جناح کی سوچ جیت گئی
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دشمنوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ دنیا میں بسنے والے مسلمانوں پر اﷲ کی زمین تنگ کرنی ہے۔ یہ لڑائی نئی نہیں بلکہ اﷲ کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ہی اس کا آغاز ہو گیا تھا جس کا کافروں کی جانب سے اسی وقت اظہار بھی شروع کر دیا گیا نو مسلموں پر مظالم کی داستانیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہ ہماری تاریخ کی سنہری یادیں ہیں جن کی مہک ہمیں آج بھی محسوس ہوتی ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کی بات کی جائے یہاں پر ہندوئوں اور مسلمانوں کا ساتھ کئی صدیوں پر محیط ہے جس میں زیادہ عرصہ مسلمان حکمران رہے اور ہندو ان کے باج گزار رہے لیکن پھر بعد میں ہمارے عیاش مسلم حکمرانوں کی بدولت ہم اپنے ہی ملک میں محکوم بن گئے تا آنکہ آزادی کی ایک بھر پور تحریک کے بعد قابض انگریز غیر منصفانہ ہماری تقسیم کر کے اپنے وطن واپس سدھار گیا۔
انگریز نے برصغیر کی غیر منصفانہ تقسیم اس بدنیتی کے ساتھ کی کہ نئی مسلم ریاست پاکستان اس تقسیم سے پیدا ہونے والی مشکلات سے ایک ناکام ریاست میں تبدیل ہو جائے لیکن جو ملک اﷲ اور اس کے رسول کے نام پر حاصل کیا گیا ہو، اس نے ناکام تو کیا ہونا تھا لیکن پاکستان اوربھارت کے قیام کے بعد ایسے مسئلوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا جن کا حل آج تک نہیں نکل سکا۔ کروڑوں کی تعداد میں بھارت میں بسنے والے مسلمان ہندوئوں کی مسلم دشمنی کا شکار بنے ہوئے ہیں اور آئے روز ان پر بھارتی ہندوئوں کے جبر کی خبریں ہم سنتے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ برصغیر کی تقسیم کے وقت سے دونوں ملکوں کے درمیان تنارعہ کی بنیادی وجہ چلا آ رہا ہے جہاں پر کشمیری مسلمان گزشتہ کئی ماہ سے بھارتی جبر کی مثال بنے ہوئے ہیں۔ بھارتی سرکار نے مسلمان دشمنی میں ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے تارکین وطن مسلمان شہریوں کو بھارتی شہریت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے لیے قانون بھی منظور کر لیا گیا جس کی بھارت کی مختلف ریاستوں میں بھر پور مخالفت کی جا رہی ہے، اس مسلم دشمن قانون کے خلاف مظاہرے اور ہڑتالیں جاری ہیں خاص طور پر بھارتی ریاست آسام میں مدتوں سے پناہ گزین بنگلہ دیشی تارکین وطن اس قانون کا اولین نشانہ بنیں گے۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست کا دعویدار ہے۔ جمہوریت مخالف اقدامات سے اپنے نام نہاد دعوئوں کی نفی اپنے مسلم دشمن اقدامات سے کرتا رہتا ہے۔ مسلمانوں پر تازہ ترین حملہ مسلم مخالف شہریت بل کی شکل میں سامنے آیا ہے جس میں خاص طور پر مسلمان تارکین وطن کو بھارت میں پناہ دینے یا بھارتی شہریت دینے پر ایک قانون کے ذریعے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس بل کی مخالفت میں گانگریسی رہنماء راہول گاندھی نے کہا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت نے بھارتی آئین پر حملہ کرتے ہوئے مسلم مخالف قانون منظور کر کے بھارتی قوم کی بنیادوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
برصغیر کی تقسیم میں مسلمانوں کا موقف اور مسلم رہنمائوں کی سیاسی بصیرت کی یاد موجودہ بھارتی اقدامات سے ایک مرتبہ پھر تازہ ہو گئی ہے اور بھارت نے متعصبانہ بل کے ذریعے مسلمانوں کے اس نظریئے کو دوام بخشا ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ سب سے خوبصورت تبصرہ کانگریس کے رہنماء ششی تھررو نے کیا ہے، انھوں نے مسلم مخالف بل کی منظوری پر کہا کہ محمد علی جناح کی سوچ جیت گئی اور گاندھی کا نظریہ دفن ہو گیا۔ مسلمانوں کے رہنما محمد علی جناح کی سوچ کو ایک مرتبہ پھر سلام پیش کرنا ہو گا جنھوں نے برصغیر کی تقسیم اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ اسی بنیاد پر کیا تھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں جن کا مذہب کے علاوہ رہن سہن بھی الگ الگ ہے۔ محمد علی جناح کی سوچ کو دو قومی نظریئے کا نام دیا گیا۔
مسلم دشمن اقدامات سے پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ کی تائید بھارت وقتاً فوقتاً کرتا رہتا ہے۔ برصغیر کی جغرافیائی سرحدوں کی تقسیم مسلم آبادی والی ریاستوں کی بنیاد پر ہو جاتی اور انگریز سرکار اس میں ڈنڈی نہ مارتی تو برصغیر کے مسلمان آج سکھ اور چین کی زندگی بسر کر رہے ہوتے لیکن انگریزوں کی غیر منصفی اور ہندوئوں کی جانب ان کے غیر معمولی جھکائو نے مسلمانوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا، ایک حصہ مشرقی پاکستان کہلایا جو بھارت کی مکاری کی اور ہماری اپنی اور غیر کی غلطیوں کی وجہ سے بنگلہ دیش بن گیا، باقی ماندہ پاکستان میں ہمارے لیڈر حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں جب کہ ہم سے زیادہ تعداد میں مسلمان بھارت میں آباد ہیں اور ہندوئوں کے جبر و ستم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بھارت کا مسلم شہریت کے متعلق متعصبانہ فیصلہ پاکستان میں موجود بھارت نوازوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو دو قومی نظریئے سے ہمیشہ انکاری رہے اور پاکستان میں بیٹھ کر بھارت کا راگ الاپتے اور ان کی مالا جپتے رہتے ہیں۔
مذہب کو بنیاد بنا کرقانون میں تبدیلی کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ پاکستان نے سفارتی سطح پر اس معاملے پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اس قانون کو دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی تعلقات نے بھارتی رہنمائوں پر پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔ دراصل یہ قانون ایک قومیت کے فلسفہ کو ظاہر کرتا ہے یعنی بھارت میں اگر کوئی رہے گا تو وہ صرف ہندو مذہب والا ہی ہو گا لیکن ہندوستان کی تاریخ اس کی نفی کرتی ہے۔ ہندوستان میں صدیوں سے مختلف قومیں آباد رہی ہیں۔ موجودہ بھارت میں اب ہندوئوں کا راج ہے لیکن ہندوئوں کے علاوہ اقلیتوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے خاص طور پر مسلمان ایک بہت بڑی اقلیت ہیں، دوسرے مذاہب کے علاوہ ہندوئوں نے ذات پات کو بنیاد بنا کر اپنے ہی نچلی ذات کے ہندوئوں کو بھی اقلیت کا درجہ دے رکھا ہے۔
یہ سیکولر بھارت کا اصل چہرہ ہے جس سے نقاب اتر رہا ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار انسانی حقوق کی پامالی میں کس طرح پیش پیش ہیں۔ مجھے گانگریس کے رہنماء کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ محمد علی جناح کی سوچ جیت گئی اور بھارت میں گاندھی کا نظریہ دفن ہو گیا ہے۔