1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Main, Wo, Hum

Main, Wo, Hum

میں ، وہ ، ہم

آج ہماری ویڈنگ اینیورسری ہے۔۔۔ پچھلے ہزارئیے کا آخری عشرہ پچھلے پیروں پہ چل رہا تھا مڑ کر سال گنے تو برسوں کی ایک لمبی تسبیح تھی دانے گرنے لگے۔ آج کے دن ہم نے ایک دوسرے کی ہمراہی میں شاہراہِ حیات کی کہکشاں پہ ایک ساتھ قدم رکھے تھے اور رب کے حکم سے اپنے حصے کی دنیا کھوجنے نکلے تھے۔۔ مہربان دھرتی نے ہمارے لئے اپنا سینہ وا کر دیا اور بڑی خوبصورتی سے ہمیں خوش آمدید کہا تھا۔۔ ہم بھر بھر ستارے اپنے دامن میں ڈالنے لگے۔ کسی بلیک ہول کا کبھی خیال نہیں آیا۔۔ زندگی کا مقصد ہم اور ہمارے بچے رہے۔ ہم نے زندگی کو دو صدیوں تک جیا۔۔۔

پھر بھی کل کی بات لگتی ہے ہر دن، مہینہ اور سال اپنی پوری جزیات کے ساتھ ہمارے دماغ کی میموری میں افشاں کی طرح جھلملاتا ہوا محفوظ ہے۔ ڈائری لکھنے کی عادت تھی تو بہت سی جگہوں پہ جد و جہد کے بہت سے یاد گار دن محفوظ ہیں۔۔ کڑی مشقت تھی جو ہم نے اپنے اوپر لازم رکھی جیسے کسی خانقاہ کے صوفی کو ہر وقت باوضو ہونے کی فکر دامن گیر رہے۔ میں ہمیشہ زندگی کے بہت سے قیمتی پل کبھی لکھ کر اور کبھی کیمرے سے محفوظ کر لیتی تھی۔ رات پرانے البمز کھولے تو یادوں کی ایک ست رنگی لڑی تھی جو جگمگاتی ہوئی آسمان تک جاتی تھی۔ ضمیر ایکدم مطمئن تھا کبھی جان بوجھ کر کوتاہی نہیں کی۔

ہم خوش ہونے کے لئے کبھی بڑی بڑی خوشیوں کی تلاش میں نہیں رہے۔ بچوں کے اکیڈمک ریکارڈ ہمارے لئے عید جیسی اہمیت رکھتے تھے۔ خوشی کا جو بھی پل وقت نے ہماری قسمت میں کیا ہم نے غنیمت سمجھا اور اسے اپنا آسمان سمجھ لیا۔

ایک دو تین چار۔۔ قدرت نے بہت خوبصورت ذہین و فطین بچے یکے بعد دیگرے عطا کئے۔ ہم نے رب کی رضا کے لئے انکی پرورش میں جان لڑا دی جو ہمیں جانتے ہیں وہ گواہ ہیں۔ ایک ایک بچے کا تعلیمی پورٹ فولیو بڑی محنت اور دلجمعی سے بنایا تھا اپنے تئیں ہم نے زندگی کو بہت خوبصورتی سے جیا۔ یہ نہیں تھا کہ ہمارے ہر طرف سے دھن دولت اور آسانیاں برس رہی تھیں یا ہمیں صرف سکھ ہی سکھ ملے بس یہ تھا کہ جو دکھ بھی ملے ہم نے انہیں سکھوں کا صدقہ سمجھا اور مل بانٹ کے مقابلہ کر لیا۔ گذشتہ برسوں نے ہماری جھولی میں بہت کچھ ڈالا ہے۔ لائق فائق تربیت یافتہ بچے، بچیاں جن کی تربیت پہ ہمیں مان ہے۔ کندھوں پہ ندامت یا پچھتاوے کا کوئی بوجھ نہیں۔

تربیت کرنا اتنا آسان نہیں تھا دانتوں تلے پسینہ آگیا تھا راتوں کی نیند اڑ گئی تھی۔۔ ہم معاشرے کو کارآمد انسان دینا چاہتے تھے۔ بچوں کو معاشرے کے کندھوں پہ اپاہج بنا کے لادنا نہیں چاہتے تھے بچوں کی طرف سے مجھے ہر چیز پرفیکٹ چاہئے ہوتی تھی شکر ہے رب نے سرخرو فرمایا۔۔ آج اتنے برس گزرنے کے بعد ایک بیٹی اپنی منزل تک پہنچ چکی ہے ہم اس کے تمام فرائض سے بہ طریق احسن فارغ ہو چکے ہیں باقی تینوں پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔ انکی منزلوں کا تعین ہو چکا ہے بس ان کے حصے کا سفر باقی ہے۔

جہاں وقت نے اتنا نوازا ہے وہیں بہت کچھ لیا بھی ہے جسم میں کل پرزے پورے نہیں رہے ایک آنت نہیں ہے(چونتیس برس کی عمر میں پتا نکلوانا پڑا تھا)دو دانت نہیں ہیں۔ گزرے برسوں نے رنگ روپ اور نقوش پہ کئی نشان ثبت کئے ہیں چہرے پہ طویل مسافت کی تھکن اترنے لگی ہے جانے کب زندگی کی شام ہوجائے شائد یہ سب لکھنے کے لئے اگلے برس تک کی مہلت نہ ملے قبر میں پاؤں لٹک رہے ہیں۔

جب رختِ سفر باندھا تھا تو اپنے حصے کی دنیا کھوجنے نکل رہے تھے اب کھوج تمام ہو چکی ہے ہم اپنے بادبان کھول چکے ہیں بس جانے بوجھے راستوں پہ سہج سہج چلنا ہے۔ لیکن میں مطمئن ہوں کہ زندگی اب بھی بہت خوب صورت ہے شائد یہ طمانیت ہے کہ رب نے جس مقصد کے لئے ہمیں دنیا میں بھیجا تھا ہم نے عمدگی سے اس میں اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔۔

Check Also

Muhabbat Se Kab Tak Bhago Ge?

By Qurratulain Shoaib