باتیں سابق گورنر مخدوم سجاد حسین قریشی کی
سابق بیوروکریٹ اور فکشن نگار طارق محمود کی بہت دلچسپ خود نوشت "دام خیال"پڑھ رہا ہوں، اس کے چند اقتباسات پچھلی دو نشستوں میں شیئر کئے، آج سابق گورنرپنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی کے حوالے سے طارق صاحب کے تاثرات، مشاہدات پر بات کرتے ہیں۔ یہ کتاب سنگ میل پبلشر لاہور نے شائع کی ہے۔ مخدوم سجاد حسین قریشی پچاسی سے اٹھاسی تک پنجاب کے گورنر رہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی مخدوم سجاد قریشی کے صاحبزادے ہیں۔ طارق محمود نے بطور سیکرٹری گورنر مخدوم سجاد قریشی کے ساتھ دو سال کام کیا۔
مخدوم سجاد قریشی کے بارے میں زیادہ معلومات میڈیا میں نہیں آتیں، ان کا اکثر ذکر" اللہ کریسی "کے حوالے سے طنزیہ پیرایے میں آتا ہے، کہاجاتا ہے کہ مخدوم صاحب جب گورنر تھے تو جو کوئی سائل ان کے پاس آتا وہ اس کا کام کرنے کے بجائے ہاتھ اٹھاتے اور یہ کہہ کر اس کام کے ہوجانے کے لئے دعا کراتے کہ اللہ کریسی(اللہ کرے گا)۔ دراصل یہ طنز کرنے والے سرائیکی کلچر اور زبان سے بالکل ہی ناواقف ہیں۔ اللہ خیر کریسی یا اللہ کریسی سرائیکی زبان کا بہت معروف، مقبول اور کثرت سے استعمال ہونے والا جملہ ہے۔
ہم سرائیکی اس دعائیہ جملے کو بہت زیادہ برتتے ہیں، اسے ان شااللہ کی طرح ہی سمجھ لیں۔ بطور انکسار بھی یہ کہا جاتا ہے۔ ایک شخص جس کے قبضہ قدرت میں کوئی کام ہے، اسے وہ کام کرنے کا کہا جائے اور وہ کام کرنا چاہ رہا ہے، کر بھی دے گا، مگر ازراہ عجز وانکسار وہ یہ ضرور کہے گا کہ اللہ کریسی یا اللہ خیر کریسی یعنی اللہ ہی آپ کا کام کرے گا، میں کون ہوں، میری کیا مجال ہے۔
طارق محمود صاحب کی کتاب مخدوم صاحب کے حوالے سے مختلف کہانی سناتی ہے۔ طارق محمود لکھتے ہیں:" میں نے چارج سنبھالاتو مجھے مخدوم سجاد قریشی نے اپنی ترجیحات اور تحفظات سے آگاہ کیا۔ ان کا سب سے اہم حکم نامہ تھا کہ مجھے یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد گورنر ہائوس سے کسی قسم کی ناجائز مراعات حاصل نہ کر پائے۔ وہ اپنی ذات پر اپنی جیب سے تمام اخراجات برداشت کرنا چاہیں گے۔
اہم بات یہ تھی کہ گورنر تحفے تحائف کے سلسلے میں صوابدیدی فنڈ سے رقوم خرچ کر لیا کرتے تھے، مگر گورنر نے کہا کہ ان کے کسی عزیز، احباب جن کے ساتھ ذاتی تعلق ہے، ان کے لئے تحفے تحائف اور دیگر اخراجات سرکاری فنڈز سے قطعی طور پر نہیں لئے جائیں گے اور گورنر صاحب ایسی ہر ادائیگی اپنی جیب سے کیا کریں گے۔ ان ہدایات پر عمل بھی ہوا، مگر نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے ملٹری سیکرٹری کرنل اعجاز افندی کے ساتھ مل کر بسا اوقات گورنر کے جوتوں کی پالش کا حساب بھی رکھنا پڑتا۔ کہیں تحفہ بھجوانے سے لئے متعلقہ شخص کے کوائف کی چھان پھٹک بھی کرنا پڑتی، گورنر ہائوس کی ایکسچینج سے مخدوم صاحب کے صاحبزادوں، دامادوں میں سے کسی نے انٹرنیشنل کال کر لی تو اگلے ماہ ان سے وصولی کر لی۔ "
