اقبال -دورِ حاضر کا سُر خیل
ایران کے ملک الشعراء محمد تقی بہار خراسانی جو 1886 عیسوی میں پیدا ہوئے اور 1953 عیسوی میں وفات پائی فرماتے ہیں،
عہدِ حاضر اقبال کے لیے مخصوص ہو گیا، وہ ایسا فرد ہے جو ہزاروں پر سبقت لے گیا،
اُ س کے کلام سے ایک ایسا ہیکل تعمیر ہو گیا، جس میں فکر اور فن کی تمام خوبیاں جمع ہیں۔
تہران ایران کے ہوائی مستقر سے باہر نکل کر شہر کی طرف جائیں تو ایک بہت ہی بڑا چوک، ُبرجِ آزادی، نظر آتا ہے اس چوک کو انقلابِ ایران کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا لیکن حیرت کی انتہا ہے کہ جس ملک میں سعدی شیرازی، حافظ اور فردوسی جیسے ایک سے ایک بڑھ کر شعراء اور ادیب ملتے ہیں وہاں اس اہم چوک کے اندر لکھنے کے لیے ایرانی قیادت نے اقبال کی شاعری سے اشعار منتخب کیے۔
2013 میں آذر بائی جان کی حکومت اور عوام نے اپنے سب سے مشہور شاعر جناب نظامی گنجوی کی سات سو سترویں برسی بہت عقیدت اور شاندار طریقے سے منائی۔ کوئی بائیس ملکوں سے نمایندہ افراد کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ میری خوش قسمتی کہ پاکستان سے مجھے بلایا گیا۔ باکو میں پہلے دن ڈپٹی وزیرِاعظم نے شام کے کھانے کی دعوت میں مجھے بتایا کہ آذربائی جان میں علامہ اقبال کو شوق سے پڑھا جاتا ہے اور یہ کہ تمام وسط ایشیائی ریاستوں میں اقبال پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے فارن کرنسی کی حیثیت رکھتا ہے۔
کسی بھی شاعر، مفکر یا ادیب کی ادبی عظمت کی ایک بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ sublimity کو چھو لے۔ یہ معیارحاصل کرنے کے لیے فکر و خیال کی بلندی، گرینڈ ڈِکشن، وجدان، وسیع و گہرا مطالعہ اور مسلسل محنت درکار ہوتی ہے۔ آیئے فکری اساس کی طرف تو بقول سید مودودی، فکر اقبال کے تناظر میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن ہی ان کی فکر کی بنیادی اساس ہے اور قرآن سے الگ کوئی فکری وجود نہیں، قرآن سے بلند، ارفع و اعلیٰ اساس ہو ہی نہیں سکتی۔ سید ندوی فرماتے ہیں کہ اقبال کی شخصیت میں جو جامعیت۔ بلندی فکر و خیال۔ سوز اور جاذبیت نظر آتی ہے اس کا تعلق اقبال کی زندگی کے اس رخ سے ہے جسے ہم یقین و ایمان کہتے ہیں۔ اقبال کی گرینڈ ڈِکشن ایسی کہ بے شمار شعرا کے اشعار میں اقبا ل کا شعر پہچانا جا سکتا ہے۔
اقبال کے فکر و خیال کی بلندی کے بعد اقبال کے مطالعے کی وسعت کی طرف آیئے۔ آپ اقبال کے کلام پر نگاہ دوڑایئے اور موضوعات کا تنوع دیکھیے اور ساتھ ساتھ متنوع موضوعات کا ٹریٹمنٹ دیکھیے۔ آپ یہ دیکھ کر حیران اور دم بخود رہ جائیں گے کہ ان کے لیے کتنا مطالعہ کرنا پڑا ہو گا۔ کتنا مِڈ نائٹ آئل جلانا پڑا ہوگا۔ آپ نیچر کی منظر نگاری ملاحظہ کریں۔ پھول ہیں صحر ا میں یا پریاں قطار اندر قطار- اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن۔ اسی طرح پھولوں کی منظر نگاری دیکھیے، گل و نرگس و سوسن و نسترن، شہید ِ ازل لالہ خونیں کفن۔ دیکھیے لالے کے پھول کو کس سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اسی کو ادب کی زبان میں Metaphysical conceitکہا جا سکتاہے۔ اب آسٹرولوجی کی طرف آیئے۔ ہم روزانہ بے شمار ٹی وی پروگراموں میں دیکھتے ہیں۔ اخبار و جرائد روزانہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ آپ کا دن یا ہفتہ کیسے گزرے گا۔ اقبال اس بارے میں فرماتے ہیں۔
ستارہ کیامری تقدیرکی خبردے گا۔ وہ خود فراخئی افلاک میں ہے خوارو زبوں۔
انسانی قوت و ہمت کیا کر سکتی ہے اور انسان الجھ کر رہ جائے تو کیا ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں۔ گاہ میری نگاہِ تیزچیر گئی دلِ وجود۔ گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں۔ اب دیکھیے آنے والے دور میں کیا ہو گا۔ فرماتے ہیں، گراں خواب چینی سنبھلنے لگے، ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے۔ چینی صرف سنبھلے ہی نہیں دنیا کی واحد سپرپاور کو ہر میدان میں زِچ کر کے رکھ دیاہے۔ سائنسی موضوعات پر قلم اٹھایا تو اس ہر دم پھیلتی کائنات کے بارے میں یوں گویا ہوئے، یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید -کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکون۔ ایٹم اور اس کے مرکزے Nucleus میں پنہاں کائنات کے بارے میں فرمایا، حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو۔ لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دِل چیریں۔ اسٹرنگ تھیوری کو سامنے رکھیں اور دیکھیں علامہ کیا فرماتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے فریبِ نظر ہے سکون و ثبات۔۔ تڑپتا ہے ہرذرئہ کائنات۔
