سیاست کے نئے انداز
قومی سیاسی منظر میں اگرچہ کسی مزید ہلچل کی گنجائش نہیں کیونکہ جتنی ہل چل سیاستدانوں نے مچانی تھی وہ مچ چکی ہے اب اس ہلچل کے نتیجے کا انتظار ہے سب منتظر ہیں کہ انواع واقسام کی بولیاں بولنے والے اپنی بولیوں سے کیا کچھ حاصل کر پاتے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں ایک طوفان برپا ہے اور خوش فہم سیاستدانوں کی مردہ امیدیں بھی جاگ اٹھی ہیں اور وہ بڑی بے تابی سے آنے والے وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ شائد حالات بدل جائیں ان کو ایک بار پھر لوٹ مار کا موقع مل جائے۔ سیاست کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمارے خوشحال ترین لیڈرجن کو اس عمر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوشگواروقت گزارنا چاہیے اور اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے لطف اٹھانا چاہیے وہ ڈھلتی عمر میں جیل کی سختیاں برداشت کررہے ہیں۔
میاں نواز شریف جنھوں نے آسائشوں سے بھر پور زندگی گزاری ہے اس وقت مجبوراً ایک سرکاری اسپتال میں علاج کرا رہے ہیں۔ لاہور کے سرکاری اسپتال گزشتہ دس برس تک ان کے بھائی کی عملداری میں رہے ہیں اور ان کی حالت زار کے بارے میں ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا اس لیے شائد میاں صاحب نے کسی نجی اسپتال میں علاج کرانے کی درخواست دی جو حکومت سے منظوری نہ پاسکی۔ میاں نواز شریف ملکی سیاست کا اثاثہ ہیں اور پنجاب میں توان کی سیاست کا طوطی بولتا ہے۔
80 کی دہائی سے وہ اقتدار میں ہیں اور تب سے لے کر اب تک پنجابیوں نے ان کو کبھی مایوس نہیں کیا بلکہ پنجاب کی وجہ سے ان پر ملکی لیڈر سے زیادہ پنجابی لیڈر کی چھاپ بھی لگ چکی ہے حالانکہ وہ تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بھی رہے ہیں لیکن ان کے اقتدار میں زیادہ حصہ پنجاب کا ہی رہا۔ میاں نواز شریف کی سیاست پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آیندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔
اس وقت جہاں میاں نوازشریف بیماری کی حالت میں بستر پر ہیں ان کے سیاسی بھائی جناب آصف زرداری بھی جیل سے اسپتال منتقل ہو چکے ہیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ وہ بھی شدید بیمار ہیں بلکہ کچھ حلقوں کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ آصف زرداری کو کراچی کے کسی اسپتال میں منتقل کر دینا چاہیے چونکہ سندھ میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے اس لیے کراچی میں ان کی بہتر نگہداشت ہو سکتی ہے۔
دونوں بڑے سیاسی لیڈروں کی بیماری کو چند نادان حکومتی ترجمانوں کی جانب سے سیاسی بیماری کا نام دیا جارہا ہے جو ان کی ناعاقبت اندیشی ہے، یہ وہ مشیر ہوتے ہیں جو کسی بھی حکومت کا بیڑا غرق کرنے میں اپنا بھر پورکردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت کو دونوں سیاسی رہنماؤں کو بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی کو ممکن بنانا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی ملک کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ سیاست اپنی جگہ لیکن سیاست میں انسانیت سے غفلت نہیں ہونی چاہیے۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو نے سیاسی رہنماؤں کو بروقت خبردار کیا ہے کہ وہ کسی ایسی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں جس سے جمہوریت کا بوریا بستر ہی لپیٹ دیا جائے۔ ان کے خدشات درست ہیں کیونکہ یہ سیاستدان ہی ہوتے ہیں جو تیسری قوت یعنی فوج کو پہلے تو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے ہیں اور بعد میں ان سے چھٹکارے کے لیے احتجاج شروع کردیتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ملک میں تیسرا جمہوری دور گزر رہا ہے اس سے پہلے دو اسمبلیاں اپنی آئینی مدت مکمل کر کے انتخابات کرا چکی ہے یہ تیسری اسمبلی ہے جو اپنی آئینی مدت کے دوسرے سال میں ہے لیکن اس کے خلاف اپوزیشن کمر بستہ ہو چکی ہے ایسے ہی جیسے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ حکمرانوں کے خلاف حکومت کے پہلے سال میں ہی اسلام آباد میں تاریخی دھرنا دیا تھا جس سے حاصل وصول کچھ نہیں ہوا تھا۔
ملک میں خدا خدا کر کے جمہوری عمل جس طرح کا بھی ہو جاری ہے اور اسے کسی رکاوٹ اور الجھن کے بغیر آگے کی طرف بڑھنا چاہیے اس کو کامیابی سے جاری رکھنے کے لیے نیک نیتی سے کوشش کرنی قومی مفاد کا تقاضا ہے اسے پریشان کرنے کی ہر کوشش قابل مذمت ہے۔ یہ بات ہمارے سیاسی زعماء اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے کسی عمل سے اگر خدا نخواستہ جمہوری عمل کو نقصان پہنچا تو قوم ان کو کبھی معاف نہیں کرے گی لیکن وہ اقتدار سے دوری کی وجہ سے بے چینی کا شکار ہیں اور جیسے تیسے ہو وہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اپوزیشن کے الزامات اپنی جگہ لیکن عوام نے موجودہ حکومت کو منتخب کیا ہے تو یہ حکمرانوں کا حق ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت مکمل کریں جیسے ان کی دو پیشرو حکومتوں نے کی ہے لیکن حکومت کا یہ فرض ہے کہ اس کو جن عوام نے حق حکمرانی دیا ہے ان کا بھی خیال رکھے اور ان پر اتنا ہی بوجھ لادے جو ان کے لیے قابل برداشت ہو۔
ملک اس وقت ایسے حالات میں گھر چکا ہے جن سے بچ کر نکلنا اور زخموں سے محفوظ رہنا ایک معجزہ ہو گا۔ قومی یکجہتی اور حکمرانوں کا سیاسی تدبر ہی ملک کوخطرناک حالات سے بچا سکتا ہے۔ اعلیٰ ترین سطح پر اس پر غور وفکر جاری ہے۔ آس پاس کے حالات اس قدر ناسازگار ہیں کہ ہر دم خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ بھارت کے ظالمانہ اقدامات سے کشمیر کا مسئلہ عفریت بن گیا ہے۔
پاکستان اور اس کے پڑوسی بھارت کے درمیان کچھ بھی وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ سرحدوں کے دونوں طرف آباد لوگوں کے نسلی اور مذہبی رشتے پاکستان کا اہم مسئلہ ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے اندر اگر ہمارے سیاسی رہنما یکجہتی پر آمادہ ہو جائیں اور خودکسی بھی سیاسی بد امنی سے باز آجائیں۔ ہم کشمیر کے مسئلے کو دنیا بھر کے مسلمانوں کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔
جس کی وجہ سے بھارت نے مسلمانوں کے رہنماء مہاتیر محمد کی کشمیریوں کی حمایت کو جواز بناتے ہوئے ملائیشیاء سے تجارتی تعلقات محدود کر لیے ہیں لیکن سلام ہے مہاتیر محمد پر جنھوں نے کاروباری نقصان تو برداشت کرلیا لیکن کشمیریوں کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹے جب کہ ہمارے رہنماء کشمیر کے بجائے حکومت کے پیچھے پڑے ہیں اور ملک بھر کی زندگی کو تہہ و بالاکر دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ وقت کسی مہم جوئی کا نہیں بلکہ قومی یکجہتی کا ہے ملک کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایک چھوٹی سی غلطی کا برسوں تک خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے اور ہمارے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