ہم نے طیب اردگان اور مہاتیر محمد کے ساتھ کیا ،کِیا
ملائیشین وزیرِاعظم جناب مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ کوالالمپور کانفرنس کا مقصد مسلم امہ کو درپیش بحرانوں، اور مسائل کو سمجھنا تھا۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں انھوں نے او آئی سی پر زور دیا کہ وہ دنیا میں مسلمانوں کا دفاع کرے، ان کی رائے میں کوالالمپور کانفرنس کا مقصد مسلمانوں کی تفریق ہرگز نہیں۔ مسلمانوں کی حالتِ زار پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جدید دور میں مسلم ممالک تمام تر قیمتی وسائل اور بے پناہ دولت سے مالامال ہیں لیکن انھیں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔
یہ کانفرنس ان مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ ماضی میں اسلامی ریاستیں ترقی اور تہذیب و تمدن کا مرکز رہی ہیں جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو دنیا بھر میں پھیلایا مگر آج کی دنیا میں مسلم امہ رسوائی سے دوچار، علم و آگہی سے بے بہرہ، سائنس اور ٹیکنالوجی سے دور، انسانی تہذیب سے عاری اور دہشت گردی کاگڑھ سمجھی جاتی ہے۔ اچھا مستقبل بنانے کے لیے مسلم ممالک کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔
اس وقت اسلام کے بارے میں دنیا کے منفی تاثرات اور بڑھتے اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے گورننس میں بنیادی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ابتدا کرنی ہو گی اور اگر یہ خیالات، تجاویز اور حل قابلِ قبول ہوں تو انھیں بڑے پلیٹ فارم کے اوپر غور کے لیے پیش کیا جانا چاہیے۔ اس کانفرنس کے ذریعے یہ موقع پیداہوا ہے کہ مسلمان اپنے مسائل پر کھُل کر بات کریں۔ بڑے بڑے مسائل میں اسلامو فوبیا، داخلی لڑائیاں، فرقہ وارانہ اور نسلی امتیاز شامل ہیں جو مسلم امہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
5اگست کو بھارت نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مقبوضہ ریاستِ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور اس سے چند روز پہلے ہی ایسے ظالمانہ اور وحشیانہ اقدامات شروع کر دیے جن کی وجہ سے پوری مقبوضہ وادی ایک بڑے ڈیٹنشن سینٹر میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔ ستمبر اکتوبر کے اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے وزیرِ اعظم جناب عمران خان روانہ ہوئے تو راستے میں سعودی عرب رکے۔ وہاں سے نیویارک کی اُڑان بھرنے سے پہلے انھوں نے مسلمان ممالک کا خاص طور پر گلہ کیا کہ انھیں مسلمانانِ کشمیر کی مشکلات اور تکالیف سے کوئی سروکار نہیں۔
اقوامِ متحدہ میں وزیرِاعظم پاکستان نے ایک جاندار تقریر کی۔ جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران سائڈ لائن پر ترک صدر جناب طیب اردوان، جنابِ وزیرِ اعظم پاکستان اور ملائیشیا کے وزیرِ اعظم جناب مہاتیر محمد کی ایک ملاقات ہوئی جس میں عمران خان نے کشمیر پر مسلمان ممالک کی بے حسی کا تذکرہ کیا۔ ترک صدر اور ملائیشین پی ایم نے عمران خان کی تقریر اور خیالات کو سنجیدہ ہی لے لیا اور ملاقات میں طے پایا کہ بہت جلد مسلمان حکمرانون، لیڈروں، دانشوروں، سائنس دانوں اور علماء کی ایک کانفرنس بلا کر امہ کو درپیش مسائل کا بھرپور جائزہ لیا جائے، ٹرائی لیٹرل ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ ایک عالمی سطح کا ٹی وی چینل شروع کیا جائے جو مسلمان کاز کو فوکس میں رکھے۔
