1.  Home/
  2. Abid Mehmood Azaam/
  3. Palestine, Kya Kya Jaye?

Palestine, Kya Kya Jaye?

فلسطین : کیا کیا جائے؟

سر زمین انبیاء فلسطین وقتاً فوقتاً اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتی رہتی ہے اور برسوں سے بن رہی ہے۔ مقبوضہ فلسطین پر بمباری کی جاتی ہے۔ سیکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی کر دیے جاتے ہیں۔ بہت سی عمارتیں کھنڈرات میں بدل دی جاتی ہیں اور انھیں ان کے ہی گھروں سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ ہر بار عالمی برادری اور مسلم ممالک اسرائیلی جارحیت کے خلاف خالی خولی بیانات دے کر اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔

کچھ عرصہ فلسطینیوں کا قتل عام کرکے اسرائیل اپنی درندگی روک دیتا ہے اور کچھ روز بعد دنیا یہ سب بھول جاتی ہے کہ کچھ ہوا بھی تھا کہ نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، یہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے قائم کی گئی ہے، پہلے تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا۔ 1948 میں یہاں اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔ فلسطین کا دارالحکومت بیت المقدس تھا جس پر 1967 میں اسرائیل نے قبضہ کیا ہے۔ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی اسرائیل کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔

فلسطین ایک بار پھر اسرائیل کی بے دریغ بم باری اور جارحیت کا ہدف بنا ہے۔ سیکڑوں رہائشی عمارتیں اور سرکاری دفاتر اسرائیلی حملوں میں منہدم ہو چکے ہیں۔ سیکڑوں شہید ہو چکے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی بھی ہے۔ زخمیوں کی تعداد بھی کئی ہزار ہے۔ بڑی سے بڑی جنگ میں بھی طبی امداد اور صحافتی ذمے داریوں کی ادائیگی کا احترام کیا جاتا ہے، مگر اسرائیل کے میزائل حملوں میں غزہ کا طبی نظام شدید طور پر متاثر ہوا ہے اور غزہ میں صف اول کے عالمی صحافتی اداروں کے دفاتر کو میزائل حملوں سے تباہ کر دیا گیا ہے۔

فلسطین میں اسرائیل کو آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کی جو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ آج کی دنیا فی الحقیقت اندھیر نگری بن چکی ہے، جہاں انسانی حقوق کے تمام نعرے فریب اور دکھاؤے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ایک بار پھر اسرائیلی پولیس نے فلسطینی خاندانوں کو نکال کر ان کے گھر آباد کار یہودیوں کو دے دیے، جس سے فلسطینی مسلمان مشتعل ہوئے تو اسرائیلی پولیس نے احتجاج کرنیوالے بچوں، عورتوں اور مردوں پر تشدد کیا۔ مسجد اقصیٰ میں عبادت میں مصروف فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی پولیس نے دھاوا بول دیا۔

پاکستان، ایران اور ترکی سمیت کئی ممالک نے اسرائیلی بربریت کی مذمت کی۔ کئی مغربی ممالک میں بھی اسرائیلی سفاکیت کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں، مگر عالمی حقوق کے نام نہاد علمبردار ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ امریکا نے اسرائیل کے جرم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی ختم کرنے کا نعرہ لگانیوالے امریکا نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کی مذمت پر مبنی قرار داد کو دو بار روکا ہے۔

عراق، شام اور افغانستان کو کھنڈر بنا دینے والی نام نہاد مہذب دنیا اسرائیل کو خونریزی سے روکنے کے لیے ایک قرار داد مذمت تک متفقہ طور پر منظور کرنے کو تیار نہیں۔ یہ امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کی دہری و منافقانہ پالیسی ہے۔ عالمی برادری کا یہی رویہ نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کو طاقت کے استعمال میں پاگل پن کی حد تک لے جاتا ہے، کیونکہ صہیونیوں کو معلوم ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر لیں، انھیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔

امریکا اور مغربی ملکوں کی جانب سے اسرائیل کی کھلی حمایت اور عملی پشت پناہی کی بدولت سلامتی کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم بھی صیہونی جارحیت رکوانے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ یہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ مسلم ریاستیں سلامتی کونسل کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے مفادات کا خود تحفظ کریں۔ جب تک مسلم ریاستیں متحد نہیں ہوں گی، تب تک کچھ نہیں ہونے والا۔ مسلم دنیا کی سب سے بڑی تنظیم او آئی سی نے عالمی برادری سے اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔

