1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Do Sachi Kahaniyan

Do Sachi Kahaniyan

دو سچی کہانیاں

پہلی کہانی۔۔۔

چھ دہائیاں پیچھے کی بات ہے چودہ برس کی ایک لڑکی تھی۔ گوری چٹی۔ مکھن ملائی سے گندھی۔۔ سادہ مزاج خاموش طبع۔ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ بڑی والی بہن اپنے اکلوتے دیور کے لئیے بیاہ لائیں۔۔ دیور انتہائی سخت مزاج تھے۔۔۔ مگر وہ ریشم کی ڈوری نبھاتی رہیں۔ گھر میں روپے پیسے کی ہمیشہ تنگی رہی۔ اپنی بڑی بہن(جیٹھانی) کا موٹا جھوٹا پہن کر صبر شکر کر لیتیں۔ چاہے غریب کا ہو یا امیر کا ہر گھر ایک سلطنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ کوئی محل میں رہے یا کٹیا میں تمام امور ایک سے چلتے رہتے ہیں۔ یعنی گھر داری، بچے، بچوں کی پڑھائی، رشتہ داری، برداری موت، فوت۔۔۔ سو انکی سلطنت بھی چلتی رہی۔

وہ سیدھی سادی چودہ سالہ لڑکی اب چار بیٹوں کی ماں تھی۔ مزاج میں سادگی، صبر اور محبت گندھی تھی جسے وقت نے اور جلا بخشی۔ صبر اور برداشت کی جاگ اس کی تربیت میں تو ڈالی گئی ہی تھی فطرت بھی ایسی ہی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی گئی۔ خاتون کے بچے سکول جانے لگے۔۔ بچوں کے ابا بھی سخت محنت کرتے تب گھر کی دال روٹی چلتی۔ انکے مزاج کو چونکہ کھردرے اتھرے پن اور سختی کی جاگ لگی تھی سو وقت کے ساتھ ان کا مزاج مزید سخت اور پتھریلا ہوتا گیا۔ تھے تو ایک استاد زمانے جہان کو پڑھانے اور انکی اصلاح کرنے والے لیکن اپنی اصلاح کبھی نہ کی بیوی کو پیر میں جوتی کی طرح ہی رکھا۔ ہر روز انکی عزت نفس کچلتے اور آنکھوں سے سیال بن کر بہتی اس عزت نفس کو اوڑھنی میں جذب کرتی جاتیں۔ اوڑھنی دھوتیں تو اس کا پانی کچے صحن اور کیاری میں بہا دیتیں یوں گھر کی بنیادوں میں انکی انا، عزت نفس اور صبر دفن ہوتا رہا۔

ماسٹر صاحب کو ذلت کی شدت سے بہتے یہ آنسو کبھی سچ مچ میں نظر ہی نہیں آئے۔۔ بچے بڑے ہو رہے تھے۔ چاروں بیٹے ماں کا درد محسوس کرتے تھے۔ ماں کے آنسو ان کے دل پہ گرتے تھے جنہیں وہ بے بسی سے دل کے پیالے میں جمع کرتے جاتے۔ باپ کی دہشت اتنی تھی کہ ماں کے حق کے لئے کبھی آواز بلند کرنے کی جرات نہیں کی بس خاموشی سے دیکھتے اور دل میں کڑھتے۔ خیر وقت آگے بڑھا تو ایک بیٹا ڈاکٹر۔ دو بیٹے انجینیر اور ایک بیٹا آرمی میں کرنل کے عہدے تک فائز ہوا۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل ہوگئی۔۔ کٹیا سا گھر محل میں تبدیل ہوگیا اب وہ محبتوں سے گندھی لڑکی گاؤں میں ماں جی کے نام سے مقبول تھیں۔ جس جس گھر میں بیٹوں کے لئیے رشتہ ڈالا ماں باپ نے ہاں کرنے کا وقت نہیں مانگا یوں چار سلجھی ہوئی لڑکیاں اب انکی بہویں تھیں۔ جو اپنی ماؤں سے زیادہ ساس کی عزت کرتیں۔

آنے والی چار مختلف گھرانوں سے تھیں تو الگ الگ مزاج اور تربیت پرتھیں پھر ایک دوسری کے ساتھ بھی چٹخ مٹخ ہو جاتی تھی لیکن شوہر ٹھنڈے مزاج سے سنبھال لیتے۔ سسر کی اب بھی بس دہشت ہی قائم تھی عزت کوئی نہیں کرتا تھا۔ بیٹوں کے دلوں میں ماں کے آنسو جمع تھے سو اپنی بیویوں کے ساتھ معاملات میں ماں کے وہی آنسو سامنے آجاتے اور بیویوں کو صرف آسانیاں ہی ملیں۔ ماں جی تو جنت مکین ہوئیں بچوں کے بچے بھی اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ اپنی محبت، برداشت اور صبر کے دئیے سے جو چراغ انہوں نے روشن رہنے دئیے تھے آج وہ میناروں میں ڈھل چکے ہیں۔ اب وہ گھرانہ گاؤں بھر میں محبت، ایثار اور قربانی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ کہ ایک عورت نے قربانی دے کر ایک خوش و خرم معاشرے کی بنیاد ڈال دی۔