جناب مہاتیر محمد نے حامی بھر لی کہ وہ اس سلسلے میں پہلی کانفرنس کے لیے کوالا لمپور میں میزبانی کریں گے۔ ترک صدر، ایرانی صدر اور وزیرِ اعظم پاکستان نے شرکت کی تصدیق بھی کر دی۔ یاد رہے کہ کشمیریوں کی موجودہ حالت زار اور بھارت کے بے رحمانہ جبرو استبداد کے خلاف جن چند مسلم ممالک نے پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی ان میں جناب طیب اردوان، جناب مہاتیر محمد اور ایران کے سپریم لیڈر جناب آیت اﷲ خامنہ ای ہی ہیں۔ دوسری طرف سعودیہ متحدہ عرب امارات، بحرین نے دھیما موقف اختیار کیے رکھا۔
مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ صدیوں سے غیر جمہوری حکمرانوں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں۔ کہیں بادشاہت تو کہیں ڈکٹیٹر شپ۔ پالیسی بنانے والے اگر عوام کی نمایندگی نہ کر رہے ہوں تو گراس روٹ لیول کے مسائل سے باخبر ہوتے ہیں اور نہ ہی عوامی امنگوں کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنے ملکی اور غیر ملکی آ قاؤں کے مفاد کا تحفظ کریں۔ مسلمان ممالک میں صرف ایران، ترکی اور ملائیشیا میں جمہوریت ہے۔ یہ جمہوریت ہی کا پھل ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سائڈ لائن پر ہونے والی ملاقات نتیجہ خیز ثابت ہوئی کیونکہ ترکی، ایران اور ملائیشیا کے حکمران اپنے ضمیر اورعوام کی آواز سن رہے تھے ان کو امریکا یا کوئی اور ملک ڈکٹیشن نہیں دے سکتا تھا۔
ہمارے لیے تمام مسلمان ممالک میں ترکی کی یہ اہمیت ہے کہ وہ پاکستان کا بے لوث ساتھی ہے۔ ترک پاکستانیوں سے ملکر خوش ہو جاتے ہیں۔ جناب طیب اردوان ایک منجھے ہوئے عالمی رہنما اور زیرک مسلمان سیاستدان ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو فلاں فلاں دھمکی دی ہے بہت سنجیدہ بات ہے۔ سعودی سفارتخانہ اسلام آباد نے پاکستان پر دباؤ سے متعلق ترک صدر جناب طیب اردوان کا بیان مسترد کر دیا ہے۔ سعودی سفارت خانے نے کوالالمپور سربراہی ملاقات میں پاکستان کی عدم شرکت پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ سعودیہ نے پاکستان کو کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے روکا اور نہ ہی کوئی دھمکی دی۔ اس حوالے سے تمام خبریں جھوٹی اور بے بنیاد ہیں۔
مزید یہ کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں کہ جہاں دھمکیوں کی زبان میں بات ہوتی ہو۔ یہ تعلقات بہت گہرے اور تزویراتی ہیں۔ سعودی عرب دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ ادھر او آئی سی نے ملائیشیا کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس کی شدید مذمت کی ہے۔ گلف نیوز نے سعودی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ کہ سیکریٹری جنرل او آئی سی نے کہا ہے کہ تنظیم کے علاوہ مسلم ممالک کا اجلاس یا سر براہ کانفرنس منعقد کرنا قابلِ قبول نہیں کیونکہ ایسا کرنا عالمی برادری کے سامنے مسلمانوں کو کمزور کرتا ہے۔ کوالالمپور کانفرنس اجماع امت سے باہر نکلنے کی کوشش ہے جو مسلمانوں کے مفاد میں ہرگز نہیں۔
او آئی سی کے بیان سے واضح ہے کہ ملائیشین کانفرنس منظور نہیں۔ جو بھی ان معاملات پر نظر رکھتا ہو وہ جانتا ہو گا کہ یہ تنظیم اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ اس میں اب کوئی شبہ نہیں کہ جناب عمران خان نے خود شروعات کیں، کانفرنس میں شرکت کی تصدیق کی اور پھر سعودی اور عرب امارات کے دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ وہ نہ صرف خود نہیں گئے بلکہ پاکستان نے سفیر یا قونصلر کی سطح پر بھی شرکت نہیں کی یہ ایک طرح سے بائیکاٹ ہو گیا۔ وہ ممالک جو ہر گرم سرد میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے ان کو چھوڑ کر ہم نے حاصل کچھ نہیں کیا گنوایا بہت ہے۔ آنے والے وقت میں کون ہمارا اعتبار کرے گا جب کہ بھارت کسی وقت مہم جوئی کر سکتاہے۔