بھارتی شہریت ترمیمی بل ، احتجاج ، ہنگامے اور جینوسائڈ واچ
چند روز پہلے بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے ایک ترمیمی بل کی منظوری دی جسے شہریت ترمیمی بِل (Citizen Amendment Bill)کا ٹائیٹل دیا گیا۔ اس نئے بل کی رُو سے ایک نیا قانون معرضِ وجود میں آیا ہے جو بھارت کے تین مسلم اکثریتی پڑوسی ملکوں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت آنے والے غیرمسلموں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اس ملک کی شہریت حاصل کر سکیں، ان غیر مسلموں کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ان کے عقیدے کی وجہ سے انھیں ان کے ملک میں (Persecution)یعنی مسلسل جبر و استعداد اور ایذارسانی کا سامنا رہا ہے۔
اس بل کے پارلیمنٹ سے پاس ہوتے ہی سارے بھارت میں ہلچل مچ گئی جو جلد ہی احتجاج، مظاہروں اور فسادات میں بدل گئی۔ ابتداء میں شمال مشرقی ریاست آسام اور مغربی بنگال میں مظاہرین نے کئی بڑی شاہراہوں کو بند کر دیا، بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں اور ریل گاڑیوں پر حملے ہوئے۔ آسام اور مغربی بنگال میں یہ ہنگامے اورفسادات جاری ہیں اور آگ و خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
احتجاج کی شدت کو دیکھتے ہوئے کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ پیرا ملٹری دستے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے نہیں دیتے اور جو نکلنے کی کوشش کرتا ہے اسے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہفتے کو کئی لوگ گوہاٹی میں مارے گئے اور کئی درجن زخمی بھی ہوئے لیکن مظاہرین کے حوصلے بلند ہیں اور انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ انجام کی پرواہ کیے بغیر کرفیو کی خلاف ورزی جاری رکھیں گے۔
جمعہ کے دن سے طلبا اور تقریباً ہر طبقے کے لوگ مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان مظاہرین اور خاص کر طلبا کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں جاری ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احتجاج پھیلتا جا رہا ہے۔ پولیس نے مظاہرین سے نبٹنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا ہے اور آخر ی خبریں آنے تک یہ کہاجا رہا تھا کہ پولیس نے مظاہرین پر گولیاں برسائی ہیں۔ بی بی سی نے کہا ہے کہ پہلے دن کم از کم چالیس طلبا کو نئی دہلی میں گرفتار کیا گیا ہے۔
بی بی سی نے یہ بھی کہا ہے کہ گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر لوگوں کے اندر اس بل کے خلاف بہت غصہ پایا جاتا ہے۔ مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بینرجی نے اس بل کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ انھوں نے بل کی مخالفت میں ایک ریلی کی قیادت بھی کی اور اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ اس قانون کو مغربی بنگال میں لاگو نہیں ہونے دیں گی۔ ممتا بینرجی نے آنے والے دنوں میں مزید مظاہروں کی حمایت کی ہے۔ پنجاب، کیرالہ، مدھیا پردیش، چھتیس گڑھ اور کرناٹک کے وزرائے اعلیٰ نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی اپنی ریاستوں میں اس قانوں کو نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے کہ ایک فیڈرل قانون کو ریاستیں رد کر رہی ہیں۔
حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت انڈین نیشنل کانگریس اور کچھ مسلمان گروپوں نے کہا ہے یہ بل وزیرِاعظم نریندر مودی کی جانب سے بھارت کو ہندوتوا کی طرف دھکیلنے کی طرف ایک مذموم سازش ہے۔ یہ بل مسلمانوں کو بھارتی قومیت سے جدا کرتا نظر آتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بل آئین میں سیکولر پرنسپلز کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی آئین میں دئے گئے یہ سیکولر آرٹیکلز مذہبی بنیادوں پر کسی بھی قسم کی اور کسی کے بھی خلاف امتیازی سلوک سے بچاتے ہیں۔
انڈین یونین مسلم لیگ نے سٹیزن ترمیمی بل کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی جس میں کہا گیا کہ اس ترمیم سے آئین کے وہ آرٹیکلز جن میں برابری، بنیادی حقوق اور زندہ رہنے کا حق دیا گیا ہے ان آرٹیکلز کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ البتہ عدالت نے درخواست رد کر دی ہے ادھرسات سو سے زیادہ بھارتی Celebrities نے ایک بیان پر دستخط کیے ہیں جس میں بھارتی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ اس حکومتی اقدام سے ایک غلط سگنل گیا ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور اتنی بڑی جمہوریت محض دکھاوا ہے۔ بل کے خلاف مظاہرے ملک گیر ہو چکے ہیں۔ متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے نئی دہلی میں بل کے خلاف دھرنا شروع کر دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے بھارت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے بل کو فوراً واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان نے کہا کہ بھارتی بل مسلمانوں کے خلاف تعصب کے سوا کچھ نہیں۔ بنگلہ دیش کی سیاسی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے میر پور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون بنگلہ دیش کی خود مختاری اور آزادی کے لیے خطرہ ہے۔