اعلیٰ شاعری میں ترنم، نغمگی اور موسیقیت کا ہونا لازمی امر ہے ورنہ شعر اور نثرکے اثرات ایک جیسے ہوں گے۔ اردو کا کوئی شاعر ترنم اور موسیقیت میں علامہ کے ہم پلہ نہیں ہو سکا اگر غالب بلاغت میں اقبال کی ہمسری کرتے نظر آئیں گے تو ان کے کلام میں موسیقیت میں ایسی ہمواری اور روانی نہیں ملے گی جو حضرت علامہ کے ہاں ہے۔ اسی طرح داغ کے ہاں ان جیسی موسیقیت تو ملے گی لیکن بلاغت کی کمی آڑے آئے گی۔ اقبال کے کلام کا کوئی ایک مصرع بھی ایسا نہیں ملے گا جس کو نازک سے نازک ساز پر گایا نہ جا سکے۔
اب آیئے حضرت علامہ کے وجدان کی جانب۔ وجدان ہی فکر کو پرواز بخشتا ہے۔ یہ وجدان ہی وہ بنیادی بات ہے جو علامہ کو دوسرے شعراء سے ممتاز کرتی ہے اور یہی آپ کو شاعری پر مجبور کرتاہے۔ فرماتے ہیں، در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے۔۔ یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ۔ کمالِ فکر و فن کی یہ بلندی اور جاذبیت اپنی جگہ لیکن اقبال اپنی شاعری کو وجہ، افتخار بالکل نہیں جانتے اسی لیے فرمایا، خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری۔۔ وگرنہ شعر میرا کیا اور شاعری کیا ہے۔ ورڈزورتھ نے شاعری کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاعری طاقتور جذبات و احساسات کے پھُوٹ کر باہر بہہ جانے کا نام ہے۔ علامہ کو دیکھیے، فرماتے ہیں، میں صورتِ گُل دست صبا کا نہیں محتاج۔ کرتا ہے میرا جوشِ جنوں میری قبا چاک۔
آپ نے اسد اﷲ غالب کا یہ شعر تو کئی بار سنا ہو گا نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا۔ ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔
اصل میں تقریباً تمام ہی مذاہب اور فلسفے کی معراج حضرتِ غالب کے اس شعر میں پنہاں ہے۔ جب بھی کسی فلسفی نے اپنی آخری بات کی ہے تو وہ یہ کہ اپنی ذات کی اس طرح نفی کر دیں کہ آپ نیچر یا کُل کائنات میں سمو جائیں اس کا ایک جزو بن جائیں۔ اسلام کو چھوڑ کر تمام ادیان و فلسفے آپ کو یہی درس دیں گے لیکن سیدنا علی ؑ نے اپنے اﷲ کا شُکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ شکر ہے تو نے مجھے یہ وجود عطا فرمایا تاکہ اس وجود کے ذریعے میں تجھے پہچان سکوں۔ علامہ اقبال بھی جگہ جگہ یہی درس دیتے ملتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بندہ، مومن آرزو، ارادہ، لگن اور کوشش سے نیابتِ الٰہی کی سیڑھی چڑھ کر اتنا Growکرے، اتنا Develop کرے، اپنی ذات کو اتنا پُرکشش بنائے کہ کائنات میں ہر شے یہ تمنا کرے کہ وہ اس کا حصہ بن جائے یعنی اپنے آپ کو شرمندہ، ساحل نہیں بنانا بلکہ بے کراں ہونا ہے فرمایا
تو اے شرمندہ، ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا۔ پھر فرمایا کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے – مومن کی یہ پہچان کہ گُم اس میں ہیں آفاق۔ ایک اور جگہ فرمایا، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے۔ جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے۔
ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی شخصیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے چاہے وہ بات کتنے ہی زاویوں اور جہتوں سے ہو لیکن ہمیشہ آخر میں تشنگی کا شدید احساس برقرار رہے، حضرتِ علامہ اُنہی نابغہ، روزگار ہستیوں میں سے ہیں کہ بات کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ علامہ کا یہ اعجاز میرے خیال میں صرف اور صرف اس وجہ سے ہے کہ آپ کو سیدی و سیدنا ختم المرسلینﷺ سے اتنا عشق تھا کہ جو بیان سے باہر ہے۔
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید، نسیمے از حجاز آید کہ ناید – سرآمد روز گارِ ایں فقیرے دگر دانائے راز آ ید کہ نہ آید۔