلی فخر، بے مقصد نرگسیت، مصنوعی جاہ وجلال بھارت کو کہاں لے جائے گا؟ بھارت امریکہ نہیں اور نہ ہی سپر پاور جیسا نخرہ اور رویہ اسے جچتا ہے۔ بلا سوچے سمجھے بھارت میں صورتحال اس انتہا تک لے جائی جا چکی ہے کہ خدا نہ کرے اس خطے کو کوئی بڑا حادثہ لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ شائد ایسا سردست نہ ہوسکے۔ ممکن ہے اس بار معاملہ پوائنٹ آف نوریٹرن تک نہ جائے، لیکن جن عوامل کا ذکر کیا، وہ کارفرما رہے تو اس خطے میں ایک بڑی، ہولناک جنگ آ کر رہے گی۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے اورجو ہمارے لئے بہترین ہو، اسی طرف اختتام ہو۔ آمین۔