یہ نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ تمام خطے کو غیر مستحکم کر دے گا۔ چینی اخبار ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے لکھا ہے کہ بھارتی وزیرِاعظم مودی نے اس قانون کے ذریعے خانہ جنگی چھیڑ دی ہے۔ بھارت کی معیشت مسلسل زوال پذیر ہے۔ اسے اس دلدل سے نکالنے کے بجائے مودی حکومت نے ایسا اقدام اٹھایا ہے جو سیکولرزم پر مبنی بھارتی آئین کے یکسر منافی اور جرمن نازی دور کی کارروائیوں سے مشابہ ہے۔ ادھر راہول اور پرنیکا گاندھی نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور مظاہرین سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔
عالمی سطح پر جینوسائڈ کے ماہر ڈاکٹر گریگوری نے امریکی کانگریس کو بریف کرتے ہوئے وارننگ دی کہ بھارت میں مسلمانوں کو صفحہء ہستی سے مٹائے جانے کا امکان ہے، ڈاکٹر گریگوری جو کہ انٹرنیشنل جینوسائڈ واچ International Genocide Watch کے بانی ہیں انھوں نے امریکی کانگریس اور حکومتی اہلکاروں سے خطاب کیا اور بارہ دسمبر کو کشمیر میں زمینی حقائق پر رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں گریگوری نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے بہت بڑے پیمانے پر قتلِ عام کی تیاری جاری ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ کشمیر اور آسام میں وہ مرحلہ دیکھنے کو آرہا ہے جو قتلِ عام سے ذرا پہلے آتا ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ جینوسائڈ ہو گا۔ ڈاکٹر گریگوری نے ان دس مراحل سے آگاہ کیا جو جینوسائڈ پر آ کر منتج ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ ہمارے مقابلے میں وہ یا اُن کا ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے پر victimکو اجنبی بنا دیا جاتاہے۔ تیسرے مرحلے پر امتیازی برتاؤ آتا ہے اس مرحلے پر victim کے بنیادی حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں۔ چوتھا مرحلہ غیر انسانی مرحلہ ہے جس میں victimکو اپنے سے گھٹیا اور کم تر جانا جاتا ہے۔
اس مرحلے پر آپ انھیں جانور، دہشت گرد اور بیماری کے القاب دے کر علیحدہ کرتے ہیں، پانچویں مرحلے پر ایک تنظیم پیدا کی جاتی ہے جو ان لوگوں کو ختم کرنے کا کام کرتی ہے، ڈاکٹر گریگوری کے مطابق انڈین آرمی کشمیر اور آسام میں اسی تنظیم کا کام کر رہی ہے۔ چھٹی سطح پر پروپیگنڈے کے ذریعے پولرائزیشن polarizationکر دی جاتی ہے، ساتویں مرحلے پر تیاری مکمل کی جاتی ہے۔ آٹھواں مرحلہ مسلسل جبر و استعداد Persecution کاہوتاہے اور یہی مرحلہ کشمیر اور آسام میں اس وقت جاری ہے۔ نواں مرحلہ صفحہء ہستی سے مٹا دینے exterminateکا ہوتا ہے اور دسویں مرحلے میں کام تمام کرنے کے بعد مسلسل جھوٹ کے ذریعے حقیقت سے مُکر جانا ہوتا ہے۔
انسانی حقوق کے ایک اور علمبردار سٹیٹا نے بھی وڈیو لنک کے ذریعے امریکی کانگریس سے خطاب کیا اور بتایا کہ کس طرح آسام میں جینوسائڈ کی طرف بڑھا جا رہا ہے۔ اس نے بھارتی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے بھارتی عوام بے پناہ تکالیف جھیلیں گے اور ساتھ ہی جمہوریت کو بڑا نقصان ہو گا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ بھارتی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنے آئین سے دھوکا نہیں کرنا چاہیے۔ امریکی کانگریس کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت جس رُخ پر جا رہا ہے۔
اس پر انھیں تشویش ہے تاہم ترجمان نے اعتراف کیا کہ ان کی تنقید کا بھارتی وزیرِ اعظم مودی پر کم ہی اثر ہوگا کیونکہ بھارت میں اندرونی سیاست تمام پالیسیوں پر حاوی ہو رہی ہے۔ ترجمان کا یہ کہنا کہ مودی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوگی حقیقت کے بہت قریب ہے لیکن حالات اگر یوں ہی بگڑتے رہے، خانہ جنگی کی کیفیت رہی تو شاید بھارت کی ٹوٹ پھوٹ وقت سے پہلے شروع ہو جائے۔ یہ ہونا تو ہے اور ہو کر رہے گا لیکن کیا اس کی وجہ مودی اور آر ایس ایس بنیں گے، دیکھتے ہیں۔