مخدوم طارق محمود بتاتے ہیں کہ مالیاتی معاملات میں احتیاط کے ساتھ ساتھ مخدوم صاحب کی بذلہ سنجی، حاضرجوابی اور فوک وزڈم متاثرکن تھی۔ زندگی کے تلخ تجربات کو لطیف طنزیہ انداز میں بیان کر جاتے اور اپنی ہی ذات کو ہدف بنا کر بات کا مفہوم نکالنا اور سننے والے کو باور کرادینا انہی کا ملکہ تھا۔ کوئی سفارت کار ملنے کے لئے آنکلا تو فلسفے، تقابلی مذاہب اور تاریخ کے عروج وزوال پر بے لگان گفتگو کرتے۔ وہ اپنی ذات میں کئی جہتوں کو سموئے ہوئے تھے۔ ان کا دن ملاقاتوں سے شروع ہوتا۔ بہت خوش رہتے، گفتگو کے گرویدہ، بات کرنے اور نبھانے کے ہنر میں یکتا تھے۔
ایک بار طارق محمود نے کوئی ڈرافٹ بنا کر منظوری کے لئے پیش کیا، گورنر نے ان کی انگریزی کو سراہا، مگر نکتہ اٹھایا کہ آپ نے اوپر نیچے بہت جگہ چھوڑ دی ہے۔ بعد میں مخدوم سجاد قریشی نے واقعہ سنایا کہ ایوب خان دور میں وہ ملتان کارپوریشن کے وائس چیئرمین تھے۔ ڈاکٹر جگر کے نام سے معروف ملتان کے ایک طبیب نے انہیں وائس چیئرمین بننے پر مبارک باد کا خط لکھا۔ مخدوم صاحب نے کارپوریشن کے لیٹر پیڈ پر جوابی شکریہ کا خط لکھ دیا۔ بات ختم ہوگئی، مگر کچھ دنوں بعد ایک صاحب ملنے آئے تو پوچھنے لگے کہ مخدوم صاحب اب آپ کی طبیعت کیسی ہے۔ مخدوم سجاد قریشی نے حیران ہو کر کہا کہ میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں۔
اسی طرح چند دنوں میں کئی لوگوں نے مخدوم صاحب کی طبیعت کا حال پوچھا تو وہ حیران ہوئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسی ڈاکٹر جگر نے اپنے کلینک میں مخدوم صاحب کا وہ خط فریم کر کے دیوار سے ٹانگا ہوا ہے جس میں جوابی شکریہ کے اختتام پر نیچے ایک اضافی نوٹ ڈالا گیاہے کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے جو گولیاں دی تھیں، انہوں نے خوب اثر کیا اور میں پہلے سے بہت بہتر ہوں۔ گورنر مخدوم سجاد قریشی نے یہ پرانا واقعہ سنا کر ہنستے ہوئے مشورہ دیا کہ خط لکھتے ہوئے اتنا مارجن چھوڑا ہی نہ کرو کہ کہیں کوئی ڈاکٹر جگر جیسا نہ ٹکر جائے جو نیچے اپنی مرضی کا اضافی نوٹ ڈال دے اور اسے مشتہر کرے۔
طارق محمود کے بقول مخدوم سجاد قریشی پرانی وضع کے روایتی سیاستدا ن تھے، سسٹم کی باریکیوں کو سفاکی کو بہت اچھے طریقے سے سمجھتے۔ ایک بار خبر ملی کہ ملتان میں ایک زمیندار نے دیرینہ عداوت پر مخالف کی ٹانگیں تڑوا دیں۔ مخدوم سجاد قریشی نے خبر سن کر تاسف کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ بھلا اب ٹانگیں تڑوانے کی کیا ضرورت تھی، مخالف کو چکروں میں ڈالنا ہی تھا تو اس کی گرداوری تڑوا دیتا، اتنا ہی کافی تھا، پٹواری، تحصیل دار اور لاہور کی عدالتوں کی خاک چھاننے کے لئے یہ کیا کم تھا۔