یہ بہت ہی مضحکہ خیز بات ہے کہ 57 مسلم ریاستوں کی یہ تنظیم خود کچھ کرنے کے بجائے اس عالمی برادری سے اسرائیل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہے، جو اسرائیل کی حامی و سرپرست ہے۔ او آئی سی اقوامِ متحدہ کے بعد سب سے بڑا بین الاقوامی فورم ہے، جس کے قیام کا مقصد عالمِ اسلام کے مفادات کا تحفظ اور بین الاقوامی امن و ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔

ہم ہمہ وقت اسلامی دنیا کے زوال کا رونا تو روتے رہتے ہیں لیکن اس کے تدارک کے لیے عملی اقدامات پر آمادہ نہیں۔ مسلم ممالک کے مسائل حل کرنے میں او آئی سی بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ او آئی سی کی ناکامی سے ایک ایسے مسلم اتحاد کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی غیر فعالیت میں پوری دنیا کے مسلمانوں کی ترجمانی کر سکے۔

فلسطین میں اسرائیل نے جو قیامتِ صغریٰ برپا کی، اس پر عالم اسلام کا کمزور رد عمل اسلامی بھائی چارے کے منافی ہے۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، مظلوم مسلمان کا ساتھ دینا فرض ہے اور فلسطینی ہمارے مسلمان بھائی ہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو ملت اسلامیہ اسرائیل کو غاصب ریاست قرار دیتی ہے اور دوسری طرف درجنوں مسلم ممالک اسرائیل سے تجارتی معاہدوں کی صورت میں اس ناجائز ریاست کی معیشت کو مضبوط کر رہے ہیں۔

خانہ کعبہ اور حرمین شریفین کے دوسرے مقدس مقامات کی طرح قبلہ اول کی حفاظت بھی مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے، مگر بحیثیت مجموعی مسلم دنیا پر ایسی بے حسی کی فضا طاری ہے کہ قبلہ اول کے اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں تختہ مشق بننے پر بھی ہمارے دل نہیں پگھلتے۔ جب مسلم دنیا میں اسرائیلی مظالم پر تشویش کی لہر دوڑتی ہے تو وہ بھی رسمی اور مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔

اس وقت 58 مسلم ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں جو کسی ایشو پر متحد ہو کر اقوام متحدہ کے ذریعے دنیا کی قیادتوں سے موثر عملی کردار کے متقاضی ہو سکتے ہیں، مگر سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں مسلم دنیا کے ارکان کوئی مشترکہ ٹھوس پالیسی وضع کرنے سے بے نیاز نظر آتے ہیں۔

مسلم ممالک کی قیادتیں چاہیں تو اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف ہر عالمی اور علاقائی فورم کو جھنجوڑ کر رکھ دیں، مگر مسلم دنیا کی قیادتوں نے ایسی مصلحتوں کے لبادے اوڑھ لیے ہیں کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا احیاء تو بہت دور کی بات ہے، قبلہ اول پر اسرائیلی جارحیت کو بھی نہیں روک سکتے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو مظلوم فلسطینیوں کے معاملے میں سنجیدگی اور احساس ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔

زبانی بیانات سے نہ پہلے اسرائیلی جارحیت کبھی رکی ہے اور نہ ہی اب رکنے کا کوئی امکان ہے۔ یہ معاملہ یونہی چلتا رہے گا جیسے برسوں سے چل رہا ہے۔ جب مسلم دنیا خود ہی مسئلہ فلسطین پر غور و فکر اور دنیا پر زور دینے میں مل بیٹھنے کے بجائے اس معاملے کو رسمی اجلاسوں سے ٹرخانے پر تلی ہوئی ہے تو اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو کیا ضرورت ہے کہ اپنے بغل بچہ اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کا ساتھ دیں؟ وہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے، کیونکہ مسلمانوں کے معاملے میں ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور یہ منافقت کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔

Check Also

Jamaat e Islami Kya Soch Rahi Hai? (2)

By Amir Khakwani