دوسری کہانی۔۔۔

یہ کہانی بھی ساٹھ سال پرانی ہے۔ پندرہ سالہ اکبری بیگم ساتھ والے گاؤں سے بیاہ کر گئی تھی۔ میاں صوبے دار تھا۔ مختلف محاذوں پہ دو دو سال بھیجا جاتا۔۔ تیز طرار اکبری بیگم نے لڑکپن ہی میں کئی طرح کے خواب پالے ہوئے تھے۔ اس کی تربیت بھی اسی ماں نے کی تھی لیکن اس کی فطرت میں اطاعت اور فرمانبرداری کی جاگ فطرت سے ہی نہیں لگی تھی۔۔ شادی ہوئی تو آئے روز جھگڑے بھی رہتے اور اکبری بیگم دو جوڑوں کی گٹھڑی بغل میں دابے جوتے سر پہ رکھے ماں کے گھر پہنچ جاتیں۔۔

صوبیدار ساب لام سے واپس آتے تو مشکل سے صلح صفائی کروائی جاتی اور بیٹی کو واپس بھیجا جاتا۔۔ انکے بھی چار بیٹے ہوگئیے۔ آئے روز کے لڑائی جھگڑوں اور چیخ پکار سے بچوں کے دل پڑھائی سے اچاٹ رہنے لگے۔۔ بی بی کو اپنے دل کی پرواہ تھی سو ان کے آنسو کبھی انکی اوڑھنی میں جذب نہیں ہوئے بلکہ کسی پڑوسن، کسی رشتہ دار عورت کے پلو نے سمیٹ لئے۔ انکی آہیں کسی صحن کے کونے، کیاری میں دفن نہیں ہوئیں۔ بلکہ ہواؤں میں اڑیں اور محلے داروں نے سمیٹیں۔۔ خیر نباہ ہونا تھا نہ ہوا۔ بڑا لڑکا تیرہ برس کا آٹھویں درجے میں پڑھتا تھا اور چھوٹا والا ابھی پاؤں پاؤں چلنا شروع ہوا تھا جب اکبری بیگم طلاق کا جھومر ماتھے پہ سجائے واپس لوٹ آئیں۔

بچے رلتے کھلتے رہے۔ باقی تینوں تو بڑے تھے محلے کے کسی گھر کی خواتین ترس کھا کے کھانا تو بنا دیتیں لیکن چھوٹے کو کون سنبھالتا۔ بچوں کا دل پڑھائی سے پہلے ہی اچاٹ تھا بڑا والا چھوٹے کو سنبھالنے کی مجبوری میں چھٹی کر لیتا اور دوسرے دونوں بھی ایسے ہی سکول جانا چھوڑ بیٹھے۔ اکبری بیگم بھابھیوں پہ ایٹم بم بن کے گری۔۔ جلدی جلدی دوسرے بر کی تلاش شروع ہوئی بھلے وقت تھے رشتے مل ہی جاتے تھے چھوٹی بھابھی نے اپنے بھائی کو قربانی کا بکرا بنایا اور اکبری ایک بار پھر رخصت کر دی گئی۔۔ مہینہ بھر ہی امن رہا پھر وہی جھگڑے فساد رہنے لگے۔۔ کورے کنوارے بھابھی کے بھائی کو جھوٹے برتن میں منہ مارنے سے کراہیت آتی۔ وہ اسے کتے کی ڈبری کہتا اور جھنجھلا کر طعنے دینے لگتا۔ بہن کو بھی گالیاں بکتا۔۔۔ طلاق بھی نہیں دے سکتا تھا کہ پھر بسی بسائی بہن کو بھی دے دی جاتی۔

اکبری ایک بار پھر بغل میں گٹھری دابے روز روز میکے کا رخ کرتی۔ خاندان بردار یہی کہتا جو پیڑ ایک بار جگہ چھوڑ دے وہ کب ہرا ہوتا ہے۔ یونہی لڑتے جھگڑتے ایک دن اکبری بیگم بھی مرگئیں۔۔ پچھلے بچے بھی رل گئیے کوئی پڑھ ہی نہیں سکا۔۔ اب مزدوریاں کرتے ہیں۔ گھر کا کلچر ہی بدل گیا۔ صوبے دار ساب کی اولادیں ترقی کا راستہ کھوٹا کر بیٹھیں۔ ماں کے ہرجائی پن کا طعنہ بیویوں کو دیتے ہیں کہ عورت ہوتی ہی بے وفا اور ہرجائی ہے۔ ایک بد نظمی اور جہالت گھروں کا مزاج بن گئی ہے۔ بھابھی کی زندگی بھی دئیے کی لو پر ٹمٹماٹی رہی۔۔

ایک عورت اگر قربانی دے لیتی اپنے آنسو ایک کونے میں دبا دیتی تو کتنے خاندان تباہ ہونے سے بچ جاتے۔ وہی خاندان جو بعد میں ایک منتشر معاشرہ بنتے ہیں۔۔

Check Also

Amma Ke Niwari Palang

By Tahira Kazmi