بیوروکریسی اور سول سرونٹس کے بارے میں مخدوم صاحب عملی نظریہ رکھتے تھے، وہ سول سرونٹس کی ذہانت اور متانت کے قائل تھے، مگر کئی اعتبار سے شاکی بھی۔ سرائیکی میں کہا کرتے، "انہاں وچ سپ دی پھنکار وی ھ تے پرپیراں تلے زمین وی نئیں (ان میں سانپ کی پھنکار بھی ہے اور پائوں تلے زمین بھی نہیں)۔ ایک بار قصہ سنایا کہ وہ وزیراعلیٰ کے ساتھ کسی جگہ ایک ہی گاڑی میں گئے۔ وہاں پہنچے تو ایک صاحب نے آگے بڑھ کر کار کا دروازہ کھلا، گورنر کو دیکھ کر وہ فوری دروازہ چھوڑ کر دوسری طرف بھاگا تاکہ جلدی سے وزیراعلیٰ کا دروازہ کھول دے۔
ایک صاحب سفید شلوار قمیص میں ملبوس قراقلی ٹوپی سر پر پہنے گورنر صاحب سے ملنے آیا کرتا اورباربار شکریہ ادا کرتا کہ مخدوم صاحب کی وجہ سے اس کا بیٹا زرعی ترقیاتی بینک میں ملازم ہوگیا۔ وہ شخص جب بھی آتا یہی دہراتا کہ وہ اس احسان کا بدلہ زندگی بھر ادا نہیں کر سکے گا۔ ایک روز وہ گیا تو مخدوم صاحب نے کہا کہ لگتا ہے کہ شخص اب کوئی اور کام کہے گا۔ طارق محمود نے حیرت سے کہا کہ انہیں تو یہ شک نہیں گزرا بلکہ یہ شخص تو بڑا ممنون احسان ہے۔ وہی ہوا کچھ عرصے بعد وہ اپنے بیٹے کے لئے گریڈ اٹھارہ میں پروموشن کی سفارش لے آیا۔
مخدوم صاحب نے سمجھایا کہ ابھی اس کی ملازمت کے اوائل سال ہیں، ایسی پروموشن ایک نظام کے تحت ہی ہوتی ہے۔ جب وہ باربار آتااور تنگ کرتا رہا تو ایک دن مخدوم صاحب نے پوچھا کہ بینک میں کسی اور کو بھی گریڈ اٹھارہ میں پروموٹ کیا گیا ہے؟ اس شخص نے زور زور سے کہا، جی ہاں جی ہاں ایک ایسی پروموشن ہوئی ہے، ائیر مارشل نور خان کے بیٹے کو پروموٹ کیا گیا ہے۔ مخدوم سجاد قریشی اس شخص کی طرف بڑھے، اس کی ٹھوڑی ہاتھ میں تھام کر بلند کی اور بولے، پتر کوں آکھواو وی نور خان دا پتر بنڑ ونجے(بیٹے کو بولو کہ وہ بھی نور خان کا بیٹا بن جائے)۔ اس جملے میں بلا کی کاٹ تھی، سسٹم کی کمزوریوں اور شاہ زوریوں پر بے لاگ تبصرہ۔
ایک بار گورنر ملتان گئے ہوئے تھے، اپنی رہائش گاہ سے طارق محمود اور ملٹری سیکرٹری کے ساتھ نکلے تو راستے میں ایک عمر رسید ہ دیہاتی نظر آیا۔ مخدوم صاحب نے گاڑی رکوا کر اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا لیا۔ وہ آدمی مخدوم صاحب کا محلے دار تھا، ساتھ بیٹھ کر بڑا خوش ہوا، قہقہے لگا کر ان سے باتیں کرنے لگا۔ چند منٹ بعد مخدوم صاحب نے گاڑی رکوائی اور وہ شخص اتر گیا۔ مخدوم صاحب مسکرا کر بولے کہ اب اس شخص کا ہفتہ بہت اچھا گزرے گا، علاقے میں دھوم مچ جائے گی کہ گورنر اسے ساتھ بٹھا کر نہ جانے کہاں لے گئے۔ چلیں ہمارا کیا گیا، اتنی سے بات سے اس کے کئی کام ہوجائیں گے۔
مخدوم صاحب نے طارق محمود کو ایک بار سنایا کہ ان کے والد کا آخری وقت تھا، وہ اپنے باپ کی علالت سے مغموم تھے۔ والد نے بیٹے کی حالت کو بھانپا اور تنبیہ کی کہ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے، اگر مجھے کچھ ہوگیا تو بیٹا آگے کی تیاری ابھی سے شروع کردو۔ دھلے دھلائے لباس کا اہتمام کرو، نیا کھسہ پہنو، سر پر کلف دار پگڑی پہن لو، مہمان آئیں گے تو ان کے قیام وطعام کا بندوست کرو۔ مخدوم سجاد قریشی والد کی یہ باتیں سن کر اپنا غم بھول گئے۔ جنہوں نے مختصر سی گفتگو میں زندگی کا تجزیہ کشید کر دیا۔