Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Kitaben Bolti Hain

Kitaben Bolti Hain

کتابیں بولتی ہیں

بزرگوں سے سنتے آ ئے ہیں علم سیکھنا ہے تو دل میں کتاب اور عالم کی عزت پیدا کرنا شرط ہے۔ کسی زمانے میں کتابوں کی جلد بندی کا رواج تھا تاکہ کتاب پھٹ کر ضعیف نہ ہو جائے۔ قلمی نسخے لکھنے کا رواج تھا پرنٹنگ و پبلشنگ کمیاب تھی۔ صاحبانِ علم اپنے ہاتھ سے حاشیہ لکھتے تھے اور محفوظ کرنے کے لئیے جلد بندھوا لی جاتی۔ ایسے ہی شروع سال میں نصابی کتابیں خرید کر جلد ساز کے حوالے کر دی جاتیں اور لمبے انتظار کی تکلیف سہنی پڑتی۔

بعض شوقین حضرات اپنے پسندیدہ ڈیزائن کی ابری لگواتے یا کسی اور دل پسند طریقے سے مُزَیَّب کرواتے۔ یہ شائد کوئی نفسیاتی وجہ تھی کہ کتابیں کم ہوتی تھیں لوگ علم کی قدر کرتے تھے اور کتابوں کو سنبھال کر رکھتے تھے اسی لئیے علوم بھی انسان سے دوستی کرتے تھے اورانسان آدمیت کی معراج کو جا پہنچتے۔ ہمارے ہاں ایک خاتون کام کاج کرنے آتی تھیں بالکل ان پڑھ لیکن راستے میں ملنے والا ہر کاغذ جھاڑ پونچھ کر اور چوم چاٹ کر درختوں کی شاخوں میں اڑس دیتیں یا اونچی جگہ پر رکھ دیتیں۔

اب تو کاغذ اور کتاب کا رواج ہی ختم ہوتا جا رہا ہے کیا سلیبس، کیا ادب، کیا امتحان؟ سب ہی ہواؤں (آن لائن) کی نظر ہو جاتا ہے۔ کتابیں کتب خانوں سے نکل کر فٹ پاتھوں پر رُل رہی ہیں اور جوتے قیمتی اور خوبصورت شوکیس میں اپنے شان بڑھا رہے ہیں۔ (المیہ)

ہمارے ہوش کے وقت کی بات ہے کہ جس محلے میں مسجد ہوتی لوگ حیثیت رکھتے ہوئے بھی مسجد کی چھت سے اونچی گھر کی دیوار یا چھت نہیں ہونے دیتے تھے کہ یہ مسجد کے ادب کا تقاضہ تھا اور ان کے دل میں مذہب کی محبت اور احترام تھا۔ سوچتے ہیں یہ قانون ہونا چاہئے کہ جوتے کی قیمت کتاب سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ (دیوانی کی بڑ)

ہماری بچپن سے عادت رہی ہے پھٹی ہوئی یا ادھڑی ہوئی کتاب نہیں پڑھ سکتے۔ کتاب سلیبس کی ہو یا ادب کی یا پھر ڈائجسٹ و ماہنامے۔ پھٹے ہوئے سرورق الجھن میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ سرورق کے بغیر کتاب بے نام و نشان ہوجاتی ہے، ہمیں ایسے محسوس ہوتا ہے کتاب اپنی برہنگی پر پریشان ہے کلام کر رہی ہے بلکہ گریہ کر رہی ہے کہ پہلے میرا حلیہ ٹھیک کرو۔ پھر مجھے پڑھنا۔ اس لئیے پہلے کتاب کی ستر پوشی کرتے ہیں پھر پڑھ سکتے ہیں ورنہ عجیب سی بے چینی رہتی ہے پڑھا لکھا سمجھ ہی نہیں آتا۔

اسکول کالج میں کتابیں، کاپیاں اس عادت کی وجہ سے نمایاں نظر آتیں، بعد میں بچوں کے سلیبس کی کتابیں اور نوٹ بکس ہم بڑے اہتمام سے بائنڈ کرتے رہے۔ ایکسرے شیٹ بائنڈنگ نے کافی سہولت بہم پہنچا دی۔ کتاب بھی ہلکی پھلکی رہتی اور مضبوطی بھی ذیادہ آ تی۔ پھر یہ فرض بھی ختم ہوگیا بچے چڑ جاتے کہ کتاب ایک ہاتھ رکھے بغیر کھلی نہیں رہتی اور کلاس میں مشکل ہوتی ہے کتاب سنبھالنے میں توجہ منتشر ہو جاتی ہے۔ ہم نے ایکسرے بائنڈنگ چھوڑ دی لیکن عادت سے مجبور ہو کے صرف ٹرانسپیرنٹ شیٹ چڑھانی شروع کر دی تاکہ کتاب کا سرورق گدلا اور بوسیدہ نہ ہو۔

اپنی موٹی اور ضخیم کتابوں کے لئیے ہم نے ایک پرانی حکمت استعمال کی ہے۔ نانی ماں جب بھی آتیں ان کے ہاتھ میں قرآن مجید کے مجروح نسخے ہوتے (بچیاں ان کے پاس قرآن و حکمت کی تعلیم کے لئیے آ تی تھیں پورے گاؤں کی لڑکیوں کی استاد تھیں عربی کے علاوہ اردو اور خط نویسی وغیرہ کی تعلیم بھی دیتی تھیں)۔ وہ مجروح نسخے امی سے مرمت کرواتیں اور کپڑے کے غلاف سلوا کر چڑھا دیتیں۔ امی نے کپڑوں کے جو بچے ٹکڑے سنبھال کر رکھے ہوتے سب کام آجاتے۔

اس طرح قرآن کریم طویل مدت کے لئیے محفوظ ہو جاتا۔ (ہائے کہاں گئے وہ لوگ اور وہ زمانے؟) ضخیم کتابوں کو محفوظ کرنے کا یہ بڑا مؤثر طریقہ ہے۔ ہم نے اپنی یاداشت کے سہارے اپنی کتابوں کو سمیٹا ہے۔ مفادِ عامہ کے لئیے شیئر کر رہے ہیں۔

Check Also

Sifar Se Aik Tak

By Hafiz Safwan