یہ خوش قسمت کتے
ریاست پاکستان میں عام آدمی کی مشکلات پہلے ہی کیاکم ہیں کہ ہماری اشرافیہ عوام کو مزید تنگ کرنے کے نئے نئے بہانے گھڑ لیتی ہے۔
ایک خبر کے مطابق سابق گورنر پنجاب ملک غلام مصطفی کھر کے پالتو کتے کو زخمی کرنے پر شہری پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔ خبر کے مندرجات کے مطابق مصطفی کھر کے ملازم کی مدعیت میں چند روز پہلے مظفر گڑھ کے تھانے سناواں میں اسماعیل نامی شہری پر ملک غلام مصطفی کھر کے پالتو کتے کو موٹر سائیکل کے ذریعے زخمی کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مقدمے کے مدعی نے کتے کی قیمت ایک لاکھ تیس ہزار بتائی ہے۔ بااثر مالک کی وجہ سے ڈی پی او مظفر گڑھ صادق ڈوگر اور ڈی ایس پی کوٹ ادو اعجاز بخاری نے مقدمے میں نامزد ملزم اسماعیل کا بیان ریکارڈ کیا اور حقائق کا جائزہ لیا۔ ملزم کی یہ خوش قسمتی ہے کہ دونوں اعلیٰ افسران کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ کتا کھلا ہونے کے باعث خود موٹر سائیکل سے جاٹکرایا لیکن اس کے باوجود شہری نے کتے کو بچانے کی کوشش کی۔
قانون کے مطابق عوامی مقامات پر پالتو کتا کھلا چھوڑنا از خود غیر قانونی ہے۔ حقائق سامنے آنے پر شہری اسماعیل کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا گیا جس پر نامزد ملزم نے پولیس کے اعلیٰ حکام کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ملزم یہ جانتا تھا کہ مدعی بہت ہی بااثر شخصیت ہیں لہٰذا اس نے جان چھوٹنے پر شکر بھی ادا کیا اور بعید نہیں کہ اس نے خود ملک صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے پالتو کتے کو پہنچنے والی تکلیف پر معذرت بھی کی ہو۔ مصطفی کھر کوئی عام شخصیت نہیں۔
ایک زمانے میں پنجاب میں ان کا طوطی بولتا تھا اور ان کی گورنری کے دور کے ان کی شوقین مزاجی کے قصے زبان زد عام رہے۔ ملک صاحب نے جو بھی شوق پالا اس کو بام عروج تک پہنچایا۔ مصطفی کھر اچھے اور نسلی پالتو جانوروں کے شوقین ہیں۔ وہ دنیا بھر سے اعلیٰ نسل کے کتے منگوا تے رہتے ہیں۔ ان کا زخمی ہونے والا کتا بھی غیر ملکی نسل کا تھا۔ ملک صاحب شکار کے شوقین ہیں۔
ان کے پاس اعلیٰ پائے کے شکاری کتے موجود ہیں اور لگتا یہی ہے کہ ان کا زخمی ہونے والا قیمتی کتا بھی شکاری کتا ہی ہو گا۔ کتے کے زخمی ہونے سے مجھے خبر کی وہ پرانی اصطلاح یاد آ گئی کہ اگر کتا کسی انسان کو کاٹ لے تو وہ خبر نہیں بلکہ اگر انسان کسی کتے کو کاٹ لے تو وہ خبر ہو گی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مظفر گڑھ میں بھی ہوا اور ایک کتے کے زخمی ہونے پر ایک انسان پر مقدمہ درج کر دیا گیا۔ یعنی جس معاشرے میں کئی بے گناہ انسانو ں کی جان چلی جاتی ہے مگر ہماری انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوتی اسی معاشرے میں ایک بااثر شخصیت کے کتے کی کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ خبر سے ہو گیا ہو گا۔
ہم ایک بے حس معاشرے کا حصہ ہیں، ایک ایسے معاشرے میں جس میں لوگ اپنے جائز حق کے حصول کے لیے تھانوں کچہریوں کے چکر لگاتے لگاتے اور اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی انصاف کے حصول کے لیے لگا کر اس دنیا سے دوسری دنیا میں پہنچ جاتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کو انصاف نہیں ملتا۔ میں مظفر گڑھ کے شہری اسماعیل کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بااثر آدمی کے کتے کو نادانستہ طور پر زخمی کر کے بھی مقدمہ خارج کراگیا۔
ورنہ ہم نے تو اسی ملک میں ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو سالہا سال سے انصاف کے حصول کے لیے جیلوں میں پڑے رہے اور جب ان کے مقدمے کا فیصلہ ہوا تو وہ بے گناہ نکلے مگر بے گناہی کے کئی سال جیل میں ہی گزار گئے بلکہ ان میں سے کئی تو مقدمے کے فیصلے کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے ہی رخصت ہو گئے اور مقدمے کا فیصلہ ان کی موت کے بعد ہوا۔ اس طرح کی کئی مثالیں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور ان کو پڑھ کر ہم اپنے نظام کو کوستے رہ جاتے ہیں۔
دراصل پاکستان کی اشرافیہ نے ہمارے معاشرے کو بری طرح اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے جس میں حقیقتاً امیر کے لیے انصاف کے تقاضے کچھ اور ہیں اور غریب کے لیے کچھ اور۔ غریب کی کسی معاملے میں بھی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ پاکستان میں قانون و انصاف امیر کے گھر کی باندی قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ قانون امیر کی دہلیز پر اس کو انصاف فراہم کرنے کے لیے اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے جب کہ غریب کے لیے یہی قانون اس کے ہاتھ باندھنے کے بہانے تلاش کرتا ہے۔
یہی وہ بنیادی فرق ہے جس نے ہماری معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں اور آزادی کی نعمت بڑی انمول ہوتی ہے، اسی لیے ہمارے بڑوں نے آزاد ملک کو ترجیح دی تھی لیکن آزادی کے بعد سے ہی ہمیں امیری اور غریبی کے چکر میں ڈال کر اشرافیہ نے اپنا ایک الگ طرز حکمرانی ہم پر مسلط کر دیا۔ ہماری اس اشرافیہ سے تو انگریز کا دور حکومت ہی بہتر تھا جس میں کسی حد تک گورا صاحب انصاف تو دیتا تھا۔
بہر کیف کس کس بات کا رونا رویا جائے اور کس کس کو مورد الزام ٹھہرایا جائے کہ جو بھی آیا اس نے عوام کی بے عزتی ہی کی۔ ہر ایک حکمران کا طریقہ کار مختلف رہا، کسی نے اسلام کے نام پر ہمیں بے وقوف بنایا اور کوئی ترقی کے نام پر ہماری قسمت سے کھیلتا رہا۔
پاکستان کے عوام ستر برسوں میں بھی نہیں جاگے اور ابھی لگتا بھی نہیں کہ وہ خواب غفلت سے کبھی جاگیں گے پانی سر سے اونچا نہیں ہوا بلکہ ہم پانی میں ڈوب چکے ہیں لیکن پھر بھی واہ واہ کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ اگر اب بھی ہم خواب غفلت سے نہ جاگے تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی اور ہماری قسمت میں اشرافیہ کے لاکھوں روپوں کے قیمتی اور انمول کتوں کو نہلانا ان کو ٹہلانا اور ان کے مقدمے بھگتنا ہی لکھا جائے گا۔