Spanish Mazay Ki Zuban
اسپینش مزے کی زبان
اسپینش مزے کی زبان ہے۔ ویسے تو ہر زبان سیکھنے کا اپنا لطف ہے لیکن اسپینش کو سننا بولنا اور اس کے گانے سننا سب لبھاتا ہے۔
زبان کی سمجھ بوجھ پیدا ہوئی تو اپنی بہت سے غلطیوں کا احساس ہوا۔ اسپینش کے حروف تہجی انگریزی والے ہیں لیکن کئی حرف الگ طرح بولے جاتے ہیں۔ جیسے ض/ظ کے لیے ہم فارسی اور اردو میں زے کی آواز نکالتے ہیں جبکہ عربی میں یہ دال کی آواز پیدا کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے والضالین پر سنیوں اور شیعوں میں اختلاف ہے۔ اسی طرح ابوظبی کو لوگ ابوظہبی، ابو دھبی اور پتا نہیں کیسے کیسے بولتے ہیں۔ ث بھی عربی میں ت جیسی آواز والا ہے۔ حوثیوں کو اہل عرب کی طرح انگریزی میں حوتی یا حوتھی لکھا جاتا ہے جبکہ ہم حوسی کہتے ہیں۔
ہسپانوی کا ذکر تھا جس میں جیم کی آواز نہیں ہے۔ جی اور جے دونوں ہے کی آواز نکالتے ہیں۔ میں نے ایک بار ایک لڑکے کو اس کا نام پڑھ کر جورجی پکارا تو سب ہنسنے لگے۔ معلوم ہوا کہ اس کا نام ہورہے تھا۔
ایک لڑکی نے بتایا کہ اس کا نام بکتوریا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ اس کا نام وکٹوریا ہے لیکن وہ خود ٹھیک سے نہیں بول پاتی۔ پھر پتا چلا کہ ہسپانوی میں وی کو بی بولا جاتا ہے۔ لڑکی اپنا نام صحیح بتارہی تھی۔
ایک بچپن کی غلطی بھی درست ہوئی۔ چالیس سال پہلے تعلیم و تربیت نے سالنامے یا خاص نمبر میں دنیا بھر کے جانوروں کے نام اور تصویریں چھاپی تھیں۔ جنوبی امریکا کے ایک جانور کا نام لاما پڑھا۔ یہ اونٹ کی نسل کا لمبی گردن والا جانور ہوتا ہے جسے وہاں لوگ پالتے ہیں اور اس کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔ اس کا نام ڈبل ایل سے شروع ہوتا ہے۔ انگریزی بولنے والے اسے لاما ہی کہتے ہیں۔ لیکن اسپینش میں ڈبل ایل لکھا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے وائی۔ اس جانور کو مقامی لوگ لاما نہیں، یاما کہتے ہیں۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں اسپینش کو وقت دینے کا ارادہ ہے۔ پروجیکٹ منیجمنٹ کورسز میں یہ سیکھا کہ ہدف مقرر نہ کریں تو کامیابی نہیں ملتی اور مقرر کرلیں تو کافی حد تک پیشرفت ممکن ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ہدف مقرر کیا ہے کہ ایک سال میں مارکیز کا ناول اس کی زبان یعنی اسپینش میں پڑھنا ہے۔ ایک سال نہ سہی، دو چار برس میں بھی اس قابل ہوسکا تو بڑا کارنامہ ہوگا۔